لفظوں کے زخم


”ارے آپ اتنے دن سے کہاں غائب تھیں ہم تو سمجھے آپ اللہ کو پیاری ہوگئیں؟ “ سدرہ نے اپنی امی کی کزن نجمہ کو دیکھتے ہی چہک کر کہا جو بہت دنوں بعد ان لوگوں سے ملنے ان کے گھر آئی تھیں۔ یہ جملہ سنتے ہی نجمہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا جسے محسوس کرتے ہوئے فرزانہ یعنی سدرہ کی ماں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا; ”بھئی ہماری سدرہ تو بہت ہی ہنسوڑ اور خوش مزاج ہے اب دیکھو نا کتنی مزے کی بات کی“۔ نجمہ ان کے اس خیال سے متفق تو نہیں تھیں لیکن بات کو ختم کرنے کے خیال سے اپنی بدمزگی کوچھپا گئیں۔

آئیے اب ایک اور جگہ دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ”افوہ آپ تو دن بہ دن موٹی ہوتی جارہی ہیں بالکل ڈرم جیسی لگ رہی ہیں، کیا کھارہی ہیں آج کل؟ “ سعد نے اپنی چچی سے کہا یہ سب ایک شادی کی تقریب میں موجود تھے پندرہ سالہ سعد نے یہ جملہ اتنی بلند آواز میں کہا کہ آس پاس موجود سبھی لوگوں نے سنا اور نہ صرف سنا بلکہ کئی افراد نے، جن میں خواتین کی اکثریت تھی چونک کے سعد کی چچی رومانہ کو بغور دیکھا۔ وہ بے چاری شرمندہ سی ہو کے رہ گئیں جب کہ سعد کے ماں باپ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس جملے کو یوں نظر انداز کیا جسے یہ کوئی بات ہی نہیں۔

یہ تو دو مثالیں ہیں لیکن درحقیقت غور کیاجائے تو آج کے دور میں یہ بات بہت عام ہے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی کہ دوسروں کا مذاق اڑانا اور ان کے کسی بھی عیب کے حوالے سے طرح طرح کے لطیفے گھڑنا اور وہ بھی دوسروں کے سامنے یا پھر سرِ محفل۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہو تو باقی تین انگلیاں خود تمھاری طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کسی کے عیب پہ انگشت نمائی کرتے ہیں تو جواباً وہ شخص بھی آپ میں خامیاں تلاش کرنے لگتا ہے اور جوابی کارروائی کے طور پہ وہ بھی آپ کا اسی طرح مذاق اڑانے کی کوشش کرے گا جیسے آپ نے اس کے ساتھ کرنے کیا اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہر شخص دوسرے کی عیب جوئی اور مذاق بنانے میں ہی لگا رہے تو سمجھیئے کہ ہر طرف میدانِ جنگ کا سا ماحول رہے گا۔

آخِر ہم اپنے دین کو محض عبادات تک ہی کیوں محدود رکھتے ہیں کیا اسلام صرف عبادات کے مجموعے کا ہی نام ہے؟ نہیں ایسی بات بالکل بھی نہیں۔ تو کیا یہاں اسلامی تعلیمات عام نہیں؟ یہ بات بھی نہیں ہے۔ تو پھر بات ہے کیا؟ تو پھر اصل بات جو ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کی اخلاقی تعلیمات کو یکسر بھلا چکے ہیں اور ان باتوں پہ عمل نہیں کرتے ہیں جو ایک اچھی پرسکون زندگی اور مہذب معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ ہم میں سے کتنے افراد ہوں گے جنھیں یہ علم ہے کہ ہمارے دین میں نکتہ چینی، عیب جوئی، دوسروں کا مذاق اڑانا یا ان کا دل دکھانا جیسی باتوں کو کس قدر ناپسندیدہ کہا گیا ہے ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق بہت نکتہ چیں جنت میں نہیں جائے گا جب کہ دوسری حدیث کے مطابق کسی غیر مسلم کے خداٶں کو بھی برا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔

ایک اور حدیث میں کسی کے ماں باپ کو گالی دینے کو نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ گالی دینے کو ہی سرے سے برا سمجھا گیا ہے لیکن کیا ہم یہ باتیں سمجھتے ہیں اور اگر سمجھ بھی لیں تو ان پہ عمل کتنے فی صد لوگ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ ذمہ داری تو والدین بلکہ سب سے زیادہ تو ماں کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ تربیت دے کہ انھیں کسی سے اس انداز میں بات نہیں کرنا ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہو اور خاص طور پر اپنے سے بڑوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حفظِ مراتب اور ادب آداب کو بطورِخاص ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔

اب تو اکثر یہ منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے کسی بڑے سے گستاخی سے پیش آئیں تو ان کے والدین یاگھر کے دیگر افراد یا تو ہنس ہنس کے اس سے لطف اندوز ہوں گے یا پھر یہ کہہ کر بات ٹال دیں گے کہ بڑا صاف گو ہے۔ جب کہ یہ نہ مذاق کی بات ہے اور نہ ہی صاف گوئی ہے بلکہ سیدھے سیدھے بدتمیزی ہے لیکن شاید آج کے دور میں معاشرتی اقدار بدل گئی ہیں لہٰذا بدتمیزی صاف گوئی، بداخلاقی بے باکی اور دوسروں کی دل آزاری ہنسی مذاق کہلانے لگے ہیں۔

ٹھیک ہے ایسا ہی سہی لیکن ذرا اس حدیث کو تو یاد کرلیجیے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مسلمان جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ ہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرتا ہے تو اب خود ہی بتائیے کہ کون یہ پسند کرے گا کہ اس سے تحقیر آمیز انداز میں بات کی جائے، اس کا مذاق اڑایا جائے یا اس کی ہر چیز میں نقص نکالے جائیں۔ معاشرے کی بہتری کے لیے ان اخلاقی برائیوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور اگر ہم سے ہر فرد یہ سوچ لے کہ وہ ان سے مکمل طور پر اجتناب کرے گا تو اس طرح مجموعی طور پر ایک پرسکون اور ہموار فضا کا معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں زندگی آرام دہ ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).