آسیہ بی بی کی حفاظت، ریاست کی فراخدلی اور توہین مذہب کا قانون


تحریک انصاف حکومت نے کینیڈا کی حکومت کے ساتھ آسیہ بی بی کو سیاسی پناہ دینے کے سوال پر بات چیت کی تصدیق کی ہے۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اس بارے میں ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ کینیڈا کی وزیرخارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے شاہ محمود قریشی کو بتایا کہ ان کا ملک ’سپریم کورٹ کے جرات مندانہ فیصلے اور وزیر اعظم عمران خان کی مثبت تقریر کی قدر کرتا ہے‘۔ جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنی کینیڈین ہم منصب کو یقین دلایا کہ ’آسیہ بی بی پاکستانی شہری ہیں اور پاکستان ان کے تمام قانونی حقوق کا مکمل احترام کرتا ہے‘۔

پاکستان کی طرف سے آسیہ بی بی کے بارے میں کینیڈا کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا انکشاف کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے گزشتہ روز پیرس میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان نے اب اس مواصلت کی تائد کی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان کا ملک توہینِ مذہب کے مقدمے سے بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو پناہ دینے کے سلسلہ میں پاکستان سے بات چیت کر رہا ہے۔ تاہم وہاں داخلی طور پر نازک صورتحال ہے جس کا ہمیں احساس ہے۔ اسی لئے میں اس معاملہ میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ مگر میں لوگوں کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کینیڈا ایک استقبال کرنے والا ملک ہے‘۔

کینیڈا آسیہ اور ان کے خاندان کو پناہ کی پیشکش کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک بھی اس مظلوم خاتون کو پناہ دینے کے لئے تیار ہیں اور متعدد حکومتیں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے درپردہ سفارت کاری میں مصروف بھی ہیں۔ کیوں کہ پاکستان کی طرح دنیا بھر کے ممالک یہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ خواہ نظر ثانی کی اپیل میں بھی آسیہ کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھے اور ملک کے اعلیٰ ترین آئینی عدالتی فورم پر بھی وہ توہین رسالت جیسے سنگین الزام سے بری ہو جائے لیکن پاکستان میں ان کی زندگی محفوظ نہیں ہوگی۔ اس خاندان کو ملک سے نکال کر ہی ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

اس تناظر میں شاہ محمود قریشی کا یہ دعویٰ کہ آسیہ بی بی اس ملک کی شہری ہیں اور حکومت ان کے تمام قانونی حقوق کا احترام کرتی ہے سیاسی و سفارتی لن ترانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ابھی تک آٹھ سال کی طویل مدت کے بعد سپریم کورٹ سے بری ہونے کے باوجود آسیہ بی بی کو ملک سے جانے کی اجازت دینے کا حوصلہ دکھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نہ ہی آسیہ کو عام شہری کی طرح آزادی سے رہنے اور اپنے خلاف الزام ، مقدمہ اور طویل قید کے بارے میں بات کرنے کا موقع فراہم کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔

اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ملک میں مذہبی تنگ نظری اور شدت پسندی کا ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ عام شہری سے لے کر حکومت کے عمائدین تک ، سب ہی اس سے خوف زدہ ہیں اور ان مذہبی عناصر کی مرضی کے خلاف کوئی بات زبان پر نہیں لانا چاہتے۔حکومت نے 31 اکتوبرکو سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے اور اسی شام وزیر اعظم کی طرف سے واشگاف لفظوں میں لاقانونیت کو برداشت نہ کرنے کے اعلان کے باوجود ایک پانچ نکاتی معاہدہ کے ذریعے شر پسندوں سے مفاہمت کرنے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔

وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے گزشتہ روز لاہور میں ’تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘ میں اس شکست خوردگی کا صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’فوج نے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کی طرف سے اپنے سربراہ کے خلاف توہین آمیزی پر کوئی رد عمل نہیں دیا اور عدلیہ نے بھی ججوں کے خلاف بیانات پر ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کیا ہے۔ کفر کے فتوے اور بیان دینے والوں نے معافی مانگ لی ہے اور یہ معافی قبول کرلی گئی ہے۔ عفو و درگزر کا تقاضا ہے کہ سب ملک کے قانون کااحترام کریں اور اسے اپنا راستہ بنانے دیں‘۔ تحریک انصاف کے وزیر کے یہ الفاظ ہی نہیں بلکہ وہ موقع بھی جہاں پر وہ یہ تقریر کررہے تھے ، متعلقہ وزیر کے علاوہ حکومت کا یہ اعتراف ہے کہ وہ شدت پسند عناصر کو مسترد کرنے کی بجائے ان سے ہاتھ ملا کر چلنا چاہتے ہیں۔ اس نصب العین کا اعلان وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی بھی چند روز پہلے سینیٹ میں خطاب کے دوران کر چکے ہیں۔ ایسے میں حکومت سے یہ امید نہیں باندھی جا سکتی کہ وہ ملک میں وسیع المشربی اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی فضا پیدا کرنے کی اہل ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تحریک لبیک کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد مناسب اور پر عزم تقریر کی تھی لیکن حالات کے جبر سے وہ اپنے ایک ایک حرف سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ ایسی حکومت سے کوئی توقع باندھنا عبث ہو گا جو شہریوں کی حفاظت کرنے، قانون کو سربلند رکھنے اور مذہبی شدت پسندی کو مسترد کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر مذہبی شدت پسندی کو چیلنج کرنے کی بجائے اس سے بغلگیر ہو کر مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس رویہ سے تو صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وقت آنے پر یہ حکومت اور اس کے نمائیندے اپنے کسی بھی وعدہ سے منحرف ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali