خادم رضوی اور نواز شریف کے خلاف غداری کے مقدمے میں متضاد عدالتی موقف


لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم رضوی کے خلاف غداری کی درخواست کو فضول قرار دے کر رد کردیا ہے۔ فضول کا لفظ اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ عدالت نے خادم رضوی کے خلاف غداری کی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیا ہے۔ پاکستان کے ایک شہری ہیں جن کا نام شبیراللہ ہے۔ خادم رضوی کے خلاف غداری کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں انہوں نے دائر کی تھی۔ شبیر اللہ کی پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ تین دن تک مسلسل اس ملک میں توڑ پھوڑ کی گئی۔

کروڑوں کی املاک کو تہس نہس کردیا گیا۔ موٹر سائیکل، کاریں، رکشے اور ٹرک جلائے گئے، اس کے علاوہ لاکھوں انسان ان تین دنوں میں شدید تکلیف اور کرب کا شکار رہے۔ پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ خادم رضوی نے فوج کے خلاف بیانات دیے۔ عدلیہ کے اعلی ججوں کو قتل کرنے کے فتوے جاریکیے۔ اس لئے ایسے انسان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جانا چاہیے۔

شبیر اللہ کی درخواست کی سماعت جسٹس عاطر محمود نے کی۔ محترم جسٹس صاحب کا سماعت کے دوران فرمانا تھا کہ جہاں تک تین دنوں کی توڑ پھوڑ کا سوال ہے اس پر پہلے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے سو موٹو نوٹس لے لیا ہے۔ غداری کے سوال پر جسٹس صاحب کا فرمانا تھا کہ عدلیہ غداری کی کارروائی خود نہیں کرسکتی۔ یہ وفاقی حکومت کا کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں پر پہلے ہی سے کیسز کا دباؤ ہے۔ اس طرح کی درخواستوں سے عدالت پر مزید بوجھ ہوگا۔ جسٹس صاحب کی ان ریمارکس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عدالت اس طرح کی فضول پٹیشن کی سماعت کرکے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

جسٹس صاحب نے یقینا انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شبیراللہ کی غداری کی پٹیشن رد کی ہے۔ لیکن اس سے جڑا ایک اور اہم سوال ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ جب جسٹس صاحب شبیراللہ کی درخواست پر یہ ریمارکس دے رہے تھے تو اسی وقت دوسری عدالت میں غداری کے کیس کی سماعت ہورہی تھی۔ سرل المیڈیا، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر اعظم نوازشریف پر غداری کا مقدمہ چھ ہفتے سے چل رہا ہے۔ غداری کے یہ مقدمات سول سوسائٹی نیٹ ورک کی کارکن آمنہ ملک کی پٹیشن پر چل رہے ہیں۔ جب غداری کی یہ پٹیشن سماعت کے لئے منظور کی گئی تھی تو کیا اس وقت وفاقی حکومت سے رائے مانگی گئی تھی؟ کیا وفاقی حکومت سے پوچھا گیا تھا کہ غداری کا مقدمہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟

جن پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے ان میں سے ایک معروف کالم نویس ہیں اور دو سابق وزرائے اعظم ہیں۔ کیا خادم رضوی نے فوج کو بغاوت پر نہیں اکسایا تھا؟ کیا انہوں نے اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف بات نہیں کی تھی؟ کیا تین دنوں تک توڑ پھوڑ نہیں کی گئی؟ اگر آمنہ ملک پاکستانی ریاست کی شہری ہیں تو کیا شبیر اللہ پاکستانی ریاست کے شہری نہیں ہیں؟ ٹھیک ہے غداری کا مقدمہ نہیں تو کیا توہین عدالت کا کیس خادم رضوی پر نہیں بنتا؟ دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے تین دن کے توڑ پھوڑ پر سوموٹو نوٹس لیا ہے غداری پر سو موٹو نوٹس نہیں لیا تھا۔ ہم سب پاکستانی چیف جسٹس کے شکر گزار ہیں کہ کم ازکم انہوں نے سوموٹو تو لیا۔

ویسے ایک بات تو درست ہے کہ پہلے ہی عدالتوں پر سترہ لاکھ کیسز کا دباؤ ہے۔ اوپر سے خادم رضوی کے خلاف غداری کی پٹیشن کا بوجھ کیوں؟ کیا ہوا کہ تین چار دن تک اگر اس ملک میں توڑ پھوڑ ہوتی رہی ہے۔ اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ایک انسان ججوں اور فوج کے خلاف توہین آمیز اور خطرناک زبان استعمال کرتا رہا ہے؟

صحافیوں اور سیاستدان پر تو ہمیشہ غداری کے مقدمات ہوتے رہے ہیں اور معلوم نہیں کب تک ہوتے رہیں گے۔ بیچارے خادم رضوی کو غداری کے مقدمے میں پھنسانے کی کیا ضرورت ہے؟ فیض آباد دھرنے پر نواز حکومت امن معاہدہ کرسکتی ہے تو تین دن کی توڑ پھوڑ اور فوج و عدلیہ کی توہین پر عمران خان کی حکومت بھی دھرنے والوں سے معاہدہ کرکے امن لائی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ ایسے معاہدوں سے حکومت اور عوام کا تو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ریاست کا کیا، بیچاری پاکستانی ریاست تو پیدا ہی لیٹنے کے لئے ہوئی ہے۔ انصاف کا بول بالا ہورہا ہے۔ عدالتیں انصاف کررہی ہیں۔ حکومت امن معاہدے کررہی ہے اور ریاست سرنڈر کررہی ہے۔ دیکھا جائے تو عمرانی دور حکومت میں سب اچھا ہی ہورہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).