بھوک یا روشن خیالی


پاکستان کی دن رات ڈولتی ہوئی سیاست اور کرپٹ، وعدہ خلاف سیاست دان ہمارے ملک کا ٹریڈ مارک بن چکے ہیں۔ پاکستان کا نام آئے تو دہشت گردی، کرپشن، سیاسی رہنماؤں کی منی لانڈرنگ، اربوں کھربوں کے گھپلے۔ دوسرے ملکوں کے لوگ بھی سوچتے ہوں گے کہ اتنے چھوٹے سے ملک میں جہاں پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں وہاں پراتنا پیسہ کدھر سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر کوئی دنوں میں امیر کبیر بن جاتا۔ دہشت گردی کی وجہ سے جہاں سکولوں میں چھٹی دے دی جاتی ہے، کاروبارِزندگی بند ہو کر رہ جاتے وہاں سڑکوں پہ اتنی گاڑیاں کدھر سے آجاتی ہیں۔ بڑے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے قصبوں میں محل نما گھر کیسے بن جاتے؟ جہاں نہ گیس نہ بجلی۔ مطلب لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں وہاں ہر روز لوگ اتنی عیاشی کرتے کیسے نظر آتے ہیں

آج کل ساری توانیاں سیاست کو ڈسکس کرکے اپنی اپنی قابلیت جھاڑنے میں استعمال ہورہی ہیں۔ ہر کسی کو یہ خیال کہ آسیہ مسیح کو ڈیفنڈ کریں یا پھر مولویوں کو؟ کوئی بیچ میں پھنسا رہ جاتا ہے اور کوئی ایک طرف ہٹ کر اپنی حتمی وفاداری اور بے انتہا قابلیت کا اعلان کردیتا ہے۔ لیکن ان بڑی بڑی دھماکہ خیز خبروں اور ملک گیر ہنگاموں کے دوران ہم بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے اصل مسائل تو ہیں ہی کچھ اور۔ جس ملک میں بجلی نہ گیس، جب پیٹ میں ایندھن نہیں تو یہ سیاست کی آگ کا ایندھن بھڑکا دیا جاتا ہے جس کا فائدہ کبھی حکومت کی پارٹی کو ہوتا ہے تو کبھی اپوزیشن میں بیٹھی دھواں دار پارٹی کو۔ پر عام آدمی کے مسائل؟ ان کا حل؟ کوئی حل؟

کوئی حل نہیں۔ کوئی چولھا پھٹ کے مرے، یا پانی میں ڈوب کر، کوئی اغوا ہو کے غائب ہوجائے، لاش ملے ”تو ایسا لگتا ہے کہ۔ روزانہ اس طرح کی آٹھ دس خبریں اک نارمل تناسب ہے۔ مجھے سیاسی مسائل پہ لکھتے ہوئے پلے ہی نہیں پڑتا کہ آخر کس چیز پہ لکھوں یا کس کس چیز پر لکھوں؟ اور پھر جب دوسرے لوگوں کے کالمز پڑھوں تو پھر وہی سیاست! ہر کوئی سمجھتا کہ اس مخصوص مسئلے پر جو معلومات اور جو تجزیہ اس نے مہیا کیا اس طرح کا کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ خیر یہ تو رہی وہ سوچ جو کہ اس وقت لکھنے والے طبقے میں بری طرح پڑ چکی ہے۔ شاید ہمیشہ سے ایسا ہی ہو۔

مگر عام آدمی کی مشکلات اور مسائل پہ کون لکھے۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے ایک پروگرام چل رہا تھا ایک ایسے شخص کا انٹرویو تھا جس نے دو لاکھ روپوں کے لئے اپنا گردہ بیچ دیا۔ یہ توصرف ایک شخص تھا جس کی سٹوری ٹی وی کے ذریعے ہم تک پہنچ گئی۔ لیکن غربت اور بے روزگاری کا جو سکیل اس وقت پاکستان میں ہے میرے خیال سے تو گردہ چوروں کا یہ گروہ اچھی خاصی ترقی کررہا ہوگا۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ کیاآپ کے گردہ بیچنے سے حالات بدلے۔ اس کا جواب نفی میں تھا لیکن بہت سی جسمانی مستقل تکالیف سے ضرور دوچار ہوگیا تھا۔ یہ الفاظ کرب اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت تھے

یہ ہے پاکستان کے بیشتر طبقے کی زندگی! کوئی روشن خیالی انھیں کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچاسکتی جن کے پیٹ میں نوالہ نہ ہو۔

سندھ کے ایک ریسٹورنٹ کا کھانا کھانے سے دو بچوں کی جان چلی گئی۔ جب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ گودام میں تین سال سے پرانا ایکسپائرڈ گوشت پڑا ہوا تھا۔ گلتا سڑتا بدبودار گوشت، اور گودام میں بدبو کی وجہ سے کھڑانہیں ہواجارہا تھا۔ چلیں ریسٹورنٹ کا مالک، تو یقیناٌ کوئی قصائی ہی ہوگامگر ادھر کام کرنے والوں کا ضمیر بھی کبھی نہیں جاگا۔ مگر یہ بھی اک حقیقت ہے کہ بھوک انسان کو صرف پیٹ کی یاد دلاتی ہے ضمیر کی نہیں۔

اب لاشیں گرانے کے لئے خودکش جیکٹ کی نہیں بلکہ زنگر بر گر، شوارمہ اور فرائزکی ضرورت ہے۔ کیا اب بھی ہم اس کو امریکہ یا پھر یہودیوں کی دشمنی کہیں گے۔ دراصل بے روزگاری، غربت، غیر انسانی رویوں نے لوگوں کے اندر سے احساس کو ختم کر دیا۔ جیسے جنگ کے بعد سب کچھ اتھل پتھل ہوجاتا ہے اسی طرح بھوک اور اقدار کی جنگ میں تھکی ہاری بھوک جیت جاتی ہے۔

ایک غریب انسان کو روشن خیالی کی نہیں بلکہ گھر میں روشنی کی ضرورت ہے اور یہی وہ اکائی ہے جو پاکستان کی پہچان ہے۔ انہی غریبوں سے خوشحالی کا آغاز ہوگا تو شاید روشن خیالی کا تیل بھی جلنے لگے۔ ورنہ کان کو ادھر سے پکڑیں یا ادھر سے، بھلا کھاتے پیتے لوگوں کا ہی ہورہا ہے۔ عمران خان کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ تقریروں کے علاوہ بھی عام آدمی کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے۔

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

ورنہ جیسا کہ میں اکثر بولتی ہوں کہ صورتحال اندرون خانہ اور بری ہوتی چلی جارہی ہے۔ دوچار لوگوں کے مثبت سوچنے سے جو جڑوں کے اندر تک کرپشن پھیلی ہوئی ہے وہ محض کرپٹ سیاستدانوں کو آگے پیچھے کرنے سے ختم ہونے والی نہیں۔ بلکہ اب سوشل میڈیا کی بدولت ڈارک سائیڈز کے سامنے آنے کے چانسز پہلے سے بھی زیادہ ہیں اس پہ پھر لکھوں گی تفصیلاً۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).