تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ: اقبال کا ایک تاریخ ساز فکری کارنامہ (اقبال میموریل لیکچر)


اقبال کا خدا کا تصور

مندرجہ بالا تینوں تصورات مسلم فکر میں نئے ہیں لیکن اقبال کا خدا کا تصور پوری فلسفیانہ فکر میں نیا اور انوکھا تھا اس وقت۔ اقبال کے بعد بہت سے لوگ ہیں جو اس تصور کے موید ہیں جن کا میں آگے چل کر ذکر کروں گا۔ میری آج کی گفتگو کا موضوع یہی تین تصورات ہیں۔ ا ن کی بنیاد پر اقبال نے ختم نبوت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے نتائج و عواقب پر بھی کچھ عرض کروں گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ غزالی کی ا حیا ءالعلوم کے بعد تشکیل جدید سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے جس میں اقبال نے غزالی کے وضع کردہ فریم ورک کو رد کرتے ہوئے ایک نئے فریم ورک کا خاکہ پیش کیا ہے جو زیادہ وسیع، کشادہ اور فکر انگیز ہے۔مسلم فکر میں یہ واقعتا کوپرنیکی انقلاب ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اقبال کے ا س فکری کارنامے کی بہت کم تحسین کی گئی ہے بلکہ زیادہ تر ا سے فراموش کرنے کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔

فلاسفہ یونان کے نزدیک خدا کا تصور ایک ایسی ہستی کا تھا جو زمان و مکان سے ماورا ہے، مطلق اور غیر متغیر ہے، وہ بسیط،غیر محدود، ناقابل تغیر، نااثر پذیر اور قادر مطلق ہے یعنی ایک ایسی ہستی جس پر خارج سے کوئی شے اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اس کے برعکس یہودیوں کا خدا تھا جو انسانوں کے روزمرہ کے معاملات میں دخیل تھا۔ وہ ان پر خوش بھی ہوتا تھا اور ان کی بداعمالیوں پر ناراض بھی ہوتا تھا۔ چنانچہ یہودیوں اور یونانیوں کا جب آمنا سامنا ہوا تو دونوں کے لیے ایک دوسرے کا خدا کا تصور عجیب ہی نہیں بلکہ ناقابل فہم تھا۔ اس موقع پر فیلو یہودی نے یہودیت اور فلسفہ یونان میں مطابقت کی راہیں تلاش کیں جو آئندہ مسیحیت اور اسلام کے لیے بھی ایک مثالی نمونے کی حیثیت اختیار کر گئیں۔

مسلم مفکرین نے فلاسفہ کی پیروی کرتے ہوئے خدا کی ذات کے لیے بعض ایسی صفات کا اثبات کیا جن کا قرآن حکیم میں کوئی تذکرہ نہیں مثلاً اس کا بسیط، لامحدود، لامتناہی ہونا، زمان و مکان سے ماورا ہونا۔ اگر ان صفات کو تسلیم کر لیا جائے تو مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ خدا کے لیے حی و قیوم، علیم و خبیر، سمیع و بصیر، بدیع السموٰات والارض جیسی صفات کا اثبات ممکن نہیں رہے گا۔ اگر خدا زمان سے ماورا ہے تو کیا وہ زمان میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث کا علم رکھتا ہے؟ ارسطو کا خدا تو صرف اپنی ذات کا علم رکھتا ہے، باقی کائنات کا نہ وہ خالق ہے نہ عالم۔ لیکن مسلمان مفکرین کی دینی ضروریات اس پر اکتفا نہیں کر سکتی تھیں۔ چنانچہ مسلم فکر اس کشمکش کا شکار رہی ہے کہ قرآن کے تصور الٰہ کو ارسطو کے تصور الٰہ سے کس طرح ہم آہنگ کیا جائے۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ انسان خدا کے تصور تک کیسے پہنچا، تاریخی اعتبار سے امر واقعہ یہی ہے کہ انسانوں نے عام طور پر خدا کو زمینی بادشاہوں پر ہی قیاس کیا ہے۔زمینی بادشاہ کسی قاعدے قانون کے پابند نہ ہوتے تھے بلکہ بعض تو از حد متلون مزاج ہوتے تھے۔ بادشاہوں کی اس تلون طبع کو شیخ سعدی نے بہت خوبصورت انداز میں بیان کر دیا ہے کہ وقتے بسلامے برنجند و گاہے بدشنامے خلعت دہند۔

 بادشاہت کے اسی تصور کے تحت مذہب میں خدا کو اور اساطیر میں دیوی دیوتاؤں کو ہر قاعدے ضابطے سے بدرجہا زیادہ آزاد کر دیا گیا یعنی اگر زمینی بادشاہ کسی قاعدے ضابطے کے پابند نہیں تواس پر کوئی پابندی کیسے عائد کی جا سکتی ہے جو سب جہانوں کا بادشاہ ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی قاعدے ضابطے کے تحت نہیں بلکہ سراسر اس کی مرضی اور منشا پر مبنی ہے۔ چنانچہ مسلم تاریخ میں جب معتزلہ نے بس اتنا کہا کہ خدا نے چونکہ عدل کرنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ضرور ہے کہ وہ عدل کرے گا تو اس پر غالب مسلم فکر کا جواب یہی تھا کہ خدا کی قدرت ہر اعتبار سے کامل ہے چنانچہ اس پر عدل کرنے کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔

 مسلم علم کلام میں خدا کی صفات پر جو گفتگو ہوئی ہے اس میںقدرت اور علم کی صفات ہی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔اشاعرہ اور بعد ازاں غزالی نے خدا کی قدرت کاملہ پر اس قدر زور دیا ہے کہ باقی صفات کی بس ضمنی سی حیثیت رہ گئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے جب فلاسفہ اور معتزلہ کا رد کیا تو کائنات سے ہر قسم کے نظم و ضابطہ کو خارج کر دیا گیا۔ اس تصور میں خدا کی قدرت کاملہ پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس کے سامنے انسان اور کائنات کی کوئی اہمیت اور حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس پر پروفیسر عبد الحمید کمالی نے بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے:

ایسا خیال جس میں ہر معقولیت کا انکار ہو، جس میں تمام کائنات اور اس سلسلہ حوادث کو ہر قسم کے قاعدہ و قانون سے بری کیا گیا ہو اور جس میں تمام مظاہرکو ایک ارادہءکور کی آماج گاہ سمجھ لیا گیا ہو، اسلامی الٰہیات کے نقطہ نظر سے کوئی جواز نہیں رکھ سکتا۔ غزالی کے مقدمات و انتاج سے کائنات ایک مجموعہءحوادث یا اعراض دکھائی دیتی ہے جو بلا کسی اصول کے کبھی یہاں، کبھی وہاں، کبھی اب، کبھی جب، کبھی نہاں اور عیاں ہوتے رہتے ہوں۔“ (اقبال اور اساسی اسلامی وجدان،120)

غزالی اور دیگر اشاعرہ کے برعکس اقبال نے خدا کی قدرت پر حد کو تسلیم کیا ہے چنانچہ تشکیل جدید میں کہتے ہیں:

قضا و قدر کے باب میں متکلمین کی سب بحثیں محض ظن و قیاس پر مبنی ہیں جن میں اس حقیقت کو جو ہر روز ہمارے تجربے میں آتی رہتی ہے، سرے سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ زندگی میں ازخود عمل کی استعداد موجود ہے، گو اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسی اناؤں ( Egos) کے ظہور سے جو از خود اور اس لیے ان اعمال و افعال کی اہل ہیں جن کی پیش از وقت تعیین ممکن نہیں، اس ذات کی آزادی پر جس نے ہر شے کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے، ایک طرح کی حد قائم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ حد خارج سے قائم نہیں ہوتی۔اس کا سرچشمہ اس کی اپنی تخلیق کی آزادی ہے جس کی اس نے تحدید کی تو اس لیے کہ نفس متناہیہ بھی اس کی زندگی، طاقت، آزادی اوراختیار میں حصہ لے سکے۔“ (اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، ص 120)

اقبال کے نزدیک ایسی ذوات کا وجود جن کے آزادانہ افعال کا پیشگی تعین ممکن نہ ہو، خدا کی قدرت پر ایک تحدید عائد کر دیتا ہے۔ خدا کی قدرت کاملہ کا یہ مطلب نہیں کہ خدا جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس تعبیر سے اس قسم کے مسائل نے جنم لیا تھا کہ کیا خدا جھوٹ بول سکتا ہے۔ یا وہ مشہور معارضہ کہ آیا خدا اتنا بڑا پتھر بنا سکتا ہے جسے خود بھی نہ ہلا سکے۔ خدا سے وہی عمل صادر ہو سکتا ہے یا اس سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو بحیثیت خدا اسے سزاوار ہو۔ خدا کی قدرت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خارجی قوت اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن اس کی داخلی تحدیدات ضرور ہیں۔ منطقی محالات کو خدا سے منسوب نہیں کیا جا سکتا یعنی خدا ماضی کو تبدیل کر سکتا ہے اور نہ دو اور دو کو پانچ بنا سکتا ہے۔ منطقی صداقتوں کا اطلاق خدا کی ذات پربھی ہوتا ہے۔ اس لیے کسی متناقض جملے کو صادق ثابت نہ کر سکنے سے خدا کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آتا۔

علم باری کا مسئلہ

علم الہٰی کے مسئلے پر گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً تصور علم پر بھی کچھ عرض کر دیا جائے۔ علم کا مشہور و مقبول تصور یہ ہے کہ یہ ایک انفعالی فعل ہے جس میں معلوم ذہن عال م کے آئنے میں منعکس ہوتا ہے۔علم کے اس انفعالی تصور میں معلوم کو منطقی تقدم حاصل ہے یعنی علم کے لیے کسی معلوم کا ہونا لازم ہے جس کا علم حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اگر خدا کے لیے علم اشیا کا اثبات کیا جائے تو اس کے معلومات کو بھی ازلی اور غیر مخلوق تسلیم کرناپڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم فلسفے اور علم کلام میں خدا کے علم کو حصولی کہا گیا ہے جو صورتوں سے مستفاد ہوتا ہے۔ ابن سینا نے علم فعلی اور شاہ اسماعیل شہید نے علم اختراعی کا تذکرہ ضرور کیا ہے مگر انھوں نے اس تصور کو اس کے تمام تر منطقی مضمرات کے ساتھ ترقی دینے کی کوشش نہیں کی۔

اقبال کو علم کا یہ انفعالی تصور قبول نہیں چنانچہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ”ہمارے پاس اس علم کے لیے کوئی لفظ نہیں جو اپنے معلوم کا آپ ہی خالق ہو۔ “ یعنی جسے creative knowledge کا نام دیا جا سکے۔

علم الہٰی کے انفعالی تصو ر کے متعلق وہ کہتے ہیں:” علم الہٰی کے اس تصورسے کہ وہ ایک آئنہ ہے جس میں ہر شے منعکس ہو رہی ہے، اتنا تو ثابت ہو جاتا ہے کہ اسے مستقبل کے جملہ حوادث کا علم ہے مگر یوں اس کی آزادی قائم نہیں رہتی۔ یہ صحیح ہے کہ ذات الہٰیہ کی تخلیقی حیات میں ، جس کی ماہیت ایک وحدت نامیہ کی ہے، مستقبل کا وجود پہلے سے قائم ہے، لیکن ایک غیر متعین امکان، نہ کہ حوادث کی ایک ایسی ترتیب کی صورت میں جس کا خاکہ مدت ہوئی تیار ہو چکا تھا۔“ (ترجمہ از سید نذیر نیازی، ص، 119)

علم الہٰی کے انفعالی تصور کی مزید مشکلات کی وضاحت یوں کرتے ہیں:”اگر علم الہٰی کا تصور ایک انفعالی قسم کے علم کلی کی حیثیت سے کیا گیا تو ہمارے لیے خالق کا تصور ناممکن ہو جائے گا۔ یہ اس لیے کہ تاریخ کی مثال اگر پہلے سے متعین شدہ حوادث کی ایک ایسی تصویر کی ہے جو اب بتدریج ہمارے سامنے آ رہی ہے تو اس میں ابداع کی گنجائش ہے ، نہ ندرت کی۔ لہٰذا لفظ تخلیق بے معنی ہو جائےگا۔“(ایضاً، ص 120 )

یہاں اقبال نے خدا کی صفات کے باہم دگر متصاد م ہونے کا جو اجمالی سا ذکر کیا ہے اس کو کارل پوپر نے زیادہ وضاحت سے بیان کیا ہے۔ عام طور پر اسے الٰہیاتی جبریت کا نام دیا گیا ہے۔

الٰہیاتی جبریت پر پوپر کا اعتراض یہ ہے کہ اس طرح ماضی اور مستقبل دونوں حقیقی بن جاتے ہیں۔ ماضی سے مراد وہ واقعات ہیں جو رونما ہو چکے ہیں۔ مستقبل وہ ہے جسے ابھی وقوع پذیر ہونا ہے۔ ماضی اس بنا پر حقیقی ہے کہ وہ بیت چکا ہے اور اب اسے کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ مستقبل غیر حقیقی ہے کہ اسے ابھی وجود پذیر ہونا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ مستقبل بھی اسی طرح خدا کے علم میں ہوتا ہے جس طرح ماضی تو اس صورت میں مستقبل بھی غیر حقیقی نہیں بلکہ ماضی کی طرح ایک اٹل حقیقت ہو گا۔ پوپر نے اس کی مثال سینما کی فلم سے دی ہے۔ فلم سکرین پر دکھائی جا رہی ہے۔ جو مناظر گزر چکے ہیں وہ ماضی ہے۔ سکرین پر نظر آنے والا منظر حال ہے اور جو مناظر ابھی سکرین پر نہیں آئے وہ مستقبَل ہے۔ لیکن یہ مستقبل ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ بھی بعینہ فلم کے فیتے پر موجود ہے جس طرح وہ مناظر جو گزر چکے ہیں۔ اس صورت میں مستقبل بھی ماضی کی طرح اٹل اور ناقابل تغیر بن جاتا ہے۔ پوپر کا کہنا ہے کہ اس طرح خدا کے علم اور قدرت میں تناقض واقع ہوتا ہے۔ جب فلم چل رہی ہو تو فلم کا بنانے والا بھی اس کے انجام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ بعینہ اگر مستقبل بھی خدا کے علم میں ماضی کے مانند ہی حقیقی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب خدا بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات میں تغیر و تبدل نہیں کر سکتا۔ وہ لازماً اسی طرح اور اسی ترتیب سے رونما ہوں گے جس طرح اس کے علم میں مقدر ہیں۔ علم الٰہی کا یہ نظریہ نہ صرف انسان کی آزادی ارادہ اور اس کے اختیار و انتخاب کی نفی کرتا ہے بلکہ خدا کے قادر مطلق ہونے کے بھی منافی ہے۔

چنانچہ اقبال علم کے انفعالی تصور کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں”ہمیں علم الہٰی کا تصور ایک زندہ اور تخلیقی فعالیت کی حیثیت سے کرنا چاہیے جس سے وہ سب اشیا جو بظاہر اپنی ذات کے سہارے آپ قائم نظر آتی ہیں، نامی طور پر وابستہ ہیں“۔ (ص، 119)

یہاں روایتی فلسفیانہ تصور خدا میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ علم کے اس تصور کے مطابق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا کے علم میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن اقبال جس حرکی خدا کا تصور بیان کرتا ہے اس میں اس اشکال کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اقبال کا تصور اس تصور خدا کے عین مطابق ہے جو اپنے بارے میںیہ کہتا ہے کہ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے (کل یوم ھو فی شان) اور اپنی تخلیق میں مسلسل اضافہ کرتا ہے (یزید فی الخلق ما یشائ)۔ چنانچہ تخلیق میںاضافہ اور اس کے نتیجے میں علم میں اضافہ باہم متضاد نہیں ہیں۔

 اقبال کا حدود آشنا خدا کا تصور، جس میں اس کی قدرت اور علم دونوں محدود ہیں، تاریخ فلسفہ میں ایک بالکل اوریجنل تصور ہے جس کا اس سے پہلے شاید کسی نے اظہار نہیں کیا تھا۔ امریکی فلسفی چارلس ہارٹس ہورن ( Charles Hartshorne)نے، جو وائٹ ہیڈ کا شاگرد اور پروسیس تھیالوجی کا علمبردار تھا ، 1967 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ( A Natural Theology for Our Time) کا انتساب جن افراد کے نام کیا ہے، ان میں بیسویں صدی کے فلسفیوں میں سب سے پہلے اقبال کا نام لکھا ہے جس نے ایسا تصور پیش کیا۔

یہاں اقبال نے جبریت کے نظریے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے مستقبل کو کھلا یعنی غیر متعین اور خدا کے لیے بھی ایک امکان قرار دیا ہے۔ اقبال کے ان لیکچرز کے تقریباً پچیس برس بعد کارل پوپر نے اس تصور کو اوپن یونیورس کے نام سے بہت وضاحت سے بیان کیا تھا۔ آج مغرب میں بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے سائنس سے مذہب کی طرف رجوع کیا ہے، مثلاً ایان باربر ( Ian G. Barbour)، جان پولکنگ ہورن ( John Polkinghorne) اور آرتھر پیکاک ( Arthur R. Peacocke) وغیرہ۔ مجھے نہیں معلوم ان میںسے کسی نے اقبال کو پڑھا ہے یا نہیں لیکن ان کے اور اقبال کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔

چلیے یہاں نہ سہی، مغرب کے متعلق اقبال یہ کہہ سکتا ہے:

یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

 اقبال میموریل لیکچر کا تیسرا حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6