ہوائی فائرنگ اور مفرور عشق


ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ ناموس رسالت کے مقدس نام پر ذاتی مقاصد کی تکمیل کا اچھا موقع تھا۔ موقع پرست عناصر، سربراہان دھنگا و فساد اور طفلان کوچہ و بازار برساتی مینڈکوں کی طرح باہر نکل کر ٹر ٹر کر رہے تھے۔ جگہ جگہ ناکے لگا کر شہر بند کر دیے گئے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے خدا کے نام پر ہونے والے فساد فی الارض میں خدا کی زمین پر بے یارو مدد گارہو گئے۔

دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنے عشق رسول کا اظہار کرنے کا تازہ تازہ سبق پڑھ کر آنے والے ڈنڈا برداروں کے ہاتھوں سبھی تکلیف اٹھا رہے تھے۔ گاڑیاں محفوظ تھیں نہ راہگیر۔ ہر قسم کے پرجوش نعرے لگا رہے جا رہے تھے۔ ان نام نہاد عاشقان میں ایسے بھی تھے جنہیں گھر والے گھاس ڈالتے ہیں نہ گلی محلے والے پوچھتے ہیں۔ لیکن آج و ہ جو جی میں آئے کر رہے تھے جسے چاہیں پتھر ماریں جس کی گاڑی کو چاہیں آگ لگا دیں۔

ان کٹھ پتلیوں کے سرغنہ جگہ جگہ سٹیج بنا کر اور کچھ بنا سٹیج کے ہی پر جوش خطابت کے جوہردکھا رہے تھے۔ ان کے آگے ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہ رہی تھی جیسے بہتا ہوا لاوہ ہر سد راہ کو خاکستر کرتا جائے۔ ”جو منہ میں آئے کہ دو“ کی پالیسی پر عمل پورے جوش سے جاری تھا۔ کوئی روکنے والا تھا نہ پوچھنے والا۔ جو کچھ کہا جا رہا تھا وہ بے ربط بھی تھا اور بے ربط کرنے والا بھی۔

ایک معروف سٹرک پر ایسے ہی نو خیز عاشقان کا ایک گروپ قبضہ جمائے ہوئے تھا۔ مختلف اشیاء رکھ کرروڈ بند کر دی گئی تھی۔ گاڑیوں کی قطاریں لگ رہی تھیں۔ نعر وں اور تقریروں کا شور عروج پر تھا۔ بزعم خویش ان سے بڑا عاشق روئے زمیں پر کوئی نہیں تھا۔ بیشمار نعروں میں سے ایک نعرہ یوں بھی تھا۔ ”غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے“۔ ایک لمحے کے لئے کسی کو بھی دھوکا ہو سکتا تھا کہ واقعی یہ لوگ ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔

ان کے سربراہ کی تقریر کچھ یوں تھی۔ ہمیں بھون ڈالو۔ ہمیں جیلوں میں ڈال دو لیکن ہم اپنے موقف سے نہیں ہٹیں گئے۔ ہم ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے کفن باندھ کر چلے ہیں۔ اپنے عشق پر حرف نہ آنے دیں گے۔ کبھی خوف زدہ نہ ہوں گے۔ کبھی بھاگیں گے نہیں۔

اسی اثنا میں ایک گاڑی وہاں آن پہنچی جس میں چند نوجوان سوار تھے۔ انہوں نے راستہ مانگا تو سرفروشان اسلام نے کہہ دیا نہیں جا سکتے۔ دیکھتے نہیں روڈ بند کی ہوئی ہے۔ یہاں سے کوئی نہیں گزر سکتا۔ جب تک ہمارے مطالبے پورے نہیں ہوتے ٹریفک جام رہے گا۔ کوئی نہیں گزر سکتا کوئی بھی نہیں۔

گاڑی میں سے ایک نوجوان باہر نکلتا ہے۔ ا س کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ وہ جلوس کے سرغنہ سے کہتا ہے ”ہمیں گزرنے دیں“۔

”یہ نہیں ہو سکتا دیکھتے نہیں راستہ مکمل بند ہے۔ سب لوگ رکے ہوئے ہیں۔ تمہیں کوئی زیادہ جلدی ہے۔ ہمارے مطالبات کے پورے ہونے تک راستہ نہیں کھل سکتا۔ ہم عشق رسول کے لئے جان بھی دے دیں گے پر راستہ نہیں کھولیں گے“۔

نوجوان کو غصہ آگیا۔ اس نے بندوق سیدھی کی۔ بلٹ چڑھائی اور فائر کھول دیا۔ حرمت رسول کے خود ساختہ دعویدار آناً فاناً غائب ہوگئے۔ جس کو جہاں جگہ ملی چھپ گیا۔ سٹرک صاف ہوگئی۔ عشق رسول یا درہا نہ حرمت رسول کی حفاظت۔ غلامی رسول کی صدا یادرہی نہ جان نثاری کا دعویٰ کام آیا۔ کچھ عاشقوں کی ہوا دو چار تھپڑ کھاکر نکل گئی۔ پورا ملک جام کرنے والے، امریکہ و اسرائیل کو فتح کرنے کے دعویداروں کے سرسے عشق کا بھوت صرف ہوائی فائرنگ سے ہی اتر گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).