اے کاش ہم زندگی بھی امپورٹ کرسکتے


نیا دور ہے جدید تقاضے ہیں اب گھر پر کھانا کھانا بہت اولڈ فیشن مانا جاتا ہے۔ جبکہ اب گھر سے باہر جاکر کھانا یا گھر پر منگوانا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے۔ گلی کوچوں محلوں میں کباب والے، پیزا والے، بریانی والے اور نہ جانے کیا کیا والے اپنی دکانیں سجاکر بیٹھے ہیں۔ سونے پر سہاگہ ہر ایک کے پاس ہوم ڈیلیوری کی شاندار سہولیات موجود ہیں۔ بس ایک فون کال اور آپ کا کھانا حاضر پکانے کے جھنجھٹ سے بھی جان چھوٹی۔ جو کوئی مہمان آگئے تو کال کرو پیزا منگواؤ اللہ اللہ خیر صلا۔

بچوں کو بھوک لگے فروزن آئٹم گرم کرو اور کھلا دو۔ کون پڑے سل پیسنے، مصالحہ کوٹنے اور بھوننے کے بکھیڑوں میں۔ قوت کم مقابلہ سخت زبان کا چٹخارہ ایسی ظالم شے ہے کہ اس سے فرار ناممکن ہے۔ کہیں کوئی نیا کھانے کا آئٹم آیا ہے تو وہاں جانا ہے لازمی، کوئی ڈسکاؤنٹ ڈیل ہے تو وہ تو ویسے ہی ضروری ہے۔ کے ایف سی، میکڈونلڈ تو آتے جاتے بندہ چلا ہی جاتا ہے اور جو بچے ساتھ ہوں تو مجبوری ہے۔ آخر بچوں کا بھی اسٹینڈرڈ ہوتا ہے جو اپنا تن پیٹ کس کر اور نہ بھی کس کر ان کو بڑے بڑے انگریزی اسکولوں میں پڑھارہے ہیں تو وہاں بچوں سے مقابلہ بھی ہوتا ہے۔

اب یہ کیسے بتادیں کہ ہمارا بچہ تو فلاں برگر کی دکان نہیں جانتا۔ پہلے جو ذرا اماں ابا سے باہر کھانا کھانے کی ضد کی تو ایسی ایس باتیں سننے کو ملتیں کہ توبہ ہی بھلی۔ اگر کبھی اسکول کے باہر سے کوئی قلفی پاپڑ یا کھٹے چورن کھاتے پکڑے جاتے، یا چلو دل پشوری کے لیے کوئی اورنج سوڈا پی لیا۔ تو دادی صحت کے وہ ہولناک نقشے کھینچتی تھیں کہ موت کے بعد کے مناظر آنکھوں کے سامنے لہراجاتے۔ وقت بدلا خیالات بدلے روایات بدلیں جہاں کبھی ہوٹل سے روٹی لانے کا مطلب ہوتا تھا کہ خاتون خانہ شاید موجود نہیں یا خدانخواستہ دنیا سے سدھار گئیں، اب وہیں تندور کی روٹیاں دھڑلے سے آتی ہیں کیونکہ کبھی اچانک گیس غائب تو کبھی کوئی اور مجبوریاں۔

بھلے ٹی وی پر اینکر رات کے اندھیرے میں کسی کونے پر کھڑا چیخ چیخ کر کسی تندور والے کے آٹے کے فضائل بیان کررہا ہو۔ یا پھر کسی بیکری میں اچک اچک کر بنانے والوں سے برتنوں اور حشرات الارض کا حساب کررہا ہو۔ اس قوم نے کون سا باز آجانا ہے، کوئی نہیں جی سب کھاتے ہیں کون سا کچھ ہوتا ہے۔ فرنچ فرائز کسی بھی تیل سے بنے ہوں، تکہ کیسے بھی سکا ہو یا پھر نہاری کا گوشت کوئی بھی ہو، بس زبان کا ذائقہ پورا ہونا چاہیے۔

اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ جھانکتا پھرے کہ کس ہوٹل کہ کچن میں کتنے گندگی ہے، کون سا ڈھابے والا برتن دھورہا ہے یا نہیں۔ چوہے ناچتے پھررہے ہیں یا کاکروچ کھانے کا ذائقہ بڑھارہے ہیں اونٹ، گدھے یا کتے کا گوشت ہے۔ ہمیں تو ابھی باہر سے سات سو ارب روپے لانے ہیں، تاکہ ملک میں خوشحالی آسکے صحت کا کیا ہے۔ یہ کون سا ایسا بڑا ٹاپک ہے کہ جس پر ٹی وی پر بحث ہوسکے یا ہماری حکومتیں کچھ سوچیں۔ ویسے بھی یہ قوم اتنے دکھ اٹھا چکی ہے کہ کھانا صحت کے لیے مضر ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

گوشت گدھے کا ہے یا کتے کا لیکن اگر ننانوے روپے میں ایک پلیٹ نہاری روٹی کولڈ ڈرنک کے ساتھ ہے تو کیا مضائقہ ہے، اگر کسی برگر کے اندر کباب ذرا دو چار دن پرانا ہوگیا تو کون سی قیامت آپڑتی ہے۔ آخر قربانی کے گوشت کو بھی تو فریزر میں ٹھونس ٹھونس کر ہم اپنی عاقبت سنوارتے ہیں۔ جیسے برانڈڈ کپڑے فیشن اور ٹرینڈ میں رہتے ہیں اور اگر آپ ٹرینڈ کے ساتھ نہ چلیں تو پینڈو ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے مختلف ریسٹورنٹ بھی آپ کی کلاس اور ٹرینڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔

زمزمہ اسٹریٹ ہو محمد علی سوسائٹی ہو یا پھر سندھی مسلم یا ڈی ایچ اے کے کلب یا پھر کراچی کے اور پوش علاقے۔ اگر وہاں کا کوئی آرڈر آپ نہ چکھا ہو تو لوگ جاہل کا ٹیگ لگا دیتے ہیں۔ ان ریسٹورنٹ کے بل بھی اللہ اللہ مگر کیا کریں کلاس بھی تو کلاس ہوتی ہے کسی گرل کا اسٹیک بھلے کیسا ہی پھیکا ہو دو چار سبزیوں کے ساتھ ایک دو ذرا ششکے کی امپورٹڈ ساس کے ساتھ پیش کردیا۔ بل جی ہزاروں اور اب جی ایس ٹی نے جو کسر پوری کردی۔

تو شاید ایک وقت کا کھانے کا بل کم از کم بھی ایک بچے کی نارمل اسکول جتنی فیس بنے۔ اور ہاں اب نیا ٹرینڈ ایک اور آیا ہے وہ ہے امپورٹد فوڈ آئٹم کا۔ کسی بھی فوڈ چینل کو دیکھ لیں خوش اخلاق خاتون شیف جو بھی بنارہی ہوں گی اور بناتی کم دیکھنے والوں کو زیادہ بناتی ہیں۔ اس میں ایک دو مصالحہ جات ضرور ایسے ہوں گے جو گوگل بھی ڈھونڈ نہیں پاتا۔ تو معصوم شوہر کونسے بازار سے ڈھونڈ لاسکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم تو وہ قوم ہیں جو آلو پیاز سے لے کر سوئی دھاگہ تک امپورٹ کرتے ہیں۔

تو گوشت بھی امپورٹ کرنے میں کیا حرج ہے۔ کیونکہ امپورٹڈ گوشت کھاکر تو اس احساس کمتری کی ماری قوم کو یہ احساس ہوتا ہوگا کہ شاید کسی کینیڈا یا امریکی گوری کے ہاتھ کی پلی گائے یا بھینس کا گوشت ہوگا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس کی ایکسپائری بھی ختم ہوگئی ہوگی ( چاہے گائے ہو یا گوری) ۔ ہمارا جذبہ ایمانی بھی دور کہیں کسی کونے میں ان امپورٹڈ کھانوں کی مہک میں گم ہوجاتا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ باہر سے ذبیح ہوکر آیا تھا یا نہیں۔

ہماری نیت تو صاف ہے کھاتے وقت۔ حلال ہو یا حرام بس کسی بھی بڑے ریسٹورنٹ سے کھاکر ذرا یا ر دوستوں پر سوشل میڈیا پر رعب بھی تو ڈالنا ہوتا ہے۔ مشہور زمانہ ریستوران کے کھانے کے بعد جو دو معصوم بچے اپنی جان سے گئے۔ تو میں صرف یہ سوچ کر رہ گئی کہ کیا اس ریسٹورنٹ کے مالکان انتظامیہ یہ سڑا ہوا گوشت اپنے بچوں کو کھلا کر موت کہ منہ میں بھیج سکتے ہیں؟ کیا سندھ فوڈ اتھارٹی اپنی کمی اور کوتاہیوں کو صرف ریسٹورنٹ کے گودام کے چھاپے تک محدود رکھے گی؟

کراچی کے پوش علاقوں میں واقع یہ ریسٹورنٹ حفظان صحت کے کتنے اصول پورے کررہے ہیں؟ کوئی ان سے سوال پوچھ سکتا ہے کیا؟ کیا اس صوبے کی انتظامیہ کوئی امپورٹڈ بندوبست کرے گی؟ کیا ان دو ننھی جانوں کے بارے میں ہمارے وزیراعظم کچھ کہہ سکتے ہیں؟ کیا چیف جسٹس اس امپورٹڈ آئٹمز والے کھانوں کے اوپر کوئی ایکشن لے سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ میرے ان سوالوں کے جواب ابھی تک نفی میں ہوں گے۔ لیکن میری آنکھیں یہ سوچ کر نم ہوگئیں ہیں۔ کہ اے کاش جو قوم ہر چیز باہر سے امپورٹ کرتی ہے وہ کاش دو معصوم زندگیاں بھی امپورٹ کرسکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).