افغان امن مذاکرات، روس اور پاکستان


مسلمان ممالک کے جو جو بھی مسائل اور مشکلات ہیں بد قسمتی سے ان کا حل مسلمانوں کے پاس جیسے ہے ہی نہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے جو خود مسلمانوں کو سمجھ میں آکر نہیں دے رہی اور جب تک مسلمانوں کی اپنی عقل اپنی جگہ پر نہیں آجائے گی اس وقت تک ان کے نصیب کی بد بختی ختم ہو کر نہیں دے گی۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر وہ مسلمان کے علاوہ اور کچھ نہیں تو پھر انھیں اسی دستور کو نافذ کرنا ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کے لئے بنادیا ہے بصورت دیگر وہ ذلت اور رسوائی کے علاوہ دنیا اور آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ کر سکیں گے۔

نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مسلمان اپنی ہر مشکل اور مصیبت کا حل اہل کفر سے دریافت کرتے ہیں اور جب بھی کسی آفت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ چین، امریکہ، یورپین ممالک اور روس کی جانب ملتجی نگاہوں کے ساتھ دیکھنے لگتے ہیں۔ ایک عام سی بات ہے کہ آپ کا دشمن کیا آپ کے مسائل دور کرکے اپنے لئے کوئی مصیبت پال سکتا ہے؟ چند لمحوں کے لئے ملک، ملت، مذہب اور ہر قسم کی عصعبی منافرت سے ہٹ کر محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر بھی اس بات کو پرکھا جائے کہ کیا آپ کی ذات کا دشمن آپ کی خیر خواہی چاہ سکتا ہے؟

جواب ممکن ہے ہاں میں آئے لیکن اس کے عوض آپ کو اپنی ساری مرضی و منشا دشمن کے حوالے کرنا پڑے گی یعنی با الفاظ دیگر خود کو دشمن کے پاس گروی رکھوانا پڑے گا تب جاکر آپ کا جانی دشمن کسی غیر کے مقابلے میں آپ کی مدد کو تیار ہوجائے گا بصورت دیگر دشمن سے مدد طلب کرنے کا خواب کسی صورت شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں امن بحال کرنے میں اسی طرح ناکام ہو گئے ہیں جس طرح امریکا ویتنام میں اپنا منھ کالا کرا بیٹھا تھا۔ جب امریکا کی ناکامی کے ذکر کے ساتھ اتحادیوں کی ناکامی کا تذکرہ بھی سنائی دے تو کیا دنیا پاکستان کو امریکا کا اتحادی تصور نہیں کرتی؟ کیا اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ ہے کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے، کیا اس میں پاکستان کا کردار بے داغ ہے؟

دنیا جانتی ہے کہ اگر پاکستان آج بھی امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کردے تو امریکا کی کامیابی تو کامیابی، امریکا افغانستان سے اپنی افواج کو زندہ سلامت بچا لیجانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ روس کی افغانستان میں شدید ناکامی میں امریکا کا جتنا ہاتھ تھا اس سے کئی گناہ بڑا کردار پاکستان کا تھا جس نے عوام کے اندر جذبہ جہاد کو ابھار کر لاکھوں افراد کو افغانستان میں داخل کیا اور ان بے جگر افراد نے دلیرانہ مقابلہ کرکے اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرکے روس کو اس بات کے لئے مجبور کردیا کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے بھاگ جائے۔ روس نہ صرف افغان سر زمین چھوڑنے پر مجبور ہوا بلکہ معاشی اعتبار سے اس حد تک کمزوربھی ہو گیا کہ کئی ریاستیں اس کی دسترس سے نکل گئیں۔

میر تقی میر کی کہانی بھی عجیب ہے، جس عطار نے ان کو بیمار کیا تھا وہ اسی عطار کے لونڈے کے پاس دوا لینے پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہی حال افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا ہے کہ درد کے مداوے کے لئے اسی در پر حاضری دینے کے لئے تیار و آمادہ ہیں جو انھیں ماضی میں رنج و الم پہنچا چکا ہے۔

خبر ہے کہ افغانستان میں روسی سفیر ضمیر کابلوف کا کہنا ہے کہ ماسکو افغان امن مذاکرات کے آغاز میں کردار ادا کررہا ہے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان جنگ ہار چکے ہیں۔ خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ضمیر کابلوف نے کہا کہ ماسکو میں منعقد کردہ افغان عمل کانفرنس میں افغان حکام اور طالبان ایک ساتھ موجود تھے جو مکمل امن مذاکرات کی کوشش کی طرف پہلا قدم تھا۔ ضمیر کابلوف کا کہنا تھا کہ روس قیام امن کی کوشش میں کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے روس اور اس کے وسطی ایشیا کے اتحادیوں کو سیکیورٹی خطرات درپیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی طالبان کو شکست دینے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ مغرب، افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے۔ ضمیر کابلوف نے مزید کہا کہ افغانستان میں موجود امریکا اور نیٹو نے نہ صرف اس مسئلے کے خاتمے میں ناکامی کا سامنا کیا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔ ضمیر کابلوف نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہ مزید کہا ہے کہ طالبان افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کا شیڈول دینے کی صورت میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر سیاسی قیدیوں کی رہائی اور طالبان کے خلاف 1997 ء سے عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہاں پاکستان کے لئے جو بات غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہی وہ روس ہے جس کو پاکستان اور امریکا کے اتحاد کے نتیجے میں بڑی ذلت کا سامنا در پیش رہا ہے۔ افغان وار میں جس طرح امریکہ کا کردار ڈھکا چھپا نہیں اسی طرح پاکستان کا کردار بھی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ ایک بات اور بھی غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ روس میں امن مذاکرات محض امن بحال کرنے کے لئے نہیں ہو رہے اور نہ ہی اس لئے ہو رہے کہ مستقبل میں بننے والی حکومت کس کے زیر تسلط ہونی چاہیے۔

مذاکرات لگتا ہے کہ ایک ہی نقطے پر مرکوز ہیں اور وہ نقطہ صرف اور صرف یہ ہے کہ امریکا جب افغانستان چھوڑنا چاہے تو اس کی افواج کو تمام ساز و سامان کے ساتھ فرار ہونے میں مدد دی جائے، بعد میں کیا ہونے والا ہے یا کیا ہوگا، یہ بات اب تک کے مذاکرات میں زیر بحث آئی ہی نہیں۔ دوسرے معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ افغان جنگجوؤں کو صرف اس بات پر راضی کیا جارہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں انھیں ان کے مظالم کے جواب میں اعلیٰ پروٹوکول کے ساتھ جانے دیا جائے۔

اس بات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ مذاکرات کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب افغان جنگجو روس کی بالادستی تسلیم کر لیں یعنی کوئیں سے نکل کر کھائی میں جا پڑیں۔

پاکستان کو یہ بات بھی لازماً پیش نظر رکھنا چاہیے کہ روس کی بالا دستی کو ماننے والے اور ان کے ذریعے مسند اقتدار تک رسائی حاصک کرنے والے کیا پاکستان کے ہمدرد ہو سکتے ہیں؟ کیا روس جس کو محض پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے ماضی میں سخت خفت اٹھانی پڑی ہو، اپنے ہی ملک (روس) کو پارہ پارہ کرنا پڑا ہو، کسی ایسی حکومت کے آجانے سے جو خود اپنا سب کچھ روس کے حوالے کر چکی ہو کیا وہ پاکستان سے خوشگوار تعلقات قائم رکھ سکی گی؟ کیا روس ساری تلخیاں بھول کر پاکستان کو اپنے سینے سے چمٹالے گا۔

ایک ایسی موجودہ افغان حکومت جس کی زندگی کا انحصار صرف اور صرف امریکا ہے، جب وہ بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتی ہو اور افغانستان میں ہر منفی کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتی ہو، جبکہ پاکستان امریکا کا اتحادی کہلاتا ہو اور افغانستان میں امریکا کی ہر پالیسی حمایت کرتا ہو، اگر وہ حکومت بھی پاکستان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہو تو پھر ایک ایسی حکومت جو روس کی سرکردگی میں افغانستان میں قائم ہو گئی اور جس کے امکانات بھی روشن ہونے لگے ہیں تو کیا وہ پاکستان کے لئے کسی سکون اور سلامتی کا سبب بن سکے گی؟

ایک جانب یہ سارے پہلو اور دوسری جانب یہ صورت حال کہ پاکستان میں جن جہادیوں نے روس سے بے دخل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا، پاکستان نے ان کے خلاف بھی بھر پور کارروائیاں کرکے ان کو اپنا دشمن بنا لیا۔ یہ وہی طالبان ہیں جو کبھی پاکستان ہی کو اپنا دوست سمجھا کرتے تھے اور کسی حد تک یہ سب کے سب بھی امریکا کے اتحادیوں میں شامل تھے لیکن اب امریکا کی طرح ان کے مفادات بھی بدل چکے ہیں۔ پہلے ان کا مفاد بے شک روس سے دشمنی ہی تھا لیکن اب امریکا کی دشمنی ان کو روس کے قریب کر گئی ہے۔ ان حالات میں کیا طالبان کا افغانستان میں غالب آجانا پاکستان کے حق میں ہوگا؟

امید ہے کہ وہ تمام افراد جو روس میں افغان امن مذاکرات میں شامل ہیں ان سب کو بہت ذمہ داری اور باریک بینی کے ساتھ ان تمام معاملات کو دیکھنا ہوگا۔ اگر فیصلہ اور تجزیہ کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی ہو گئی تو اس کے بڑے خوفناک نتائج برامد ہو سکتے ہیں۔

افغان امن ایک دیرینہ خواہش سہی لیکن ہر خواہش کی تکمیل باعث مسرت و شادمانی نہیں ہوا کرتی لہٰذا جو بھی کیا جائے وہ بہت سمجھ داری کے ساتھ کیا جائے اور خوب پرکھ لیا جائے کہ پاکستان کے حق میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).