تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ: اقبال کا ایک تاریخ ساز فکری کارنامہ (اقبال میموریل لیکچر)


کیا مذہب کا امکان ہے؟

یہاں جن سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں: کیا نازل ہونے والی وحی تمام کی تمام آنے والے تمام زمانوں کے لیے حجت ہے یا اس کا کچھ حصہ زمانہ نزول سے مختص ہے اور کچھ اصول ہیں جو آفاقی اور دائمی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شریعت (قوانین) مذہب کا جزو لاینفک ہے؟

ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور جاگزیں ہے کہ شریعت دائمی اور غیر متغیر ہے۔ لیکن اگر مذاہب کی تاریخ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شرائع میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ مذہبی تاریخ کی رو سے نسل انسانی کا آغاز incest سے ہوا تھا۔ یعنی آدم اور حوا کی اولاد میں بہن بھائیوں کی آپس میں شادیاں ہوئی تھیں۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس وقت یہ جائز تھا۔ اس سے شریعت کے تبدیل ہونے والی بات ثابت ہو جاتی ہے یعنی جو پہلے جائز تھا اس کو بعد ازاںناجائز قرار دے دیا گیا۔ بنی اسرائیل کو جو شریعت عطا ہوئی تھی اس کی ساخت ہی ایسی تھی کہ وہ نہ دائمی ہو سکتی تھی نہ آفاقی۔ متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا فرمان ہے ،”میں تم سے سچ کہتا ہوں جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے“۔ ( 5:18) لیکن بنی نوع انسان نے دیکھا کہ اگلی وحی میں توریت کے بہت سے نقطے اور شوشے تبدیل ہو گئے۔

 وحی کی تاریخ کے طائرانہ جائزے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ جب حالات تبدیل ہوتے ہیں تو خدا اپنا ارادہ بھی تبدیل کر لیتا ہے۔خود قرآن حکیم میں محض تئیس برس کے زمانہءنزول میں بعض ابتدائی احکامات کو منسوخ کرکے نئے احکام دیے گئے۔ اگر اتنے مختصر عرصے میں حالات اتنے بدل سکتے ہیں کہ خدا کو اپنا حکم تبدیل کرنا پڑ جائے تو یہ کس طرح سوچا جا سکتا ہے کہ اب قیامت تک احوال انسان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور یہ تاقیامت اسی طرح لاگو رہیں گے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ وحی کا کچھ حصہ اپنے نزول کے وقت کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ وحی کا مقصد انسان کے لیے غوروفکر کو ممنوع قرار دینا نہیں بلکہ انسان کو اپنی خفتہ صلاحیتوں کے استعمال پر آمادہ کرنا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے۔

 سپائی نوزا نے شریعت موسوی کو اسی دور کے ساتھ خاص قرار دیا تھا۔ اس کے نزدیک یہودیت اصلاً ایک سیاسی مذہب تھا جو قدیم عبرانیوں کے لیے ایک مذہبی ریاست کے قیام کی خاطر تشکیل دیا گیا تھا۔ جب ہیکل کو برباد کر دیا گیا اور یہود کے سیاسی وجود کا خاتمہ ہو گیا تو یہودی مذہب بھی اپنی معنویت سے محروم ہو گیا اور تاریخی اعتبار سے از کار رفتہ ہو گیا۔اگر خدا کا یہ منشا ہوتا کہ یہود کی ریاست تادیر قائم رہے تو وہ انھیں احکام و فرامین کسی دوسری نوعیت کے عطا کرتا اور مختلف قسم کی حکومت کا قیام عمل میں لاتا۔ لیکن ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ خدا ان سے ناراض تھا۔ یہودی شریعت ایک ناراض خدا نے حالت غضب میں یہود پر نازل کی تھی جس کا سبب ان کی سرکشی اور بداعمالیاں تھیں۔جیسا کہ صحیفہ حزقی ایل، ( 25: 20)میں خداوند خدا نے کہا ہے۔

سپائی نوزاکی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی شریعت بطور خاص 70 عیسوی کے بعد، جب رومنوں نے ہیکل ثانی کو برباد کر دیا تھا، متروک و منسوخ ہو چکی ہے اور سترھویں صدی میں (سپائی نوزا کا اپنا زمانہ ) زندگی بسر کرنے والے یہودی کے لیے اپنے زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے پسماندہ اور غیر مناسب حال ہے۔

مسلمان مصلحین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ زمانے کے احوال اور تمدنی اوضاع میں بہت تغیر آ چکا ہے۔ جس فقہ کو مدون ہوئے ہزار برس سے زاید عرصہ بیت چکا ہو وہ عصر حاضر کے تقاضوں کومکمل طور پر پورا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اجتہاد کے بجائے اب مناسب یہ ہو گا کہ قرآن حکیم کے بتائے ہوئے اخلاقی اصولوں کی روشنی میں زمانہ حال کے مقتضا کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ جدید زمانے میں اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کر لیا جائے۔ اقبال نے پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے کی تجویز پیش کی تھی۔

سپائی نوزا کا خیال ہے کہ بائبل کا ایک ہی مقصود ہے اور وہ ہے انسانوں کو اخلاق، قانون کی اطاعت کی تعلیم دینا۔ وہ معاشرہ زیادہ مستحکم اور پائدار ہوتا ہے جس کے افراد قوانین کی پابندی اپنی رضا سے کریں نہ کہ محض سزا کے خوف سے۔ اخلاق اور بھلائی پر مبنی زندگی کا جذبہ خدا کی محبت پر ہونا چاہیے نہ کہ کسی سزا کا خوف۔ جو فرد خیر کا راستہ صحیح علم اور نیک اعمال کی محبت کی بنا پر اختیار کرتا ہے اسے آزادی اورذہنی استقلال حاصل ہوتا ہے، لیکن جو شخص خوف کی بنا پر نیکی کرتا ہے وہ آزاد نہیں ہوتا اور دوسروں کی آرا کا اسیر ہو جاتا ہے۔

 علامہ اقبال نے اپنے لیکچر ”کیا مذہب کا امکان ہے“ میں مذہب کا تذکرہ صرف ایک روحانی واردات کے طور پر کیا ہے، اس میں مذہبی قانون کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مذہب ایک روحانی تجربہ کے طور ہی قائم اور باقی رہے گا۔ مذہبی قانون کی حیثیت اور اس کے غیر متغیر ہونے کے بارے میں ان کے ذہن میںبہت سے اشکالات تھے۔ اس ضمن میں ان کی سید نذیر نیازی سے 4 جنوری 1938 کو ہونے والی یہ گفتگو بہت اہم ہے۔ سید نذیر نیازی نے ان کے یہ الفاظ واوین کے ساتھ نقل کیے ہیں:” ہمیں مغرب سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ہمارا قانون وراثت بڑا ناقص ہے۔ ہمیں چاہیے اس قانون کو بدل دیں اور وہ راستہ اختیار کریں جو مہذب ملکوں کا ہے“ (اقبال کے حضور، ص26)۔ اقبال کی حرکت ذہنی کو سمجھنے کی خاطر وہ سوالات بھی لائق غور ہیں جو انھوں نے مختلف خطوط میں سید سلیمان ندوی سے پوچھے تھے۔

 پروفیسر رشید احمد صدیقی اقبال سے ایک ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

میں نے ایک دفعہ کسی قدر گستاخ ہو کر 1935میں ان سے کہہ دیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے دنیا کو دھوکا دے رکھا ہے۔ اس فریب کو دنیا نے کبھی پا لیا تو کیا ہو گا۔ یہ سن کر متحیر ہو گئے لیکن مسکر ا کر پوچھا ”کیوں کیا بات ہے؟“ میں نے عرض کیا ”ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے بڑی محنت اور بڑے غور و فکر کے بعد اپنے خیالات اپنے اشعار میں قلم بند کر دیے ہیںحالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ جو کچھ جانتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی آپ کے کلام میں نہیں ہے۔یہ تو بڑا ستم ہے کہ ہم صرف اتنا ہی جان کر اکتفا کر لیںاور آپ یہ غضب کر رہے ہیں کہ شعر و شاعری سے آگے نہیں بڑھتے۔ آپ کی صحبتوں میں وہ باتیں معلوم ہوتی ہیں جن کی آپ کے اشعار میں محض کہیں کہیں دھوپ چھاؤں سی مل جاتی ہے، حالانکہ آپ بات بات میں وہ نکتے بتا جاتے ہیں جو مدتوں مطالعے کے بعد بھی شاید معلوم نہ ہوتے۔

 کیا کمال بات کی ہے:”آپ یہ غضب کر رہے ہیں کہ شعر و شاعری سے آگے نہیں بڑھتے۔“ یقینا اقبال اپنی نجی محفلوں میں ایسے افکار و خیالات کو بیان کرتے ہوں گے جن کو بعض اوقات انسان ضبط تحریر میں لانے میں متذبذب ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتنے ہی بصیرت افروز نکات ہوں گے جو بس ہوا برد ہو گئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اقبال کو کوئی ایکرمان ( Eckermann)، جس نے گوئٹے سے ہونے والی ملاقاتوں کی روداد قلم بند کی تھی، میسر نہیں تھا۔اگر ایسا ہوتا تو بہت سے رموز و نکات محفوظ رہ جاتے جو شاید کچھ نئے در وا کرنے میں مددگار ہوتے۔

بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا ہے کہ وحی الہٰی سے ہدایت کے لیے مذہبی فکر تفسیری انداز کو رد کرتے ہوئے کلام کے اصل مقصود و مطلوب کو دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ کلام کے الفاظ پر بحث مباحثہ کوئی مفید مطلب نتائج پیدا نہیں کرتا۔ والٹر کافمین نے تفسیری انداز کا بڑا عیب یہ بیان کیاہے کہ اس میں مفسر اولاً اپنے خیالات کو متن میں پڑھتا ہے اور پھر انھی خیالات کومتن کی سند کے ساتھ بیان کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس انداز پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا ہے:

What Hegel says is what I say he says.

مذہبی متن میں اس مفہوم کو دریافت کرنے کی سعی کرنا لازم ہے جو زبان اور الفاظ کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔ وہی مفہوم مقصود و مطلوب ہے جو تمام انسانوں کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔ منطق اور ریاضی میں بیان کیا گیا قضیہ لسانی تحدیدات کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ اس کی صداقتی قدر زبان سے ماورا ہوتی ہے۔ اس لیے دو جمع دو مساوی چار کو کسی بھی زبان میں بیان کیا جائے، اس کی صداقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر ریاضی اور منطق آفاقی اور غیر زمانی صداقت کی حامل ہیں۔

منطق اور ریاضی کے علاوہ دیگر متون میں اگر چہ بہت کچھ وقت اور مقام کا اسیر ہوتا ہے لیکن ان میں ایسا پیغام بھی ہوتا ہے جو دائمی اور آفاقی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا بھر کے اعلیٰ ادب کو، خواہ وہ قدیم ہو یا جدید، تراجم کے ذریعے پڑھتے اور کسی نہ کسی حد تک فیض یاب ہوتے ہیں۔

 انسان کا اصل مقصود آفاقی اور دائمی قدروں کے مطابق اعلیٰ اخلاقی زندگی بسر کرنا ہے۔ اقبال نے دنیا کی امامت کے لیے امانت، دیانت اور صداقت کی جن اقدار کا ذکر کیا ہے ، وہ اپنی اصل میں اخلاقی اقدار ہیں۔ کوئی خدا پرست ہو یا ملحد، اگر وہ ان اقدار کو اپنا دستور حیات بنائے گا تو نتائج دونوں صورتوں میں یکساں ہوں گے۔ انسان سے مطلوب محض شرائع کی پیروی کرنا نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان صدق دل کے ساتھ اخلاقی اصولوں کی پیروی کو بجائے خود مقصد سمجھے نہ کہ ان کی پیروی کو کچھ اور مقاصد کے حصول کا ذریعہ خیال کرے۔ خوف یا لالچ کے تحت جب احکام کی پیروی کی جاتی ہے تو وہ مطلوبہ اخلاقی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ عام مشاہدہ اور تجربہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ مذہبی رسوم کی بے روح میکانکی ادائیگی اعلی اخلاقی اقدار کی آبیاری کرنے میں ممد و معاون نہیں ہوتی۔

سپائی نوزا کا کہنا ہے کہ مذہب نے جو دائمی اور آفاقی اصول مہیا کیے ہیں وہ انسان عقل کے فطری نور کو استعمال کرتے ہوئے بھی دریافت کر سکتا ہے۔ مثلاً یہودی شریعت کے یہ دو احکام، تم قتل نہیں کرو گے اور تم چوری نہیں کرو گے، زمان و مکان کی قید سے ماورا ہیں۔ انسانی معاشروں میں اسے حرمت جان اور حرمت مال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دور جدید کے انسان نے ان پر ایک اور اصول کا اضافہ کیا ہے اور وہ ہے انسان کی حریت۔ گویا کسی انسان کی فکر و عمل کی آزادی سلب کرنا جان اور مال کے اتلاف جتنا ہی سنگین جرم ہے۔

مذہب اور سائنس کی بیان کردہ تاریخ میں تفاوت نظر آتا ہے۔ مذہبی تاریخ کی رو سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر شفقت فرماتے ہوئے ان کی رہنمائی کے لیے آسمانی ہدایت کا سلسلہ شروع کیا اور انبیا اور رسل مبعوث کیے۔ ان انبیا کی توثیق کے لیے ان کو کچھ نشانیاں اور معجزات بھی عطا کیے گئے۔ مختلف معاشروں میں انسانوں کی بڑی تعدادہمیشہ معجزات کی منتظر رہی ہے لیکن جب ان کی آنکھوں کے سامنے معجزہ رونما ہوتا ہے تو اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ مذہبی تاریخ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ ہردور میں انسانوں کی بڑی تعداد نے ان معجزات سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو سب سے زیادہ محیر العقول معجزات عطا کیے گئے لیکن ان پر ایمان لانے والوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہ ہو سکی۔

اس تصور کو کہ انسان از خود کچھ جاننے اور سیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، بنیاد بنا کر اہل مذہب نے اہل اقتدار کے ساتھ مل کر انسان کے آزادانہ فیصلے کا حق سلب کر لیا۔ انسانوں کو اس قدر خوف زدہ کر دیا گیا کہ ان کی عقل ناقص ہے چنانچہ اس کی بناپر جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ انھیں سیدھی راہ سے بھٹکا دے گا۔ا ن کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے کا اختیار دوسروں کے سپرد کر دیں۔ اس کا ایک بہت شاندار بیان دوستوئیفکی کے ناول” کرامازوف برادران “کے محتسب اعلیٰ کی زبانی موجود ہے۔ وہ کہتاہے کہ انسانوں کی سرکش طبائع کو معجزہ، رمزاور اتھارٹی کی مدد سے ہی قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ اہل مذہب کے پیدا کردہ اس خوف کو والٹر کافمین نے Decidophobiaکیا نام دیا ہے۔

اس کے برعکس انسانی تاریخ، جو جدید سائنس کی رو سے لاکھوں برس پر محیط ہے، اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ انسان نے اس کائنات کو جاننے اوردیگر انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اپنے ہی فہم و شعور پر بھروسہ کیا ہے۔ جن معاشروں میں خدا کی طرف سے کوئی پیغام آتا بھی تھا تو اس کو بہت جلد اپنے ثقافتی رنگ میں رنگ لیا جاتا تھا۔

اگر خدا، کائنات اور انسان تینوں متحرک ہیں اوراس کائنات میں لمحہ بہ لمحہ نو بہ نو احوال و ظروف معرض وجود میں آ رہے ہیں تو ایسی ہر لحظہ دگرگوں ہوتی کائنات کی تفہیم کی خاطر فکر کے نئے آلات کی ضرورت بھی پڑے گی۔ اس لیے زمانہءماضی کے کسی علم کو اس کائنات کی تفہیم میں حرف آخر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عمل کے نئے پیمانوں کا وضع کیا جانا بھی ناگزیر ہے۔ دینیاتی تفکر بھی اسی وقت فائدہ مندہو گا جب وہ سائنس کی بدلتی اور پھیلتی ہوئی کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

فکری آزادی کے ساتھ جدید تصور انسان کا دوسرا سنگ بنیاد اخلاقی ارتقا کا نظریہ ہے۔ انسان کے تہذیبی، ثقافتی اور علمی ارتقا کے ساتھ ساتھ اس کا اخلاقی شعور بھی ارتقا پذیر ہے۔ ماضی کا کوئی مقام ایسا نہیں ہو سکتا جب انسان کا اخلاقی شعور اپنے نقطہ کمال کو پہنچ گیا ہو اور اس کے بعد اس کا اخلاقی ارتقا رک گیا ہو۔ چنانچہ اخلاقی اعتبار سے وہ معاشرہ بہتر ہو گا جس میں انسانوں کو رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ میں تقسیم نہ کیا جاتا ہو، جس میں تمام انسانوں کو برابر تسلیم کیا جاتا ہو اور انسانوں کی بھیڑ بکریوں کی طرح خرید و فروخت نہ ہوتی ہو، غلامی کو جائز نہ سمجھا جاتا ہو بلکہ اسے غیر قانونی قرار دیا جاتا ہو، جہاں عورتوں کے مساوی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہو، جہاں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو، جہاں مجرموں اور جنگی قیدیوں کے حقوق کو بھی تسلیم کیا جاتا ہو۔

امریکی انقلاب کے اعلان آزادی میں اگرچہ یہ لکھا گیا تھا کہ ہر انسان کو حیات، حریت اور حصول مسرت کی کاوش کا نا قابل انتقال حق حاصل ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہر انسان سے مراد صرف سفید فام مرد تھے۔ اس لیے انقلاب فرانس کے نظریہ سازوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے انسانی تاریخ میں پہلی بار تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ وہ ملک جہاں رومن کیتھولک غالب اکثریت میں تھے وہاں پروٹسٹنٹ عقیدے کے حامل لوگوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت انوکھی بات تھی۔ عورتوں کے ساتھ ہر نوع کے صنفی امتیاز کے خاتمے کا مطالبہ اس سے بھی بڑی بات تھی۔ غلامی کے مکمل خاتمے کا مطالبہ اور یہودیوں کے لیے مساوی حقوق کی بات کرنا بہت بڑی جسارت تھی۔ لیکن آج انسانی ضمیر ان سب باتوں کو تسلیم کر چکا ہے اور جو کل تک غلامی کے خاتمے کے مطالبے کو خلاف شریعت قرار دیتے تھے وہ بھی اس کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔

علامہ اقبال نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی دانش افرنگی اور ایمان زناری ہے۔ ایمان پر تو میں کوئی تبصرہ کر نہیں سکتا البتہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ان کی دانش افرنگی تھی۔ دانش نام ہے اپنے زمانے کے وقیع ترین اور معتبر ترین علم و فکر سے معاملہ کرنے کا۔ اس وقت علم و فکر فرنگیوں کے پاس ہی تھا۔ ہمارے ہاں ایک مقولہ بہت مشہور ہے علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اس کے مفہوم کی صداقت پر شک کرنا مشکل ہے۔ یعنی جو حکمت تمھیں میسر نہیں، وہ جہاں کہیں سے ملتی ہے، اسے حاصل کرنے کی سعی و جہد کرو۔ ابتدائی صدیوں کے مسلمانوں نے اسی بات پر عمل کیا تھا۔ جب وہ دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کرکے بیٹھ گئے تو انھیں احساس ہوا کہ علم تو ان کے پاس نہیں ہے۔ چنانچہ انھوں نے یہ معلوم کیا کہ یہ علوم کہا ں پائے جاتے ہیں اور پھر ہند سے لے کر یونان تک جہاں سے بھی انھیں علم میسر ہوا انھوں نے اس کی تحصیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

 پروفیسر عبد الحمید صبرہ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ مسلمانوں کا سائنس میں زوال اتنا بڑا واقعہ نہیں جتنا بڑا معجزہ ان کا ا ن علوم کو حاصل کرنا تھا۔ سیاسی طور پر غالب ہونے کے باوجود غیر مسلم اساتذہ کے قدموں میں بیٹھ کر اجنبی علوم کی تحصیل کرنا بڑی ہمت کی بات تھی۔ انھوں نے اس بات میں کوئی شرم محسوس نہیں کی تھی۔ بس جو میسر نہیں تھا، اس کو حاصل کرنے کا جذبہ حاوی تھا۔

یہ ہرگز تعجب انگیز بات نہیں کہ ایک ہی شخص کے ہاں بہت عمدہ اور صحیح خیالات کے ساتھ ساتھ بدترین قسم کا کنفیوژن بھی موجود ہو۔ اقبال بھی مغرب کے متعلق انتشار ذہنی کا شکار رہے ہیں۔ وہ مغرب کی علمی اور فکری ترقی کے قائل ہیں لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمدنی اثرات سے خوف زدہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اقبال کا عقلی اور فکری شعور تو بہت ترقی یافتہ ہے لیکن ان کا ثقافتی شعور تاریخی روایات کا اسیر ہے۔ نثر میں وہ مغربی فکر سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں لیکن شاعری میں جابجا مغربی تہذیب کو رگیدنا ضروری خیال کرتے ہیں۔میری رائے میں اقبال کی فکر میں وہی باتیں دیرپا ثابت ہوں گی جودانش حاضر کے چراغوں سے منور ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی سوانح عمری ”اپنا گریباں چاک“ میں ایک بہت عجیب بات لکھی ہے: ”خدا کے نازل کردہ مذاہب یا ادیان بھی [انسان] کے اندر کے حیوان کو مستقلاً زیر نہیں کر سکے۔ مذہبی جبر یا ثقافتی رواداری سب اسے قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس اندر کے حیوان کو بعض لوگ شیطان سمجھتے ہیں۔ مگر شیطان تو اپنے تکبر کی وجہ سے راندہءدرگاہ ہوا۔ انسان کے معتوب ہونے کا باعث تکبر نہیں بلکہ اس کی بھوک اور شہوت تھے۔ بھوک اور شہوت حیوانی خصوصیات ہیں، شیطانی نہیں۔ میرے خیال میں خداوند تعالیٰ کا یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا۔ (ص،254 )

میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا آخری جملہ کسی قدر مبہم ہے اور اس کو دو طرح سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اگر ڈاکٹر صاحب کی مراد یہ ہے مذہب انسان کے اندر کے حیوان کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے تو مجھے ان سے اتفاق ہے۔ انسانوں نے خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر عمل کرکے بہتر اخلاقی زندگی گزارنے کے بجائے اس ہدایت کو ہی گردنیں کاٹنے اور خون بہانے کا وسیلہ بنا لیا۔

 لیکن اگروہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو پیدا کرنے کا تجربہ کامیاب نہیں رہا تو مجھے اس مفہوم سے اختلاف ہے۔ یہ بات درست ہے کہ انسانی تاریخ میں قتل و غارت گری ،خون ریزی ، ظلم و تشدد بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پچھلے چند ہزار برسوں میں انسان نے تہذیب و ثقافت کے جو مظاہر، علمی ترقی کے کار ہائے نمایاں، شعر و ادب و فنون لطیفہ، قانون و اخلاق کی جو دنیا تخلیق کی ہے وہ اتنی شاندار ہے کہ اس پر بجاطور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا انسانیت کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

مارٹن ہائڈیگر کا یہ خیال صحیح نہیں کہ انسان کو اس دنیا میں مرنے کے لیے پھینکا گیا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں موت تو تجدید مذاق زندگی کا نام ہے۔ انسان اپنی محدود سی زندگی میں تخلیق کاری اور حسن آفرینی کا کارنامہ انجام دیتا ہے۔اقبال کے تصور میں آئیڈیل صورت یہ ہو گی کہ ایک انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور طور پر بروئے کار لا تے ہوئے اور اخلاقی طور پرذمہ دارانہ زندگی گزار کر موت کے بعد جب اپنے خالق کے روبرو پیش ہو تو سر اٹھا کر یہ کہہ سکتا ہو: باری تعالیٰ! تو نے میرے ناتواں کندھوں پر جو بار امانت ڈالا تھا وہ میں نے اٹھا لیا تھا۔ تو نے میری اک ذرا سی بھول پر مجھے جنت سے نکال کر ویرانے میں دھکیل دیا تھا۔ لیکن دیکھ! میں نے تیرے بیابان میں کیسے کیسے خوبصورت گلستان بنائے ہیں۔

 (اقبال میموریل لیکچر: پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے زیر اہتمام  14 نومبر 2018 کو رازی ہال میں پڑھا گیا۔)

 

 

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6