غیرت کے نام پر محبت دشمنی


چند روز قبل گوجرانوالہ کی ایک ماں نے اپنی بیس سالہ حاملہ بیٹی مقدس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ تین سال قبل پسند کی شادی کرنے والی مقدس اپنی بیٹی کو حفاظتی ٹیکے لگوانے آئی تھی کہ بازار میں ماں اور بھائی سے سامنا ہو گیا۔ میکے والے نافرمان مقدس کو سب کے سامنے گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے۔ قتلِ عشاق کبھی سنگ کی دیواروں کے پیچھے چھپا کرتے تھے لیکن مقدس کا مقتل گھر کے دالان کے بیچوں بیچ سجایا گیا۔

بہن اور بیٹی کی محبت کے نام پہ باپوں اور بھائیوں کا خون تو کھولتا ہی تھا لیکن اب تو غیرت کا عفریت ماؤں کی مامتا کو بھی نگلنے لگا۔ چند دن پہلے لاہور میں ماں نے سترہ سالہ زینت کو پسند کی شادی کرنے پر زندہ جلا کر عبرت کا نشان بنا دیا تھا۔ سہیلی کو پسند کی شادی میں مدد فراہم کرنے والی سوات کی عنبرین کو بھی ماں نے ہی ظالم جرگے کے حوالے کیا تھا۔ جب ماں ہی بیٹی کی محرمِ راز نہ رہے ، تے فیر دس ، مائے نی، میں کینوں آکھاں؟

اے خدا! اے شباب کی آمد کے ساتھ ، محبت کی لگن پر ابھارنے والے جیون رس کے چشمے لہو میں بہانے والے خدا ! کیا تو انسان کی تولید کا عمل غیر جنسی بنانے پر قادر نہیں تھا۔ یا اگر تیری نظر میں محبت کا جذبہ ہی حیاتیاتی ارتقا کے منصوبے کو کامیاب کر سکتا تھا تو محبت کے ہاتھوں جنم لینے والوں کو محبت کرنا ہی سکھا دیتا۔ ہلکے تشدد کو جائز قرار دینے والوں سے ہلکی سی محبت کا اجازت نامہ بھی دلوا دیتا۔

پسند کی شادی کرنے والی کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرے؟ مذہب ، ثقافت یا جہالت؟ سبھی نے مذمت کے دستانے اوڑھ رکھے ہیں۔ ان پیشہ ور مذمتیوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جو ’’باغی ‘‘تھی وہ’’ بھاگی‘‘ کیوں؟ اور جو’’ بھاگی‘‘ تھی وہ ’’داغی‘‘ کیوں؟ وہ طعنے کہاں سے آتے ہیں جو پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کے گھر والوں کو سننے پڑتے ہیں۔ باپ کی وہ کونسی عزت ہے جو گھر چھوڑنے والی لڑکی اپنے قدموں تلے روندتی ہے۔ وہ عزت اس وقت تار تار کیوں نہیں ہوتی جب بیٹی سے پسند کی شادی کرنے کا حق چھینا جا رہا ہوتا ہے۔ اس وقت کوئی فتوی کیوں لاگو نہیں ہوتا جب ولی اپنی ولائت کی حدود سے باہر ہونے لگتا ہے۔ یہ تمام مذمتیں دھوکا ہیں۔ یہ معاشرہ عورت کو اس کی پسند سے شادی کرنے کا اختیار دینے پر راضی ہی نہیں۔ اور دشمنی عورت کی پسند سے نہیں ہے، عورت کی اٹھان سے ہے۔ غیرت کے نام پر قتل دو مردوں کے درمیان جائیداد کا جھگڑا ہے۔ ملکیت کا فساد ہے۔ مرد کے لئے زمین کے قبضے اور زن کے قبضے میں کوئی فرق نہیں۔ یہ قبضہ قائم رہنا چاہیے، چاہے ہلکے تشدد سے، چاہے غیرت کے نام پر قتل سے۔

2008  میں جب سینٹر اسرار اللہ زہری نے بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والی پانچ خواتین کو زندہ دفنائے جانے والے معاملے پر سینٹ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اپنی مرضی سے بیاہ رچانے والی لڑکی کو قتل کرنا ہماری ثقافت ہے تو وہ صرف اپنی ذات اور اپنی سوچ کی بات نہیں کر رہا تھا۔ وہ تمام معاشرے کا ترجمان تھا۔ اس کا موقف لاکھ غیر اسلامی یا غیر قانونی سہی لیکن اس معاشرے کا موقف ہے۔ اس لیے یہ سارا معاشرہ قصور وار ہے۔ اگر پسند کی شادی انسان کا قانونی اور شرعی حق ہے اور اس استحقاق کو مجروح کرنا جرم ہے تو پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئی لڑکی اس حق کو حاصل کرنے لیے بغاوت کا فیصلہ کرتی ہے تو معاشرہ اس اقدام کی مذمت کرتا ہے؟ کیا اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا قابلِ ستائش فعل نہیں ہے؟ اس معاشرے کو سمجھنا ہو گا کہ پسند کی شادی بے غیرتی نہیں ہے۔ انسانی جنسی تعلقات پسند کی بنیاد پر ہی استوار ہوتے ہیں۔ اور ’’بھاگی ‘‘ کوئی طعنہ نہیں ہے کیونکہ وہ بھاگتی نہیں ہے۔ وہ تو میدان میں آتی ہے۔ اپنے حق کی خاطر لڑنے کے لئے۔ جوش اور طنطنے والی ایک شیرنی کی طرح مقابلہ کرنے کے لئے۔

سنا ہے حکومت قانون سازی کرنا چاہ رہی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی کو انصاف مل سکےاور غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جیتے جی تو معاشرے نے اس بے چاری کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور قتل ہونے کے لئے چھوڑ دیا اور کوئی قانونی ادارہ اس وقت اس کی مدد کو نہ آیا جب وہ تن تنہا اپنی محبت کے لئے سماج سے لڑ رہی تھی۔ تو اب مرنے کے بعد انصاف ملا تو کیا ملا۔ قانون سازی کرنی ہے تو اس وقت کے لئے کیجیے جب پسند کی شادی کا حق چھینا جا رہا ہوتا ہے۔ پسند کی شادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اقوام متحدہ کا بنیادی انسانی حقوق کا منشور اس حق کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین اس حق کا تحفظ کرتا ہے۔ اسلام اس حق کا تحفظ کرتا ہے۔ تو کیوں نہ قانون عین اس وقت حرکت میں آئے جب یہ حق چھینا جا رہا ہو؟ کیوں نہ والدین پر اس وقت گرفت کی جائے جب وہ اپنی مرضی اپنی اولاد پر مسلط کر کے ان کو گھر سے بے گھر ہونے پر مجبور کر رہے ہوں؟ لیکن اگلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاشرہ ایسے کسی قانون کو قبول کر لے گا؟ تحفظِ حقوقِ نسواں بل کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ شوہر کے تشدد کے خلاف قانون بنا تو سارا معاشرہ (بشمول کچھ خواتین) دہائی دینے لگا کہ قانون کی دخل اندازی سے طلاق کی شرح بڑھ جائے گی اور گھر تباہ ہوجائیں گے۔ علما تو اپنا گھر بچانے کی فکر میں اتنا آگے چلے گئے کہ تشدد کو شرعی حیثیت دے ڈالی۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ جس گھر میں عورت پر تشدد ہوتا ہو اس گھر کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے۔ ایسے گھر کو تو واقعی تباہ ہو جانا چاہیے۔ لیکن عورت کی عزتِ نفس اتنی قیمتی نہیں کہ اس کے لئے گھر کی قربانی دی جائے۔ والدین کا رتبہ تو ویسے ہی شوہر سے بلند ہے۔ ان کے خلاف قانون سازی کیسے ممکن ہے۔ چاہے وہ والدین ہونے کے مقام سے اتنا نیچے گر جائیں کہ بیٹی پاؤں پکڑکے معافیاں مانگتی رہی لیکن ماں کا غصہ کسی طور ٹھنڈا نہ ہوا۔ چارپائی سے باندھا، مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔ اور اپنے کئے پر کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں بلکہ فخر ہے کہ پسند کی شادی کرنے والی بے غیرت کو نشانِ عبرت بنا دیا۔

اگر پسند کی شادی بے غیرتی ہے تو غیرت کیا ہے؟ وہ جذبہ جو بیٹی کی محبت کا علم ہونے پر ماں باپ کی محبت کو نفرت میں بدل دیتا ہے؟ وہ جذبہ جس کی مدد سے بیٹی کوزندہ دفنایا اور زندہ جلایا جاتا ہے؟ وہ جذبہ جو سر دبانے والی بیٹی کا سر کچلنے پر آمادہ کرتا ہے؟ وہ جذبہ جو محبت کرنے والے والدین کو بھیانک خونی عفریت میں بدل دیتا ہے۔ تف ہے ایسی غیرت پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments