”پانی مر رہا ہے“ ایک تجرباتی ناول


ایک مدت تک ( اورایک اب بھی کبھی کبھار ) میں اپنی غزلیں، کہیں چھپوانے سے پہلے محمد سلیم الرحمٰن کو دکھاتا رہا ہوں کہ ان کے ذوقِ شعری کا میں قائل تھا اور ہوں۔ برسوں پہلے ایک دن میری تازہ غزلوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کہنے لگے : ”ساجد! اب مثنوی لکھو کہ غزل کہنا تم پر آسان ہو گیا ہے۔ “ میں مثنوی تو نہیں لکھ پایا، تاہم تب میں نے سلسلہ وار غزلوں کاکام آغاز کیا اور مجھے لگا کہ میں اب صنفِ غزل کے امکانات کو بہتر طور پہ برت رہا ہوں۔

اس جملۂ معترضہ کی ضرورت یوں آن پڑی کہ ایسی صورتیں نثر نگاروں کے یہاں بھی موجود ہیں۔ بعض اوقات دمِ آخر تک لکھنے والے پر یہ رمز نہیں کھلتی کہ اس کے کمال کا اصل جوہر کھلتا ہے تو کہاں؟ آمنہ مفتی ان چند معدودے لکھنے والوں میں سے ہیں جو اپنے جوہر سے بھی آگاہ ہیں اور اس کے دمکنے کے علاقے سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صرف چھبیس برس کی عمر میں لکھا جانے والا ان کا ناول، ”جرأتِ رندانہ“ صرف ایک تخلیقی قدم نہیں ہے، کئی نسلوں کی جدلیاتی نفسیات اور فکری مجادلے کا مونتاج بھی ہے۔

خیر! میں پہلے ہی دو الگ الگ شذروں میں ان کے پہلے دو ناولوں، ”جرأتِ رندانہ“ اور ”آخری زمانہ“ پر رائے دے چکا ہوں اور ان کی زبان، کردار نگاری اور تاریخی حقیقتوں اور سماجی تفاعل پر گہری نظر کی داد دے چکا ہوں، جسے دہرانا لاحاصل ہو گا۔ اس موقع پر چند باتیں ان کے نئے ناول، ”پانی مر رہا ہے“ کہ حوالے سے کروں گا۔

اردو میں ناول کی تاریخ اب ڈیڑھ سو برس کی عمر کو چھو رہی ہے۔ اس دوران میں سماجی، اصلاحی، تاریخی، حقیقی، علامتی، تجریدی اور جدلیاتی مطالعے پہ مبنی کئی اچھے ناول لکھے گئے۔ جن میں ”امراؤجان ادا“، ”آگ کا دریا“ ”آفت کا ٹکڑا“، ”اداس نسلیں“، ”گرگِ شب“، ”دشتِ سوس“، ”کانی نکاح“، ”فائر ایریا“، ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“، ”پڑاؤ“، ”ٹبا“، موضوع کے لحاظ سے بھی اہم ہیں اور تجربے کی نوعیت کے لحاظ سے بھی۔

” پانی مر رہا ہے“ بھی ”تجربیت“ کے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس کا باطن بقول، محمد حنیف : ”مرتے دریاؤں کا عکس اور قیامت کی نشانیاں لئے ہے اور زہر اور شہد کے ذائقے سے مملو یہ ناول، ماحول، انسانوں اور چرند پرند کو ایک نئے زاوئے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ “

میں نے ”آخری زمانہ“ پر اپنی مختصر تحریر میں کہا تھا کہ ہر خالق کی طرح ادیب بھی اپنی مخلوق کی حیات و موت سے اعتناء رکھتا ہے۔ بشرطیکہ، بقول ”خان فضل الرحمٰن خان“ کردار باغی ہو کر اس دنیا سے نہ سرک جائیں۔ آمنہ مفتی بھی اپنے کرداروں کی زندگی اور موت پہ اختیار رکھنے کی قائل ہیں۔ ”جرأتِ رندانہ“، ”آخری زمانہ“، اور اب پانی مر رہا ہے میں انہوں نے اپنے اس اختیار کو پوری طاقت سے آزمایا ہے۔ اس لئے ان تینوں ناولوں میں کرداروں کے معدوم ہونے، منظر نامے کے تحلیل اور دستِ فنا کے حرکت میں آنے کی رفتار خاصی تیز ہے۔ بہت روشن اور دل نشیں منظر وں اور کیفیتوں کے مابین کہیں شو کی تیسری آنکھ کھلتی ہے اور موجود کی صباحت جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں اور کس لئے اور آمنہ مفتی کو قیامتوں کے برپا کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں نے فکشن کو بہت دل جمعی سے پڑھا ہے مگر یہ ضرور ہے کہ میں نے بہت سا رطب و یابس کھنگالا ضرور ہے اور ان میں معروف یا غیر معروف دونوں طرح کے لکھنے والے شامل ہیں۔ ان میں قاری کو جکڑ لینے والے اور اچٹانے والے کئی طرح کے فکشن نگاروں سے واسطہ پڑا مگر کم کم ہی ایسے ملے، جنہوں نے حقیقت اور فنتاسی کے متناسب ادغام سے کسی کتھا کو بنا ہو۔ کچھ نام جیسے ہرمن ہیسے، اتالو کلوینو، میلان کنڈیرا، وجے دان دتھا، پائیلو کوئیلو تو سامنے کے ہیں مگر پیٹرک سکنسڈ، اساماعیل کاردارے اور ولاس سارنگ بھی کسی سے کم نہیں اور ان کا شمار میں ان لوگوں میں کرتا ہوں جو طلسماتی اور الف لیلوی روایت کے داعی ہیں۔ ”پانی مر رہا ہے“ لکھنے کے بعد میں آمنہ مفتی کو بھی ان کی صف میں کھڑا دیکھتا ہوں۔

” گماں کا ممکن“ ن۔ م۔ راشد کی کتاب کا نام ہے مگر میں اسے ایک خاص فکری روایت کی علامت مانتا ہوں۔ اشیاء کے تناسب میں بگاڑ سے کئی طرح کے نتائج کا ظاہر ہونا ممکن ہے جو ہماری سمجھ میں آ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ یہی صورت خیر اور شر کے تناسب کے بگڑنے کی ہے۔ جن کا توازن موجود کے اعتدال کی بنیاد ہے۔ ان کا بگاڑ تخلیق کے عمل کو ہی بدل کر رکھ سکتا ہے۔ جیسے ”پانی مر رہا ہے“ میں کردار وں کے ظاہر بھی بدلتے ہیں اور باطن بھی۔ انسان صرف ایب نارمل ہی نہیں ہوتے، میوٹیٹس بن جاتے ہیں اور موجود کی معلوم حقیقتوں کو بے چہرہ کر کے ناقابلِ شناخت بنا دیتے ہیں۔

ہمارے مرتے دریاؤں کی کہانی کئی لوگوں نے لکھی ہے۔ ہندو مائتھالوجی میں سرسوتی کا سطح سے معدوم ہونا، ہاکڑا کا سوکھ جانا تو سری روایتیں بھی ہیں اور تاریخی صداقت بھی۔ خود ہم نے ستلج، بیاس اور راوی کے دو آبوں کو اپنے ہاتھوں دائمی پیاس کا تحفہ دیا ہے اور ہمارے لکھنے والوں میں مستنصر حسین تارڑ نے ”بہاؤ“ میں ہاکڑا، اس ناچیز نے اپنے شعری مجموعے ”، سرسوتی تو راوی تائیں“، میں سرسوتی اور راوی اور خالد فتح محمد نے، ”کوہِ گراں“ میں راوی اور اب آمنہ مفتی نے ”پانی مررہا ہے“ میں ستلج کنارے کی رہتل کو موضوع بنایا ہے مگر ایک الگ ہی ڈھنگ اور انداز سے کہ معمول کی زندگی ایک الگ ہی ڈھنگ پر چلنے لگتی ہے اور وقت کی طنابیں اکھڑ کر عدم کی تاریکی میں جا گڑتی ہیں۔

کہانی اسرار کے گاؤں آنے سے آغاز ہوتی ہے، جو میاں اللہ یار کا بیٹا ہے، جس کے چھے سوتیلے بھائی اور ہیں اور جسے اس کی بھابھی شاماں نے پالا ہے۔ گھر آتے ہی اسے سانپ ڈس لیتا ہے، ڈسٹرکٹ ہسپتال سے مایوس ہونے کے بعد اسے بھوریوں والے کلوں میں جوگی کی کٹیا میں لایا جاتا ہے، جہاں بہت پہلے میاں اللہ یار کے گھایل ہونے پہ اس کا علاج کیا گیا تھا ور جہاں اس کی شناخت کو جھٹلایا گیا تھا۔ اس علاقے میں کئی محیرالعقول واقعات پیش آ ئے۔

اسرار کے لئے مخصوص بکری کا میمنوں سمیت بھوریوں میں چھوڑ دیا جانا اور ان بکروٹوں کا انسانی خون سے پیاس بجھانا۔ اسرار کی ماں فضل بی بی کی پراسرار ہلاکت، زمین کا پھٹنا اور اس میں الیل من، بلیل من اور غفورے اور تین جوانوں کی لاشوں کا سما جانا، جوگی کا بھیدوں بھرا وجود اور سبھاؤ اور ان کے غیاب میں ایک اور داستان کا درو بست۔ سید عرفان احمد، شاہدہ اور مدھو متی عرف زینب بترا کی دنیا۔ ایک نئی مملکت میں کالونیل فضا اور تہذیب کی جھلک لئے۔

اختیار، حسن اور تہذیبی جمال کا استعارہ اور پھر اس فردوس زمیں کے ظاہر اور باطن پہ فصلِ قیامت کا قائم ہونا۔ کرداروں کی کایا کلپ ہی پر بس نہیں کرتا۔ حسن، آسائش، زندگی، روئیدگی اور تہذیبی آثار کو بھی نگل جاتا ہے۔ جس کے اثرات گاؤں، شہر، ملک، بلکہ عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں اور نسلِ انسانی، ”جل پایوں میں ڈھلنے لگتی ہے۔

عرفان صاحب کی اس مٹی سے کیا نسبت ہے؟ ان کی اسرار اور اللہ یار سے کیا یگانگت ہے؟ بھوریوں والی زمین کا بھید کیا ہے اور پانی کے مرنے سے ان کرداروں کو کیا علاقہ ہے؟ اس کی وضاحت کی، نہ یہاں ضرورت ہے نہ مناسبت کہ ان کی سمجھ شاید ناول کو کئی بار پڑھنے کے بعد بھی نہ آ پائے اور وہ اس لئے کہ کتھا اور بیانیے کی سطح پر آمنہ مفتی نے اس ناول کو بڑی حد تک سر رئیلسٹک رکھا ہے۔ آج کل میجک رئیل ازم یا جادوئی حقیقت نگاری کا بڑا شہرہ ہے اور گابریل گارشیا مارکیز، اتاکلوینواور اورحان پامک اس حوالے سے بدنام ہونے کی حد تک معروف ہیں مگر آمنہ مفتی کے میوٹیٹس طلسمی حقیقتیں نہیں، ماورائے حقیقت وجود ہیں اور ان کا ہونا ایک خاص طرح کے فکری استدلال کی بنیاد پر ہے۔

کچھ ضروری نہیں کہ ہم آمنہ کے اس استدلال کو تسلیم کریں اور دریا کے سوکھنے یا ایک دریا کے اثاثے سے دوسرے دریا کے وجود کو برقرار رکھنے کے ڈھنگ سے اس کے اختلاف کو بڑھاوا دیں مگر یہ حقیقت تسلیم کرت ہی بنتی ہے کہ اس قدر ناقابلِ تسلیم کہانی بن کر بھی اس نے اپنے تخلیقی کمال سے اسے اس قدر مانوس بنا دیا ہے کہ ہم اسے ایک خوش اد اروانی میں پڑھے جاتے ہیں اور ایک گل رنگ تہذیبی سلسلے کے معدوم ہونے پر آزردہ بھی ہوتے ہیں۔

ہم ایک نو زائیدہ مملکت کے باسی ہیں اور پہلے ہی دن سے روبہ زوال ہیں۔ ستر برس ہونے کو آئے ہیں، ہمارے زوال کے دن پورے ہونے کو آ رہے ہیں نپ اس کے اسراع میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آمنہ مفتی کا موضوع ”جرأتِ رندانہ“ اور ”آخری زمانہ“ میں بھی یہ ہی زوال تھا اور ”پانی مر رہا ہے“ میں بھی۔ میں نے اپنے بارے میں کہا تھا، ”میں مٹتی ہو ئی تہذیب کا نوحہ گر ہوں“۔ گریہ کی یہ ہی کیفیت آمنہ کے ناولوں کا موضوع بھی ہے اور میرے مقابلے میں اس کی شدت کہیں زیادہ ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے میرے مقابلے میں بڑے کینوس کا انتخاب کیا ہے اور وہ اس لئے کہ ناول لکھنا اس کے لئے آسان ہے۔ میں بے جھجھک دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ نثر لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے مگر سب کے لئے نہیں۔ کبھی کبھی یہ امر ایک آسان کوش آسائش بھی بن جاتا ہے اور تحریر ایک فطری آسانی کے ساتھ ایک مرتب اظہاریے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ اس میں معنویت، گیرائی اور کشادگی کی ایک فطری صلاحیت ہوتی ہے ور وہ کسی منقش منظر کی طرح کھلتی اور وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔

اس کے لئے قرۃ العین حیدر، جمیلہ ہاشمی، مستنصر حسین تارڑ اور شمس الرحمٰن فاروقی کی مثال دوں گا اور آمنہ مفتی کی۔ آمنہ کی نثر میں دائرہ در دائرہ پھیلنے کی صلاحیت ہے جیسے جھیل کے سکوت کو لہروں میں بدلتی ہوا کا ہاتھ ایک پر لطف آ سائش سے مرکز کو محیط میں بدل دیتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ آمنہ کو اس ذخار سمندر کو سمیٹنے کا ہنر بھی آتا ہے، یعنی وہ دوربین کو دونوں سروں سے دیکھنے پہ قادر ہے۔

آمنہ کے کردار بے راہ رو نہیں ہونے پاتے کیونکہ آمنہ انہیں نکیل ڈالے رکھتی ہے۔ کاش وہ انہیں ذرا سا آزاد چھوڑ سکتی۔ مجھے یہ ناول پڑھتے ہوئے کئی بار کرداروں کے مقدر پہ رونا آ یا۔ میں مانتا ہوں آمنہ نے ناول کے پلاٹ کو چست رکھا ہے اور کڑی سے کڑی ملائی اور ساری کتھا کو ایک مکڑی کے جالے کی طرح بڑی توجہ سے بنا ہے مگر اس طرح بہت سے کردار ناوقت مارے گئے ہیں اور وقت یا مصنفہ کے ہاتھوں برپا ہونے والی قیامت نے کئی ممکنہ بشارتوں کو نگل لیاہے۔ اس سے قصے کے ارتقاء اور نمود میں تو سرعت پیدا ہوئی ہے لیکن یہ تأثر بھی مرتب ہوتا ہے کہ جیسے مصنفہ کسی جلدی میں ہیں اور چاک سے بنی شباہتوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔

خیر میں تنقید کی آزادی کا داعی ضرور ہوں، نقاد کی خدائی کا نہیں۔ اپنے ناول کے دروبست اور اس کے پھیلاؤ کی حدود طے کرنا آمنہ کا حق تھا اور ہے اور اس حلقے میں اس نے اپنے اس حق کا خاطر خواہ استعمال کیا ہے۔ کرداروں کی فعالیت، ان کی حیات و ممات تک ہی نہیں، ان کی ہیئت اور ہونے نہ ہونے کی آسانی میں بھی۔ اسی تناظر میں بھوریوں والی زمین ایک استعارہ بن جاتی ہے۔ انسانی عمل کے محدود اور پابہ گل ہونے کا ستعارہ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی سب سے بڑی سچائی ہے۔

” پانی مر رہا ہے“ دو انتہاؤں کے ایک دوسرے سے الگ ہونے اور ایک دوسرے میں دھنس جانے کی کہانی ہے۔ ایک طرف دیہات کی ان گھڑ اور اپنی کرختگی پہ اصرار کرتی حیات ہے تو دوسری طرف شائستگی، اجلاہٹ اور موزارٹ کی پر کیف سمفنی میں ڈھلی، نرم اور خوش ادا زندگی اور ان دونوں کے مابین ہے، بھوریوں والی اسرار عجوبے ور حیرت سے بھری زمین جو دونوں انتہاؤں کو نگل جانے پر قادر ہے اور ہر نوع کی خلاف واقعہ واردات کی پناہ گاہ۔ جس کی پیاس مذکورہ تہذیبی انتہاؤں کے لہو سے بجھتی ہے اور جس کا پانی بالآخر ان دونوں کی معدومیت کا باعث بنتا ہے مگر اس سے پہلے یہ پانی دونوں کی بنیادوں میں بھرتا ہے اور دیواروں سے رستا ہے۔

شہر کی کھنڈر ہوتی کوٹھیاں ہوں اور ان میں پھیلے خود رو جنگل کے خوش گفتار مگر نامانوس پرندے یا بھوریوں والی زمین کی بڈھیں اور ان میں تیرتی جل پریاں، ڈیرے کی کھولیاں اور ان میں مخفی خزائن پہ پہرے دار سانپ، بھوریوں کے جھنڈ میں سانس لیتی دنیا اور ان میں زندگی کی سریت سے آگاہ بے چہرہ۔ سب مانوس و نامانوس، شناسا اور عجیب موجودات، آمنہ مفتی کے زرخیز تخیل کی دین ہیں اور آمنہ نے ان کے مابین ایک عجیب طرح کی نسبت پیدا کی ہے جو ان کے ذہن کے خلاق ہونے کا ثبوت ہے اور اس بات کا بھی کہ وہ موجود کی صداقت کو کتنے زاویوں سے دیکھ اور بیان کر سکتی ہیں اور ان کے تخیل کی رفعت کی جہت اور انتہا کیا ہے؟

” پانی مر رہا ہے“ کا مرکزی نکتہ دریاؤں کو ان کی اصل حالت میں لوٹانا ہے۔ وہ دریاؤں کے پانی کی ہی تقسیم ہی نہیں، اس کی فطری روانی پہ بند باندھنے کو بھی غلط جانتی ہیں، ذرا دیکھئے صفحہ کی یہ سطریں :

” بھلا دو بڑے ملکوں کے باشندوں کو بلکہ پوری دنیا کو یہ کیسے باور کرایا جا سکتا ہے کہ دریاؤں کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ وہ کر چکے ہیں، وہ بہت خطرناک ہے اور اس سے بچت کا صرف ایک طریقہ ہے، رول بیک، دریاؤں کو ان کی اصل شکل میں لے جا کے پیچھے ہٹ جاؤ۔ اپنی آبادیاں، جو ان کی گزرگاہوں اور بستیوں میں بنا لی تھیں، ہٹا دو۔ ان کے راستے سے ایسے ہٹ جاؤ، جیسے ایک بڑی طاقت کے راستے سے چھوٹی طاقتیں ہٹ جاتی ہیں۔ جھک جاؤ، دریاؤں کے آگے جھک جاؤ، تب تو شاید اس تباہی سے بچ جاؤ، جو لازمی آنے والی ہے۔ ورنہ بس ایک کہانی ہو گی۔ ریت کی تہوں میں دفن آبادیاں نکلیں گی اور آنے والی نسلیں حیران ہوں گی کہ یہ لوگ جن کا نہ اب نام رہا نہ نشان، کیا شان دار لوگ تھے اور انہوں نے کیا عالی شان شہر بسائے تھے۔ ”

آمنہ مفتی کا یہ ناول اسی نکتے یا خیال کی تائید میں ہے۔ یہ مستنصر حسین تارڑ کے بہاؤ سے مختلف ہے کہ وہاں پانی کی موت ایک تہذیب کی موت ہے اور خالد فتح محمد کے کوہِ گراں سے اس طرح مختلف کہ وہاں دریا کی بحالی نسلِ آدم کی امین۔ جب کہ اس ناچیز کی کتاب ہٹی کی پانی اور پانی کی مٹی سے نسبت اور یگانگت کا استعارہ ہے مگر آمنہ کے یہاں دریا ایک ذی روح بن کر سامنے آتا ہے اور اس کی تشنگی ایک بے قابو عفریت کے قالب میں ڈھلتی محسوس ہوتی ہے۔

” پانی مر رہا ہے“ کوئی بڑا ناول نہیں مگر یہ ایک مختلف ناول ضرور ہے۔ اس میں آمنہ کے پہلے ناولوں میں کوئی قدرِ مشترک ہے تو وہ لاہور اور ستلج سے جڑی آبادیاں ہیں اور ان دونوں علاقوں کی تہذیبی ندرت۔ وگرنہ اس ناول میں آمنہ نے اپنے پسندیدہ ماحول سے مہاجرت کی ہے اور موضوع سے بھی ور سب سے بڑھ کر اپنی تخلیقی اپج کے ابعاد سے۔ اس سے میرا اشارہ اس ناول میں تخیل اور حقیقت کے ادغام سے ہے، جسے میں نے ن۔ م راشد کے حوالے سے ”گماں کا ممکن“ کہا تھا اور جہاں تک میرا گمان ہے، ”پانی مر رہا ہے“ اس ادغام کے حوالے سے اردو میں اپنی نوع کی پہلی کوشش ہے۔

تو یوں کہیے کہ ”پانی مر رہا ہے“ ایک تجرباتی ناول ہے۔ بہت پہلے انور سجاد نے ”خوشیوں کا باغ“ لکھا تھا اس تجربے کی خرابی یہ تھی کہ اس کی تجریدیت ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ ”پانی مر رہا ہے“ کی خوبی یہ ہے کہ ناول کے مرکزی نکتے یا فلسفے سے اتفاقکیے بغیر بھی اس کی تفہیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ابلاغ میں کوئی رکاوٹ در نہیں آتی۔

بذاتِ خود میں اس ناول کے مرکزی خیال سے متفق نہیں مگر میں اس کی زبان، پلاٹ، تخیل کی ندرت، تخلیقی اپج اور کتھا کہنے کی فراست کا والہ و شیدا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آمنہ مفتی اپنے اگلے ناول میں اس تخلیقی سطح کو اور بلندی پر لے جائیں گی۔
( اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان ( لاہور ) میں منعقدہ ”پانی مر رہا ہے“ کی تقریبِ رونمائی پہ پڑھا گیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).