ڈی جی نیب اور افسر تعلقات عامہ میں فرق ہوتا ہے


جمہوریت کا حسن اداروں کی مضبوطی میں ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اداروں کا انظام و انصرام بعض اوقات نہ سمجھ میں آنے والا ہو جاتا ہے۔ جیسے آج کل نیب کا ہوا ہے۔ نیب کا ادارہ شفافیت کے اعلیٰ معیارات پائے، یہاں ملکی پیسہ لوٹنے والوں کا حساب ہو، یہ ادارہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کے اس ملک کے ساتھ نیکی بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن نیب جیسا اہم ادارہ نہ جانے مشاورت کے کون سے پہلوؤں کے تحت خود کو متنازعہ ٹھہرا کے شاید اپنے معاملات میں سہولت محسوس کرنے لگا ہے۔

سب سے پہلی بات کہ اداروں میں زبان نہیں بولتی بلکہ قلم بولتا ہے اور قلم بھی ایسے بولتا ہے کہ بہت سوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں۔ تب ہی تو جمہوریت کا حسن برقرار رہتا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جمہوریت سدا سہاگن رہتی ہے۔ لیکن جب قلم کے بجائے زبان بول رہی ہے تو پھر معاملات میں ایک کرختگی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ چاہے زبان ٹھیک بھی بولے تو بھی درست شاید نہیں کہ جہاں زباں کا بولنا مقصود ہی نہیں وہاں غصہ نکالنے کا جب آپ کے پاس دوسرا اختیار موجود ہے تو زبان سے الفاظ کی ادائیگی کر کے اپنی کم مائیگی کا ساماں کیا ہی کیوں جائے۔ یہ مجھے کوئی سمجھا دے یا خود سمجھ لیں۔

نہایت ہی قابل احترام ڈی جی نیب جناب شہزاد سلیم پچھلے کچھ دنوں سے خبروں کی زینت بن رہے ہیں کہ شاید انہوں نے مناسب یہی سمجھا ہے کہ ادارے کے کسی ترجمان، کسی افسر تعلقات عامہ، کسی میڈیا آفیسر کے بجائے خود الیکٹرانک میڈیا پہ آکے اپنا موقف دینا شروع کر دیں اور جاری مقدمات پہ اپنی رائے دینا اپنا فرض عین سمجھنا شروع کر دیں۔ سب سے پہلی بات کہ کیا یہ ذمہ داری واقعی ڈی جی نیب جیسے عہدے کے شخص کی تھی کہ وہ معاملات پہ یوں میڈیا پہ لب کشائی کرئے؟

کیا اس مقصد کے لیے باقاعدہ کوئی پوسٹ ادارے میں نہیں ہے؟ کیا میڈیا سے بات کے لیے باقاعدہ کوئی اس شعبے میں مہارت رکھنے والا فرد نیب کے پاس ہے ہی نہیں؟ کیا عوام کے سامنے میڈیا پہ لائیو آنے کے لیے کوئی ایسا شخص موجود نہیں جس کے پاس پورے پاکستان سے جاری کیسز کے حوالے سے معلومات کا خزانہ ہو؟ کیا ڈی جی رینک کا فرد اب میڈیا پہ آ کے معاملات سنبھالے گا؟ اور دوسری سب سے اہم بات کہ کیا جاری مقدمات کے حوالے سے میڈیا میں یوں ببانگ دہل بولا جا سکتا ہے؟

اور حد یہ کہ ایک پروگرام میں کچھ اور دوسرے پروگرام میں دیدہ دلیری سے دوسری بات کہی جا سکتی ہے؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک ہی دن چار مختلف چینلز پہ آکے چار مختلف لہجوں میں موقف ایسے دینا جیسے نیب ایک ادارہ نہ ہوا کسی کی ذاتی مخاصمت ہو گئی۔ دوسری اہم ترین بات یہ کہ ڈی جی نیب کئی سوالات کے جواب میں کہتے پائے گئے کہ مجھے مکمل معلومات نہیں ہیں۔ تو عرض بس اتنی سی ہے کہ اگر معلومات مکمل نہیں ہیں تو ایسے چینل پہ آ کے بیٹھنے کا مقصد کیا؟

اور اگر چینل پہ آنا ہی ہے تو آپ تاثر کیوں قائم کر رہے ہیں کہ کسی سے ذاتی مخاصمت نکال رہے ہیں۔ خواجہ برادران نے تو شاید اسی لیے درخواست بھی دے ڈالی چیئرمین نیب کو اور حقیقتاً دیکھا جائے تو وہ کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں کہ ایک ڈی جی لیول کا عہدیدار کس طرح میڈیا پہ آکے یہ بیان دے سکتا ہے کہ فلاں کو پکڑ لیا ہے، فلاں پکڑا جانے والا ہے، فلاں بھاگ گیا ہے۔ بھئی آپ ایک تحقیقاتی ادارے کے کرتا دھرتا ہیں۔ آپ تحقیق کیجیے، تفتیش کیجیے، تعین کیجیے کہ کون مجرم ہے اور کون نہیں۔

ایسے میڈیا پہ آ کے باتوں کا کیا جواز، آپ کے پاس تو سارے اختیارات ہیں۔ سارے اختیارات استعمال کیجیے اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیے۔ ایسے میڈیا پہ بیان بازی سے آپ قصور وار کو بچ نکلنے کا راستہ مہیا کرنے کا سبب بن رہے ہیں کہ وہ کہنے پہ حق بجانب ہوں گے کہ ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ مختلف سوالات کے جوابات پہ جب محترم ڈی جی نیب لاہور سیخ پا ہو گئے تو باتیں کرنے والوں کو مزید موقع مل گیا کہ دیکھیں جناب ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ذاتی مخاصمت نکال رہے ہیں۔

اگر آپ نے میڈیا پہ آنے کا غلط فیصلہ کر ہی لیا تو پھر اپنے اس فیصلے کو اپنے رویے سے تو درست ثابت کیجیے۔ آپ کی ذات بھی زیر بحث آئے گی۔ تھوڑا برداشت سے کام لیجیے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے آگے بیٹھا اینکر آپ کی مرضی کے سوالات نہ ہی پوچھے۔ میٹھے سوالات کے ساتھ کچھ کڑواہٹ بھی ہو تو پھر سہنا سیکھیے اور اپنی ذات پہ بات آنے پہ ایسے لہجے میں جواب دیجیے کہ آپ کا عمل ہی آپ کی پہچان بنے۔

افسوس ہوتا ہے اپنے ہاں کا یہ کلچر دیکھ کر کے ہر کوئی میڈیا پہ آنے کو اپنی کامیابی تصور کرنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک تھیلا آٹا بھی کسی کو دینا ہوتو کیمرہ لازمی ہے۔ کہیں ایک پودا بھی لگانا ہو تو جب تک کیمرئے کا فلیش نہیں چمکے گا ممکن نہیں ہو سکے گا اور صاحب کے ہاتھ میں بیلچہ قائم و دائم رہے گا۔ سونے پہ سہاگہ کہ یہاں تو تو ویرانوں میں فیتے کاٹنے کو بھی میڈیا پہ آنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اور مزید ظلم یہ کہ ہمارے ہاں جس کا کام اُسی کو ساجھے کو تو شاید بطور محاورہ بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

جہاں معاملات تھوڑا دگرگوں ہوں کھینچ تان کے اپنے زیر سایہ کام کرنے والوں کو سامنے بطور ذمہ دار لایا جاتا ہے۔ اور جہاں تھوڑا کیمرے پہ رونمائی کا موقع ملے، جہاں بھی اپنے آپ کو سامنے لانے کا موقع ملے تو جس کا کام ہو اس کو پیچھے کر کے خود آگے چھلانگ لگا دی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی چھلانگ اندازے سے غلط بھی لگ جاتی ہے اور گرنے کے آثار بھی پیدا ہونے لگتے ہیں۔ افسر تعلقات عامہ یا میڈیا کوآرڈینٹر کے بجائے خود میڈیا کی زینت بننے پہ ڈی جی نیب کو بھی آج کل ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ کیمرے کے سامنے تو آ گئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سوں کے سامنے آ گئے اور یہ سامنے آنا ہی ان کے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).