میری پہلی محبت: کرکٹ


دوسری جماعت سے لے کر چوتھی جماعت تک میں سرگودھا کے دو سکولوں میں زیر تعلیم رہا۔ پہلی تین جماعتیں پی اے ایف کالونی میں ماڈل سکول میں رہا۔ جبکہ چوتھی جماعت سلطان مل ہائی سکول میں پڑھی۔ یہ سکول ائیر فورس کی رہایشی کالونی سے باھر تھا۔ اور لیاقت کالونی اور انجا ٹیل ( 49 Tail) کے درمان تھا۔ یہ 1983 سے 1986 کے چار سال تھے۔ تیسری جماعت سے اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ ہاکی کھیلنا شروع کی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک دوست نے اپنے گھر کے صحن میں لگے شھتوت کے پیڑ سے مجھے ہاکی بنا کر دی۔ وہ ہاکی مجھے بہت محبوب تھی۔ میں ہاکی کھیلنے کے لئے اکثر سکول سے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بھاگ آتا۔ اور ہاکی کھیلا کرتا۔

1987 میں جب پانچویں جماعت میں پہنچا تو سرگودھا کو خیر باد کہہ کر گاٶں آگیا۔ اس وقت ڈھوک برج میں رہتے تھے۔ اور پانچویں جماعت ڈھوک برج میں مکمل کی۔ چھٹی جماعت میں داخلہ لینے کے لئے کرولی سکول میں آنا پڑا۔ کیونکہ ڈھوک برج میں سکول پرائمری تھا۔ کرولی میں آکر میری پہلی محبت کا آغاز ہوا۔ اور یہ کرکٹ تھی۔ میں پوری تہہ دل سے کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ میری محبت تھی۔ اس زمانے میں ریڈیو پر کمینڑی سنا کرتے۔ کیونکہ ٹی وی نہیں تھا۔ یا اگر کسی کے گھر تھا بھی تو ہماری پہنچ سے باھر تھا۔

جب چھٹیوں کے دوران تھل اپنی ڈھوک پر ہوتا اور میچ بھی ہوتا تو ناقابل بیان خوشی کا احساس ہوتا۔ صبح جب بکریاں اور گائے کے ریوڑ کو چرانے کے لئے جاتا تو بغل میں ریڈیو ضرور ہوتا۔ سردیوں کی چمکدار دھوپ۔ صبح کی ہلکی ہلکی سرد ہوا اور محمد ادریس اور حسن جلیل کی کمینڑی۔ یہ سب مل کر ایسا سماں باندھتے جس کو بیان کرنے کے لئے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ کیفیت اور احساس کو عموماً الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ چوکا یا چھکا لگنے پر اور مخالف ٹیم کے کھلاڑی کے آٶٹ ہونے پر کمنٹیٹر کی آواز ایسے بلند ہوتی کہ جسے ابھی کمنٹیٹر ریڈیو سے باھر آ جائے گا۔

میں خود بھی کرکٹ کھیلا کرتا۔ باٶلنگ مجھ سے نہ ہو پاتی۔ صرف بیٹنگ کیا کرتا۔ سکول سے چھٹی کے بعد واحد گیم کرکٹ ہی تھی جو ہم کھیلتے۔ چھوٹی موٹی دیگر کھلیں بھی کھیلتے۔ لیکن کرکٹ کے لئے ہم کسی بھی حد تک چلے جاتے۔ گرم تپتی دوپہر میں ایک کلو میٹر بلند پہاڑی پر بنے میدان میں جا کر کھیلنا۔ یا گاٶں سے باھر دور کبھی ایک جگہ میچ کھیلنا اور کبھی دوسری جگہ۔

مجھے دوست کبھی کبھی سدھو کہا کرتے۔ نوجوت سنگھ سدھو انڈیا کا اوپنر تھا۔ دوست تو شاید شغلاً مجھے سدھو کہتے۔ لیکن میں سچ مچ اپنے آپ کو سدھو سمجھنے لگ جاتا۔ کرکٹ کا بلا پکڑ کر جب گریز پر کھڑا ہوتا تو اپنے آپ کو کبھی سدھو کبھی جاوید میانداد اور کبھی ڈی سلوا سمجھا کرتا۔ کرکٹ میرا جنون تھا۔ میری محبت تھی۔

پھر ٹی وی تک رسائی ملی۔ لیکن ٹی وی بھی کبھی کبھی دغا دے جاتا۔ تو اس وقت ہونے والی بے چینی اور بے قراری دیکھنے والی ہوتی۔ مجھے یاد ہے پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ تھا میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا۔ پڑھنے کے لئے گورنمنٹ کالج چکوال جایا کرتے۔ 1993 کی بات کر رہا ہوں۔ شاید ٹی وی خراب تھا یا کیا بات ہوئی کہ میری ٹی وی تک رسائی مشکل ہو گئی۔ راجہ نادر علی بھی میرے ساتھ چکوال کالج میں تھا اور میچ کا شوقین تھا۔ اس نے کہا کہ چکوال سے کچھ دور ایک ڈھوک ہے۔ ڈھوک بودلے شاہ۔ وہاں میرے ماموں راجہ شیر صاحب امام مسجد ہیں۔ وھاں چلتے ہیں۔ وھاں ٹی وی ہے۔ ہم کچھ گاڑی پر اور کچھ پیدل چل کر ڈھوک بودلے شاہ گئے اور میچ دیکھا۔ رات وھاں ہی بسر کی۔ اور دوسرے دن گھر والوں سے خوب بے عزتی بھی کروائی۔

پھر ٹی وی عام ہو گیا اور کرکٹ سے میرا عشق بھی بڑھ گیا۔ کرکٹ ہیر تھی اور میں رانجھا۔ کرکٹ سسی تھی اور میں پنوں۔ کرکٹ سوھنی تھی اور میں مہینوال۔ دن کو بھی کرکٹ تھی اور رات کو بھی کرکٹ۔ کرکٹ کھلنے والوں ملکوں کے سب کھلاڑیوں کے نام ازبر تھے۔ جو جس طرح کا پلیئر تھا۔ جس کا جو ریکارڈ ہوتا سب یاد تھا۔ کرکٹ کے چھوٹے بڑے ریکارڈ اور واقعات سب یاد تھے۔ کورٹنی والش کا بالنگ سٹایل اور عامر سہیل کا بیٹنگ سٹائیل اچھا لگتا۔ ۔ کرکٹ میچ کے دوران کھانا پینا اور سونا بھول جاتا۔ میچ ہوتا۔ میں ہوتا۔ ایش ٹرے ہوتی اور سگریٹ کی ڈبی۔ میرا عشق عروج پر تھا۔

پھر 2011 کا ورلڈ کپ آیا۔ پاکستان اچھا کھیل رہا تھا مجھے اب یاد نہیں کہ کواٹر فائنل تھا یا سیمی فائنل ۔ پاکستان کا مقابلہ انڈیا کے ساتھ تھا۔ میں واہ میں تھا۔ میرے مکان میں میچ دیکھنے کی پلاننگ کی گئی۔ میرے محلے کے میرے سارے طالب علم میرے مکان پر جمع ہو گئے۔ سات یا آٹھ لڑکے تھے۔ انڈیا نے 260 کے لگ بھگ رنز بنائے۔ وکٹ کی صورتحال کے مطابق یہ آسان ہدف تھا۔ کھانے کا وقفہ ہوا تو ہم بہت خوش تھے۔

لڑکوں نے گولے بھی منگوا لئے اور ڈھول والے کو بلانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ میچ شروع ہوا۔ پاکستان کا آغاز بھی اچھا تھا۔ لیکن پاکستا ن میچ ہار گیا۔ ہماری دل کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ مجھے لگا کہ میری سسی کہیں کیچ مکران کی گرم ریت میں گم ہو گئی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری سوہنی کا کچا گھڑا ٹوٹ گیا۔ اور وہ چناب کی لہروں میں ڈوب گئی۔ میں سمجھا کہ کسی لنگڑے کیدو نے میری ہیر مجھ سے چھین لی ہے۔ مجھے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب کرکٹ کی محبت میرے دل سے نکل گئی۔ ۔ میں آج اپنے دل کوٹٹول کر دیکھتا ہوں کہ شاید کرکٹ سے محبت کا کچھ اثر باقی ہو۔ لیکن کرکٹ تو مجھے ایک بے وفا محبوبہ کی طرح چھوڑ گئ

اب میرا اور کرکٹ کا آمنا سامنا کسی جگہ ہو بھی تو میں منہ پھیر لیتا ہوں۔ اجنبی بن جاتا ہوں۔ انجان سا ہو جاتا ہوں۔ کمرے میں میچ لگا بھی ہو تو نہیں دیکھتا۔ دل ہی نہیں کرتا۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ وھی کرکٹ ہے جس کو میں ٹوٹ کر چاھتا تھا۔ اب میں کرکٹ سے کوسوں دور ہو گیا ہوں۔ کرکٹ بھی جیسے میرے رویے سے دل برداشتہ ہو گئی ہے۔ اب پچاس پچاس اوور کی بجائے زیادہ تربیس اوور پر آ گئی ہے ٹیسٹ میچ بہت کم ہو گئے ہیں۔ جس طرح ہم سب جلدی میں ہیں۔ اور بے ہنگم زندگی گزار رہے ہیں۔ شایید کرکٹ بھی اسی طرح جلدی میں ہے۔ اب ہر طرف پیسہ اور گلیمر کی چکا چوند ہے۔ کرکٹ کے میدان میں روشنیاں اور رنگ تو ضرور ہیں مگر کرکٹ پھیکی پڑ چکی ہے۔ میں نے کرکٹ کو چھوڑا ہے تو کرکٹ بھی مجھے چھوڑ گئی ہے۔ بے وفا محبوبہ۔ ۔

راجہ ابرار حسین عاجز
Latest posts by راجہ ابرار حسین عاجز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).