سبزی فروشی سے پدما شری ایوارڈ تک ناممکن کو ممکن بنانے والی سبھاسنی مستری


مجھے وہ لوگ دل کے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں جو شعور کی کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب بنتے ہیں۔ انسانیت کی بھلائی اور امن و آشتی کے جن کے آدرشوں میں وسعت اور زندگی میں مقصدیت ہوتی ہے۔

سبھاسنی مستری (Subhasini Mistry) کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ جنہوں نے نوجوانی میں سپنوں کی جوت جگائی اور بڑھاپے میں انہیں تعبیر ہوتے دیکھا۔ ان کا یہ خواب تھا غریبوں کے لیے مفت چیریٹی ہسپتال کی تعمیر کا۔ گو خواب اور تعبیر کے درمیان سینتالیس سال کا طویل عرصہ تھا مگر سبھاسنی کی ثابت قدمی، اولوالعزمی اور انسانیت کے درد نے ناممکن کو ممکن بنایا اور ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2018 میں پدماشری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جو بھارت کا چوتھا بڑا شہری ایوارڈ ہے۔

سبھاسنی مستری کی زندگی کا سفر بچپنے سے ہی بڑا کڑا تھا۔ وہ بنگال کے قحط کے زمانے میں پیدا ہوئیں جب ملک میں بھوک اور موت کا بسیرا تھا۔ ان کے ماں باپ کلکتہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلہ پہ واقع گاؤں میں اپنے چودہ بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی ایک معمولی زمین کے ٹکڑے پر اگنے والی کھیتی غربت کو دور کرنے اور اتنے افراد کی بھوک مٹانے کے لیے کافی نہ تھی۔ سبھاسنی کی ماں چرچ آشرم، سرکاری اداروں اورکچھ زمینداروں کے گھروں سے چاول مانگ کر بچوں کا پیٹ بھرتی۔ اس حالت میں سات بچے مر گئے۔ غربت کی وجہ سے سبھاسی بھی بارہ سال میں اپنے سے بارہ سال بڑے مزدور ”چندرا۔“ کو بیاہ دی گئی۔ جو دو سو روپے تک کما لیتا تھا۔ تئیس سال کی عمر میں سبھاسی کے چار بچے تھے جن کا وہ ذمہ داری سے خیال رکھتیں اور بمشکل گھر چلاتیں۔

1971 میں ”چندرا“ کو پیٹ میں شدید درد کی شکایت ہوئی۔ ضلع کے قریبی ہسپتال میں لے جانے کے باوجود وہ غربت اور پیسے کی کمی کے باعث شوہر کو موت کے منہ سے نہ بچا سکیں۔ یہ ان کی زندگی کا فیصلہ کن مرحلہ تھا ”جب میرے شوہر مرے تو شروع میں تو میں بییقینی کے عالم میں تھی۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ میرے پاس چار بھوکے بچے ہیں۔ میری کوئی تعلیم نہ تھی۔ اور میں تو صحیح سے وقت بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ تو میں نے سوچا کہ جو بھی کام ملے گا کر لوں گی۔ میں نے قریب کے گھروں میں ملازمہ کا کام شروع کیا۔ اور اسی دوران اپنے آپ سے وعدہ کیا میں ایک ہسپتال بنواؤں گی۔ جو غریبوں اور ضرورت مندوں کا مفت علاج کرے گا۔ اس وقت سبھاسنی کے چار بچوں کی عمریں آٹھ سے چار سال کے درمیان تھیں۔ دولڑکے اور دو لڑکیاں۔ آمدنی اتنی کم کہ گھر کا خرچہ چلنا ممکن نہ تھا۔ لہذا سبھاسی نے اپنے بڑے بچے کو یتیم خانے میں داخل کیا تاکہ خوراک کے ساتھ تعلیم کا انتظام بھی ہو سکے۔ ہسپتال کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سبھاسی کا خواب بچوں کی تعلیم کا بھی تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا ایک بچہ ڈاکٹر بنے اور ان کا ہاتھ بٹائے۔“

سبھاسنی نے بتایا کہ انہوں نے پانچ گھروں سے کام شروع کیا اور ماہانہ سو روپے کی کمائی کی۔ مگر اس کے علاوہ بھی کون سا کام تھا جو نہیں کیا۔ مثلا اینٹیں ڈھونا اور سبزی بیچنے کا کام۔ سبزی فروشی انہوں نے کلکتہ کے مشرق میں دھایا میں سڑک کے کنارے شروع کی۔ حالانکہ اس وقت انہیں صحیح سے پیسے گننے بھی نہیں آتے تھے۔ مگر انہیں اندازہ ہوا کہ یہ کام دوسرے کاموں کے مقابلہ میں منافع بخش ہے۔ لہذا انہوں نے آمدنی کا پانچواں حصہ باقاعدگی سے مقامی پوسٹ آفس میں جمع کرانا شروع کر دیا۔

اپنی آمدنی کا بقیہ حصہ وہ اجے مستری اور دوسرے بچوں کی پڑھائی اور کھانے پہ خرچ کرتیں۔ اور اپنی ذات پہ کبھی ایک پیسہ بھی نہ خرچ کیا۔ آج بھی ان کا کہنا ہے کہ کیا فائدہ چوڑیوں اور ساڑھیوں میں جب ہم مر جائیں گے تو ان کو ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ مگر غریبوں کا علاج ٹھیک سے ہو جائے گا۔ مسکراتے چہرے ہمیں خوشی اور زندگی کا مقصد دیتے ہیں۔ ان کے ہسپتال کا خواب سن کر لوگ مذاق کرتے تھے۔ پیسے تو گن نہیں سکتی۔ ہسپتال کیسے بنا سکتی ہے؟ جبکہ خود اپنا گھر جو بری حالت میں ہے بنوا نہیں سکتی۔

لیکن سبھاسنی نے ان تمام لوگوں کی بات غلط ثابت کر دی۔ 1992 میں ان کے پاس دس ہزار کی رقم جمع ہو چکی تھی۔ جس سے انہوں نے ہنس پکوڑ جو ان کے شوہر کا گاؤں تھا، وہی جگہ جہاں اس نے غربت کے سبب بیماری میں جان دے دی تھی۔ ایک ایکڑ زمین خریدی۔ اسی اثنا میں ان کا چھوٹا بیٹا اجے جو بہت ذہین تھا مقابلے کے امتحانات پاس کرتا ہوا کلکتہ کے میڈیکل اسکول میں داخل ہو چکا تھا۔ اجے کی پڑھائی میں جرمن اسکالر شپ نے مدد کی۔

1993 میں سبھاسنی نے اس زمین پہ چھپر ڈال کر ”میک شفٹ کلینک“ کا آغاز کیا۔ پانچ رحم دل انسان دوست ڈاکٹرز نے رضاکارانہ طور پہ ہفتہ میں کچھ گھنٹے کام کرنے کی خدمات پیش کیں اس طرح پہلے ہی دن 252 مریضوں کا علاج ہوا۔ یہ سبھاسنی کے بیس سال پرانے خواب کی تعبیر کا وقت تھا۔ اس طرح ہیومنٹی ہاسپٹل کی بنیاد بانسوں کی مدد سے چھپر تلے پڑ چکی تھی۔ مگر کچی زمین میں مون سون ہواؤں اور بارش کے پانی نے علاج مشکل کر دیا تھا۔

لہذا اس کو ”پکا“ ہسپتال بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر اجے مستری نے اپنی ماں کے خواب کی تکمیل میں اپنا حصہ پیش کیا۔ اور عطیات کی حصولی کے لیے مقامی ممبر آف پارلیمنٹ مالینی بھاٹا چاریہ سے رابطہ کیا جنہوں نے سبھاسی کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے اسی ہزار ( 80000 ) روپے کا انتظام کیا اس طرح 1995 میں ہیومنٹی ٹرسٹ (Humanity Trust) کے آغاز کے ساتھ ہسپتال کی بنیاد پڑی۔ انسانیت کی خوشبو کو وسعت ملی۔ تو عطیات کے تحفہ ملنے لگے۔

دو منزلہ عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔ اور پھر مغربی بنگال کے گورنر کے وی رگوناتھ ریڈی نے 1996 میں اس ہسپتال کا افتتاح کر کے عوامی سطح پہ کام کا آغاز کیا۔ آج یہ ہسپتال 9000 سکوائر فٹ پہ تعمیر 55 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے۔ جہاں وہ تمام افراد جو غربت کی سطح سے نیچے ہیں ان کا مفت علاج ہوتا ہے۔ اس ہسپتال میں ہر ضروری شعبہ مستعدی سے کام کر رہا ہے۔ سبھاسنی آج سے تین ساک قبل تک سبزیاں بیچ کر اپنی جانب سے مستقل ہسپتال کے اخراجات پورے کرنے میں مدد کرتی رہیں۔ تاہم ان کے بیٹے ڈاکٹر اجے نے جو اس وقت کلکتہ کے اہم ڈاکٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ ماں کو سبزی بیچنے سے منع کیا کیونکہ اب بڑھاپے کے باعث ان کے گھٹنوں میں تکلیف رہنے لگی۔ البتہ اب وہ ہسپتال میں مریضوں کو دیکھتی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی نرس ہیں۔ جو اسی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔

2007 میں جب طوفانی بارشوں نے بنگال کو زیرِ آب کیا۔ تو ڈاکٹر مستری نے اپنی ٹیم کو سندر بنس بھیج کر ایک اور ہسپتال کا آغاز کیا جہاں اب 25 بستر اور جدید طبی اور تشخیصی مشینوں سے مزین سامان ہے۔ انتہائی نگہداشت کا شعبہ بھی ہے۔

اس طرح ایک غریب، غیر تعلیم یافتہ اور مجبور عورت نے حالات سے شکست نہ کھاتے ہوئے انتہائی ثابت قدمی سے وہ سب کچھ حاصل کیا جو بظاہر دیوانے کا خواب نظر آتا تھا۔

ستر سال سے زیادہ عمر میں اپنے مقصد ِ حیات کو پانے والی سبھاسنی مستری کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 2018 میں جب پدما شری ایوارڈ ملا تو انہوں نے کہا ”میں خوش ہوں کہ حکومت نے میرے کام کو تسلیم کیا۔ مگر میں اس بات پہ زیادہ خوش ہوں گی اگر یہ ایوارڈ دوسروں کو متاثر کرے وہ آگے آئیں اور سماج کے لیے کچھ کام کریں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).