صوبے کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہوسکتا ہے


پاکستان میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف سمیت کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو کہ اس بات سے انکار کرے کہ اس نے پنجاب میں نئے صوبوں (سرائیکی۔ بہاولپور) میں تقسیم کرنے کی حمایت نہیں کی ہے، اس بات بھی سے کوئی سیاسی جماعت کا لیڈر انکار نہیں کرسکتاہے کہ اس نے پنجاب کی تقسیم کو دیگر صوبوں مطلب سندھ (کراچی) ، خبیرپختونخوانہ (ہزارہ) اور بلوچستان (پشتونستان) میں نئے صوبوں کے قیام سے نتھی نہ کیا ہو۔

یہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ چاروں صوبوں میں نئے صوبوں کی آوازیں ہی نہیں آرہی ہیں بلکہ شدت کے ساتھ تحریکیں چل رہی ہیں جن کو سیاسی جماعتیں اپنی ضرورت کے وقت سیاسی برتری کے لئے استعمال بھی کرتی ہیں۔ پنجاب میں دلچسپ صورتحال یوں چل رہی ہے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر جوسرائیکی اور پنجابی لیڈرشپ کا الیکشن سے قبل اتحاد ہوا تھا اور اس محاذ کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس بات کا یقین دلایا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی جنوبی پنجاب صوبہ کو پہلے سو دنوں میں عملی شکل دیں گے، یوں یہ گروپ ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی موجودگی جذباتی تقریروں کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگیا تھا۔

عمران خان کو ان کی آمد کے بعد پنجاب میں بہترپوزیشن یوں مل گئی کہ آبائی حلقوں میں ان کا ووٹ بنک تھا اور پھر جوتبدیلی کی ہوا میں خراب ہورہا تھا، وہ بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے فیصلہ کے بعد ان کے پیچھے چاہتے نہ چاہتے ہوئے کھڑا ہوگیا تھا۔ مقامی سیاست میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور ضلعی قیادت کے لئے صوبہ محاذ کے نام پر اکٹھے ہونیوالوں کی سیاسی تابعداری کرنایوں مشکل تھا کہ ان میں اکثریت وہ تھی جو دس سال سے نوازلیگی قیادت کے لئے قومی اسمبلی میں ڈیسک بجا بجا کر ہاتھ لال کرچکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صوبہ محاذ کے وفاقی وزیر خسرو بختیار کو حالیہ اجلاس قومی اسمبلی کے اجلاس میں احسن اقبال اور نوازلیگی ارکان نے ”لوٹا ای لوٹا“ کے نعروں سے تنگ کیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کے نعرے کو ساری سیاسی پارٹیوں نے تحریک انصاف کی قیادت کی طرح الیکشن سے قبل اپنے اپنے انداز میں کیش کروایا ہے۔ پیپلزپارٹی جوکہ اب سرائیکی صوبہ کے نام سے چڑتی ہے اور اپنے اقتدار میں سرائیکی لفظ کو ختم کرنے میں یوں مصروف رہی ہے کہ آخر پر جاتے ہوئے سرائیکی صوبہ کا متبادل نام جنوبی پنجاب صوبہ دے گئی اور اپنے وعدے سرائیکی صوبہ کے نعرے سے بھی مکر گئی جوکہ اس نے الیکشن مہم میں سرائیکی عوام کے ساتھ کیا تھا۔

اسی طرح آصف علی زرداری نے سرائیکی عوام کو ایک اور گولی بھی کروائی تھی کہ سرائیکی صوبہ کے لئے ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے اور ہم آپ کی دلجوئی کے لئے سرائیکی بنک بنارہے ہیں، دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ اس بات کا اظہار زرداری نے گیلانی ہاوس ملتان میں کیا تھا اور اس وقت ملتان کے نامور دانشور بھی موجود تھے لیکن سب موصوف کے سامنے خاموش ر ہے۔ بصد احترام اتنا بھی نہیں کہاکہ حضور آپ اب سرائیکی صوبہ کے پانچ سال ڈرامہ کے بعد سرائیکی بنک تک آگئے ہیں۔

پھر یوں ہواکہ آصف علی زرداری سرائیکی بنک کے معاملے پر بھی اپنی بات پر قائم نہ رہے اور سرائیکی بنک وجود میں نہ آسکا۔ ادھر نوازلیگی لیڈر نوازشریف نے بھی سرائیکی صوبہ کے ساتھ قیام کے علاوہ بہاولپو ر صوبہ کی بحالی کے لئے سرائیکی قوم کو تسلی ہی نہیں دی تھی بلکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو الیکشن مہم میں دعوت دی تھی کہ آئیں اور ملکر پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کے لئے ملکر بیٹھتے ہیں لیکن پھر اقتدار ملتے ہی سب کچھ بھول گئے اور ویسا ہی کیاجوکہ پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے پاکستان کی ساری لیڈرشپ کرتی آرہی تھی۔

مطلب الیکشن مہم میں وعدے پر مٹی پاؤ تھے روٹی شوٹی کھاؤ پالیسی برقراررکھوِ۔ اب تحریک انصاف کی قیادت کا امتحان اسوقت سے شروع ہوچکا ہے، جب سے وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آچکی ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں کو پہلی کامیابی تو اقتدار میں اسوقت مل گئی تھی جب انہوں صوبائی اور وفاقی وزرارتوں میں کوٹہ حاصل کرلیا اور ساتھ ہی وزیراعلی پنجاب بھی بنوالیا لیکن جس سرائیکی عوام کے نام پر انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ڈیل کی تھی اور ان کو ٹکٹیں اور پروٹوکول مل تھا، ان کے لئے جنوبی پنجاب صوبہ کے نعرے کو حقیقت ملنا اب بھی خواب ہے، جیسے راقم الحروف کے پچھلے کالم بعنوان پنجاب تقسیم نہیں ہوگا، میں صوبائی وزیرمحسن لغاری کے ساتھ بات چیت کا ذکر کیا تھا کہ موصوف کو اب پانی کی تقیسم میں درپیشں مشکلات کی وجہ سے پنجاب تقسیم نظرہوتانہیں آرہا ہے۔

ادھر اب وفاقی وزیر خسرو بختار کو اپنے علاوہ چھوٹے بھائی خوش بخت کو پنجاب میں وزرات ملنے کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام میں وہ دلچسپی نظرنہیں آرہی ہے جوکہ ان حالات میں درکارتھی، جب وہ اور بھائی وزیر نہیں تھے۔ ادھر بڑی تیزی کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے دیے گئے سودن کے وعد کا دن قریب آرہا، عوام کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے حوالے سے پیشرفت کے بارے میں سوال اٹھایاجارہاہے لیکن دوسری طرف موجود وہاں کی سیاسی قیادت نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی ہیں، وہ بھی وہی سلیبس استعمال کررہے ہیں کہ ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے، ہم کوشش کررہے ہیں، ہم منی سیکریٹریٹ بنانے جارہے ہیں، ایگزیکٹو آرڈر سے صوبہ بن سکتاہے تو آج ہی وزیراعظم جاری کرسکتے ہیں، جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے کمیٹی بنادی ہے، پانی کی تقسیم کس طرح ہوگی، آپ سمجھنے کی کوشش کریں، معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے صوبہ کا چورن دیگر جماعتوں کی طرح صوبہ محاذ اور پھر تحریک انصاف کی طرف سے صرف الیکشن میں برتری کے لئے استعمال کیاگیا تھا، بعدازاں اقتدار کے حصول کے بعد بیان بازی صرف کارروائی کا حصہ ہے جوکہ اگلے الیکشن تک چلتی رہیگی۔

ادھر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں کھڑے ہوکر جنوبی پنجاب صوبہ کی بجائے سرائیکی صوبہ کا نام دوبارہ دیا ہے، ان کی اس بات کی سمجھ نہیں آئی ہے کہ وہ سرائیکی صوبہ کے نام کی طرف کیوں لوٹ گئے ہیں، ایسا تو نہیں ہے کہ عوام کو ایک بارپھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی باریک کارروائی ہے، قریشی صاحب اس بات سے واقف ہیں کہ نام جو بھی جنوبی پنجاب کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کو علیحدہ صوبہ دیاجائے تاکہ وہ زندگی کے دن اپنی مرضی کے مطابق پورے کرسکیں۔

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ایک بار پھر زرداری والی گولی دی جارہی ہے کہ اب نام کا ایشو پہلے وہ حل کرلیں اور پھر صوبہ بھی بنالینگے۔ شاہ محمود قریشی جیسے سمجھدار بھی سوچ رہے ہیں کہ ان کو بلاول یاپھر نوازلیگی قیادت سے جنوبی پنجاب صوبہ کے ایشو پر ملنا چاہیے یانہیں؟ ادھر لوگ ہیں کہ شدت سے اپنے صوبہ کے قیام کا انتظارکررہے ہیں۔ راقم الحروف اس حق میں ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرکے سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کو تحریک انصاف کی حکومت یقینی بنایاجائے لیکن یہ بھی دیوار پر لکھاسچ ہے کہ محسن لغاری اور دیگر وزیروں، مشیروں کی بالخصوص ساری جماعتوں کی لیڈرشپ کے رویہ کے بعد لگ رہاہے کہ پنجاب کی تقسیم کرہ ارض پر ناممکن ہوچکی ہے۔

یوں راقم الحروف تجویزکرتاہے کہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار جوکہ گورنر پنجاب چودھری سرور، چودھری پرویز الہی، علیم خان اور تحریک انصاف کی لیڈر شپ میں سنیڈوچ بن چکے ہیں، ڈیرہ غازی خان ضلع سے باہر نکل کر جنوبی پنجاب کے سارے اضلاع میں میرٹ پر کام کریں، مطلب تونسہ شریف، جام پور، کوٹ ادو، علی پور، احمد پورشرقیہ کو ضلع بنا نے کا حکم جاری کریں۔ پھران ضلعوں کے وجود میں آنے کے بعد ڈیرہ غازی ڈویثرن راجن پور، علی پور، جام پور اور تونسہ شریف پر مشتمل قائم کیجائے۔

کوٹ ادو ضلع بننے کے بعد کوٹ ادو اور لیہ کے ساتھ تھل میں سے ایک نیا ضلع ملاکر ڈیرہ غازی خان سے ایک علیحدہ ڈویثرن تشکیل دیجائے۔ اسی طرح مظفرگڑھ سے کوٹ ادو اور علی تحصیل ضلع بننے کے بعد جو باقی تحصیلوں کا ضلع جوکہ ملتان کے قریب ہے، ان کو ملتان ڈویثرن میں شامل کیجائے اور ادھر خانیوال کی تحصیل کبیر والہ کو ضلع کا درجہ دیجائے، اور ملتان ڈویثرن میں ضلعوں کی تعداد بڑھنے کے بعد ملتان کے علاوہ ایک نیا ڈویثرن بنایاجائے۔

اسی طرح جھنگ، میانیوالی، بھکر پر مشتمل تھل ڈویثرن بنایاجائے۔ ادھر نئے تھل ڈویثرن، نئے لیہ ڈویثرن اور ڈیرہ غازی خان ڈویثرن میں ہائی کورٹ کے بنچ فوری طورپر قائم کیے جائیں۔ ضلع بہاولنگر بھی پانچ تحصیلوں پر پھیل چکا ہے، یوں بہاولنگر کو بھی دواضلاع میں تقسیم کیجائے اور بہاولپور ڈویثرن کو دوڈویثرن میں تقسیم کیجائے تاکہ عوام مرغیوں کی طرح ڈربے میں ٹھونسے کی بجائے حقیقی معنوں میں زندگی کے دن پورے کرنے دیے جائیں۔

اسی طرح جنوبی پنجاب میں وہوا، کوٹ سلطان، فتح پور جیسی سب تحصیلوں کو تحصیلوں کا درجہ دیاجائے۔ یہاں اس بات کا تزکرہ ضروری ہے کہ وزیراعلی عثمان بزدار تھل کے معاملے میں میرٹ نہیں برت رہے ہیں، یوں اس بات کا احسا س تھل کی عوام میں شدت کے ساتھ بڑھ رہاہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے وہاں وزیراعلی عثمان بزدار کوئی منصوبہ نہیں دے رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس حالت کے باوجود بھی انہیں تھل جہاں پر، کوئی زرعی یونیورسٹی نہیں ہے، کوئی انجئرنگ نونیورسٹیٰ نہیں ہے، کوئی میڈیکل کالج نہیں ہے، کوئی ائرپورٹ نہیں ہے، کوئی ٹیچنگ ہپستال نہیں، کوئی ٹیکنکل ایجوکیشن یونیورسٹی نہیں ہے، کوئی ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے، کوئی تعلیمی بورڈ نہیں ہے، کوئی ریڈیوپاکستان ملتان اور بہاولپور کی طرح تھل ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے، کوئی وویمن یونیورسٹی نہیں ہے، کوئی موٹروے نہیں ہے، کوئی ضلع سی پیک میں شامل نہیں ہے مطلب کچھ بھی تھل میں نہیں ہے۔

ابھی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار پنجاب میں دو نئی ٹیکنکل ایجوکیشن کی یونیورسٹیاں ڈیرہ غازی خان اور راولپنڈی میں قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔ اور یہ دونوں یونیورسٹیاں چھ ارب روپے کی لاگت سے قائم کی جائینگی۔ اب غور کریں موصوف نے ایک ڈیرہ غازی خان ضلع کو دیدی ہے اور ایک روالپنڈی میں دیدی ہے، ان دونوں اضلاع کی صورتحال تھل سے کہیں بہتر ہے لیکن تھل کے چھ اضلا ع جہاں کوئی بھی ادارہ نہیں ہے، اس کو ایک بارپھر نظراندازکردیا ہے۔ ہمارے خیال میں وزیراعلی عثمان بزدار ایسا نہ کریں اور تھل کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ٹیکنکل ایجوکیشن یونیورسٹی سمیت دیگر راقم الحروف نے تعلیمی اور دیگر اداروں کا ذکرکیا ہے، ان کے قیام کا فوری اعلان کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).