تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ: اقبال کا ایک تاریخ ساز فکری کارنامہ (اقبال میموریل لیکچر)


 

پرائمری سکول کے زمانے سے اقبال کی شاعری کا مطالعہ شروع کیا تھا اور بحیثیت شاعر وہ مجھے آج بھی پسند ہے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش اقبال شاعر نہ ہوتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری شاعرانہ روایت بہت رفیع الشان ہے، اس کے برعکس ہماری فکری بالخصوص فلسفیانہ روایت بہت ضعیف بلکہ خوار و زبوں ہے۔ فکری سوالات اٹھانا، ان پر تفکر کی صلاحیت رکھنا اور پیش پا افتادہ جوابات کو رد کرتے ہوئے خطر ات سے پر انجانے راستوں پر سفر کرنے کی جرات رکھنے والوں کی بہت کمی رہی ہے۔ اقبال کا شمار ان نادرہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جس نے بہت بنیادی سوال ٹھانے کا حوصلہ دکھایا ہے اور ان سوالات کے جو جواب فراہم کیے ہیں وہ بڑی حد تک روایت شکن ہیں۔

مسلم ثقافت کا عجیب المیہ ہے کہ اس نے تخلیقی اظہار کے بہت سے اسالیب کو حرام قرار دے دیا۔ قرآنِ حکیم میں شاعروں کے متعلق ناپسند یدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے بارے میں یہ کہا گیا فی کل واد یہیمون۔ شاعر کی حقیقت کا اس سے بہتر اظہار ممکن نہیں۔ اگر کوئی ہر وادی میں بھٹکنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ہو گا تو وہ شاعر ہی نہیں ہو گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ افلاطون نے اپنی مثالی ریاست میں شاعروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی تھی۔ افلاطون کی ریاست عسکری نظم و نسق میں جکڑی ہوئی تھی جس میں آزادی فکر و عمل کا کوئی تصور نہیں تھا۔ افلاطون اس بات سے بخوبی آگاہ تھاکہ حدود شکنی شاعری کی ماہیت میں داخل ہے۔

دیگر فنون لطیفہ، مثلاً موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی، جن کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا، ان کو تو حرام قرار دے دیا گیا لیکن شاعری کو سر کا تاج بنا لیا۔ ہماری ثقافت میں شاعری کے علاوہ کسی علم و فن کو خود مختاری حاصل نہیں۔ ہر علم و فن کو فقہ کے گز سے ناپا گیا اور اس کے حرام حلال، جائز ناجائز، نافع اور غیر نافع ہونے کا فیصلہ کیا گیا لیکن شاعری تمام حدود و قیود سے آزاد قرار پائی۔ شاعر کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی خیال کا اظہار کر سکتا ہے، تمام مذہبی شعائر کا مذاق اڑا سکتا ہے۔ وہ اپنے شعر کی بنا پر کسی مواخذے کا حق دار نہیں ہو گا بلکہ مذہبی بنیاد پر شعر پر اعتراض کرنے والا بدذوق کہلائے گا۔

شعر کی اس خود مختاری پر مجھے کوئی اعتراض نہیں بلکہ خوشی ہے کہ اظہار کا کوئی دریچہ تو کھلا رہا لیکن باقی شعبوں میں حریت فکر کا جو گلا گھونٹا گیا اس پر افسوس ہے۔ نثر میں بے باکانہ اظہار کی روایت جنم لے سکی، نہ پروان چڑھ سکی۔ مختلف علوم کو وہ آزادی اور خود مختاری نہ مل سکی جو ان کی نشو و نما کے لیے ایک ضروری عامل کی حیثیت رکھتی تھی۔ علم کے پودے کا عقیدے کی چھتر چھاؤں میں تناور درخت بننا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ عقیدے کی اس بالادستی کی بنا پر مسلم روایت ، اپنے ابتدائی دور کے علاوہ، حریت فکر سے تہی، اسلاف کی تقلید سے عبارت اور تنقید فکر کے بجائے حاشیہ نویسی پر مبنی رہی ہے۔ کہیں کہیں ندرت خیال کی پرچھائیں ملتی ہے لیکن وہ بھی موجود فریم ورک کے اندر ہی ہوتی ہے۔ فریم ورک کی شکست کا حوصلہ رکھنے والے اصحاب فکر الشاذ کالمعدوم کے ز مرے میں آتے ہیں۔

اقبال کی شخصیت میں بھی شاعر اور فلسفی کے مابین کشمکش جاری رہی۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کے دو اور پہلو بہت اہم ہیں۔ وہ بزعم خود مصلح قوم بھی ہیں اور زندگی کے آخری برسوں میں عملی سیاست کے خارزار میں بھی جادہ پیما ہوئے۔ شاعری، فلسفہ، اصلاح قوم اور عملی سیاست سب کے تقاضے جدا جدا اور اکثر و بیشتر باہم متضاد ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ تضاد و تخالف اقبال کی شعری، فلسفیانہ اور سیاسی تخلیقات میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

میں صرف شاعرانہ اظہار اور سیاست کے سنگلاخ زمینی حقائق کے فرق و امتیاز کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں امت مسلمہ کی وحدت کا ایک بہت رومانی تصور پیش کیا ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ لیکن جب بطور سیاست دان انھیں خطبہ ءالٰہ آباد تحریر کرنا پڑا تو سیاسی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے اس تصور کی نفی کرنا پڑی۔ جس کو میری بات پر شک ہو وہ خطبہ ءالٰہ آباد کے اس سیکشن کا مطالعہ کر لے جس میں ہندوستان کے دفاع پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ باقی دنیا کے مسلمان تو رہے ایک طرف، جناح کے نام اپنے آخری خط میں پالیسی سازی میں اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کو بھی نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

علامہ اقبال ایک طرف تو اپنے فلسفیانہ تفکر کو استعمال میں لاتے ہوئے ایسے نتائج اخذ کرتے ہیں جو ہر اعتبار سے روایت شکن ہیں،لیکن جب ان پر اصلاح قوم کا جذبہ غالب آتا ہے تووہ اپنی ہی روشنی طبع سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو ڈر یہ ہوتا ہے کہ ا دبار و زوال کی شکار قوم کاانتشار و اضمحلال فزوں تر نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ پھر روایت کی چھاؤں میں سکون تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی کشمکش سے ان کی فکری اور شاعرانہ زندگی عبارت ہے۔

یہ سوال بھی بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اقبال کی شاعری اور نثر میں تضاد ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حد تک اثبات میں دینا پڑے گا۔ اقبال کی شاعری تمام تر تو نہیں، لیکن اس کا ایک بڑا حصہ اقبال کی نثر کا مخالف ہے۔ اقبال نے نثر میں جو کچھ کہا ہے وہ اس کے شعر میں بھی موجود ہے لیکن شاعری کا ایک بڑا حصہ ان خیالات کی تردید کرتا ہے جن کا نثر میں اظہار ہوا ہے۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔

نثر میں بیان کردہ استدلال اور شاعرانہ اظہار کی تفہیم و تحسین میں جو فرق ہے اسے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے: ”یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی کتب کے براہ راست مطالعے سے بعض طبائع اور اذہان اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنا انہی حقائق کو اقبال کے کلام میں مطالعہ کرکے مطمئن ہو گئے ہیں، یہاں تک کہ اقبال کے مشہور لیکچرز ”اسلام کی تشکیل نو“ میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان کو جہاں تہاں تسلیم کرنے میں اکثر علماءکو تامل ہوا ہے، لیکن انہی حقائق کو اقبال کی شاعری میں سن یا پڑھ کر بے ساختہ قائل ہو جاتے ہیں، اس طرح جیسے وہ نکتے اپنے تمام معارف و بصائر کے ساتھ براہ راست ان پر منکشف ہو گئے ہوں۔“ ( ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’نقوش اقبال‘ کا دیباچہ، ص 22)

علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے متعلق اس رائے سے شاید اختلاف نہ کیا جائے کہ ان کا فلسفہ حرکت و تغیر اور تخلیق مسلسل کا ہے۔ ان کے اس فارسی مصرع کو بجا طور پر ان کی فکر کا خلاصہ قرار دیا جاسکتا ہے: ہستم اگر می روم، گر نہ روم نیستم۔ اقبال حرکت کو زندگی اور سکون کو موت قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے تصور میں تخلیق کائنات ماضی کا کوئی واقعہ نہیں اور نہ خدا ارسطو کا محرک غیر متحرک ہے جس کا اس ابتدائی واقعے کے بعد کائنات سے کوئی تعلق نہیں۔ اقبال کا خدا، بقول کسے، متحرک ترین محرک ہے جو ہمہ آن تخلیق میں مصروف ہے۔ خدا نے انسان کو آزادی فکر و عمل عطا کی ہے اور وہ اس آزادی کا احترام بھی کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کسی تقدیر یزداں کا پابند نہیں بلکہ اپنی تقدیر خود بنانے پر قادر ہے۔ہماری کائنات بھی حرکت پذیر ہے جس میں نئے نئے حوادث و واقعات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔

 اقبال میموریل لیکچر کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6