فوکویاما کی نئی کتاب اور تاریخ کے نئے دور کے آغازکی پیشن گوئی


آج سے تقریبآ 25 برس پیشتر فوکو یاما نے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف” تاریخ کا خاتمہ” تحریر کی تھی جس نے راتوں رات نوجوان فوکو یاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔اس کے بعد فوکو یاما اور بھی کتابیں تحریر کرتا رہا لیکن جو کامیابی اس کتاب کے حصے میں آئی وہ اپنی مثا ل آپ تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ تھا کہ اب دنیا سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرف مسلسل بڑھے چلے جارہی ہے اور 90 کی دہائی کے ابتدائی واقعات(کمیوننزم کا خاتمہ، سوویت یونین کی شکست وریخت اور دیوار برلن کا انہدام وغیرہ) کی روشنی میں فوکو یاما نے بڑی کامیابی اور خوداعتمادی کے ساتھ دنیا کو یقین دلایا تھا کہ اب دنیا میں تاریخ کا خاتمہ ہورہا ہے کیونکہ نہ تو اب بڑے نظریات دوبارہ ظہور پزیر ہوسکتے ہیں اور نہ کوئی اور متبادل نظام ہی بروئے کار لایا جاسکتا ہے کیونکہ بقول فوکویاما اب ایک طرح سے سرمایہ دارانہ جمہوریت پر دنیا کا اجماع ہوتا نظرآرہاہے۔

اسی دوران فوکو یاما کے استاد سیموئل ہنٹنگٹن نے “تہذیبوں کے تصادم” اور نئے عالمی نظام کی بات شروع کی جو ایک طرح سے فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے کے نظریے کا اینٹی تھیسز تھا ۔ اور ظاہر ہے استاد پھر استاد ہوتا ہے تو ہنٹنگٹن نے اس میں بہت سارے تاریخی حوالوں سے دکھایا کہ دنیا اتنی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے کہ ممکن ہے بعض زیادہ سادہ انداز کے حامل تجزیے اور معروضات اس کی مکمل وضاحت نہ کرسکیں کیونکہ مستقبل بہرحال غیر یقینی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہنٹنگٹن نے مختلف تہذیبی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی دکھایا کہ ممکن ہے بعض ممالک مغرب کی جمہوری اقدار اپنے سیاسی نظاموں میں سمو لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو قومی اور تہذیبی تشخص اور علاقائی اور مذہبی وثقافتی شناختوں کے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں وہ کسی بڑے تصادم کو بھی جنم دے سکتے ہیں کیونکہ انسان اتنی آسانی سے اپنی تہذیبی اقدار کو نہیں چھوڑ دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہنٹگٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ دنیا کی تمام قومیں جدید اور ترقی یافتہ تو بننا چاہتی ہیں لیکن وہ ضروری نہیں کہ مکمل مغربی بالادستی کو آسانی سے قبول کرلیں اور اپنی ثقافت، تہذیب، زبان اور دوسرے ایسے مظاہر کو بھی اسی رنگ میں رنگ لیں۔ اس میں جن تہذیبوں کا بالخصوص ہنٹنگٹن نے تذکرہ کیا وہ تھیں چینی/جاپانی تہذیب، ہندوستانی تہذیب، ،افریقی اور لاطینی اقوام اور مسلم تہذیب۔

اسی دوران 9/11 کے واقعات نے سیموئل ہنٹگنٹن کے نظریات کی ایک طرح سے جزوی تصدیق کرنی شروع کردی لیکن فوکو یاما بھی ظاہر ہے ہا ر ماننے والا نہیں تھا او راس نے اس دوران القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند مسلمان گروہوں کو نئے دور کے فاشسٹ قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک اقلیتی گروہ ہیں جو جلد ہی انجام کو پہنچیں گے اور دوسری طرف جب دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھنا شروع ہوا اور ایسے متبادل نظاموں کی بات ہونے لگی جو سماجی ومعاشی مساوات پر مبنی ہوں تو فوکو یاما نے ان امکانات کو بھی یہ کہ کر مسترد کردیا کہ دنیا کے پاس سوائے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اور کوئی معقول متبادل نہیں ہے (فوکو یاما اور سرمایہ دارانہ نظام کے دانشوروں کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت کے کسی متبادل کا سوچنا بھی گناہ تھا چہ جائیکہ کوئی مساوات پر مبنی کسی نئے سماجی نظام کے خدوخال دکھانے کی کوشش کرے۔اسے ہی انگریزی میں کہتے ہیں Nipping in the bud یعنی متبادل کے کسی خیال اور تصور کو پالنے میں ہی ختم کردو تاکہ بعد میں وہ مسئلہ نہ بنے)

یہی سبق 20 ,25 سال فوکویاما اور سرمایہ دارانہ نظام کے پروردہ دوسرے دانشور دنیا کو پڑھاتے رہے اور بالآخر پہلے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں اور پھر 2007 کے عالمی معاشی بحران نے اس نظریے اور تصور کو خاصی زک پہنچائی لیکن سہل رجائیت پسندی اتنی آسانی سے تھوڑی جاتی ہے اسی لیے پھر بھی کچھ عرصہ تک یہ امید پرست اس آس پر دنیا کو یہ باور کراتے رہے کہ یہ عبوری دور کے بحران ہیں آخری فتح بہرحال اہل ایمان کے ہی حصے میں آئے گی۔ لیکن کیا کریں تاریخ کے پہیئے کا جو اپنی مرضی سے ہی رواں دواں رہتا ہے اور بہت سوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ تو بالآخر اس نظام پر کاری ضربیں لگنا شروع ہوگئیں جب خود مغرب کے اندر نہ صرف جمہوریت بلکہ خود سرمایہ دارنہ نظام اور مارکیٹ اکانومی سے لوگوں کا اعتماد اٹھنے لگا کیونکہ معاشروں میں بڑھتے عدم تفاوت، دولت کےچند ہاتھوں میں ارتکاز اور جمہوری اداروں پر سرمایہ داروں کے تسلط نے بہت سارے سنجیدہ لوگوں کو بھی متفکر کردیا(پچھلے چند سالوں میں اس موضوع پر جتنی کتابیں آئی ہیں ان کی فہرست سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ معاملہ کتنا سنگین ہے) معاملات کا ادراک ہوتے ہی ہمارے ذہین عوامی دانشور نے آخرکار اس بات کا اعتراف پہلے 2010 میں اور پھر 2013 میں اپنے مضامین میں کرہی دیا کہ مخصوص لابیوں اور مفاد پرست گروہوں نے حکومتی نظام کو اپنے اپنے مفادات کے طابع کر لیا ہے اور عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ ان کی نمائندہ جمہوی حکومتیں ان کے مفادات کی مظہر نہیں رہیں بلکہ وہ ایک مخصوص اشرافیہ کے مفادات کی نمائندہ بنتی جارہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم مظہر جو پچھلے ایک دو عشروں سے آہستہ آہستہ مختلف معاشروں میں نمودار ہورہاتھا وہ تھا مختلف قومیتوں کے شناخت کے ابھرتے مسائل، جو کافی عرصہ دبے رہنے کے بعد دوبارہ اتنے نمایاں ہوگئے کہ خود امریکہ، یورپ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ایک بار پھر قوم پرستی اور قومی وعلاقائی شناختوں سے جڑے معاملات ملکی و بین الاقوامی سیاست پر اثرانداز ہونے لگے. یورپ کے مختلف ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں دوبارہ مقبول ہونے لگیں اور پھر رہی سہی کسر برطانیہ کے اندر یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے ہونے والے ریفرینڈم نے پوری کردی جسے دنیا اب بریگزٹ کے نام سے جانتی ہے۔اور اس سارے تصور اور نظام پر آخری کاری ضرب خود امریکہ میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدارت پر متمکن ہوجانا تھا جس نے اس تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔

یہی وہ معاملات تھے جن کی طرف ہنٹنگٹن نے ہی 2004 میں شناخت کے مسئلے پر اپنی کتاب “ہم کون ہیں”میں نشاندہی کی تھی اور بالخصوص امریکی معاشرے میں اس کی اہمیت اور امریکہ کے اندر بسنے والی مختلف قومیتوں کی شناخت کے حوالے سے ایک سیر حاصل بحث کی تھی اور بتایا تھا کہ مجرد سیاسی نظریات لوگوں کو ایک دوسرے سے جڑے رکھنے یا ان کی جذباتی اور نفسیاتی تسکین کے لیے کافی نہیں ہوتے جب تک کہ اس میں لوگوں کی ثقافتی اور تہذیبی اقدار شامل نہ ہوں جن سے لوگ جذباتی ونفسیاتی وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ پھر مشہور فلاسفر اور معیشت دان امرتا سن نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا اور “شناخت اور تشدد” کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جسمیں شناخت اور تشدد کے باہمی تعلق کا ایک علمی تجزیہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت تک شناخت اور اس سے جڑے دوسرے مسائل فوکویاما اور دوسرے دانشوروں کی نظرمیں شاید ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔

لیکن اب پچھلےدو تین سالوں میں ہونے والے پے درپے واقعات نے فوکویاما کو بھی ان معاملات کی طرف توجہ دینے پر مجبور کردیا ہے اور ہمارے اس عظیم دانشور نے شناخت کے مسئلے پر قلم اٹھایا ہے اور ایک کتاب بعنوان: Identity: The demand for dignity and politics of resentmentلکھی ہے جو پچھلے ماہ ہی امریکہ سے شائع ہوئی ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن مسائل کو فوکویاما آج سےبیس، پچیس سال پیشتر وقتی سمجھ کر نظرانداز کرتا چلاآیاتھا وہ اب ایک حقیقت بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ حیرت انگیز طور پر ساری زندگی مارکس اور مارکسی نقطہ نظر کے نقاد کے طور پر جانے والے دانشور نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کی بعض صورتوں کے حوالے سے مارکس کا نقطہ نظر صحیح ثابت ہورہا ہے جیسے زائد پیداوار کے مسائل وغیرہ۔

اس حوالے سے ایسکوائر میگزین میں فوکو یاما پر حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون نما انٹرویو میں ویسلے ینگ نے فوکویاما اور اس کی نئی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہمارا یہ عظیم دانشور اب اس ساری صورت حال پہ واقعی متفکر ہے اور اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ دنیا جمہوریت اور کھلے پن کی طرف نہیں بڑھ رہی جس کاکہ فوکویاما اپنے عہد شباب میں دنیا کو اور اپنے آپ کو یقین دلاتا رہاتھا بلکہ جمہوری اقدار اور کھلی منڈی کی معیشت پر مبنی سرما یہ دارانہ نظام ایک خطرے سے دوچار ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ ایک عبوری دور ہے یا ایک نئے بحران کی طرف پیش قدمی؟ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ تاریخ کا خاتمہ ہے یا ایک نئے تاریخی دور کا آغاز، جسے فوکویاما نےدو عشرے پیشتر بڑی آسانی سے رد کردیا تھا۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).