برطانیہ: کابینہ نے مجوزہ بریگزٹ معاہدے کی حمایت کر دی


Theresa May

PA

وزیراعظم ٹریسا مے کا کہنا ہے کہ ان کی کابینہ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزٹ کے حوالے سے ایک مجوزہ معاہدے کی حمایت کر دی ہے۔

وزیراعظم نے یہ اعلان پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے ایک کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے عمل کے سلسلے میں یہ ایک فیصلہ کن قدم ہے اور آئندہ چند روز میں معاہدہ حمتی طور پر طے کر لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جبل الطارق: دو تہذیبوں کے درمیان پھنسی ہوئی چٹان

’ٹریزا مے نے برطانوی آئین کو خود کش جیکٹ پہنا دی‘

’بریگزٹ کےبعد یورپی یونین ورکرز کو اولیت نہیں ملے گی‘

بریگزٹ: برطانیہ، یورپی اتحاد کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام

ادھر یورپی یونین کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔

تاہم بریگزٹ کے ایک اہم ترین حامی جیکب ریس موگ کا کہنا ہے کہ موجودہ شکل میں معاہدہ نقصان دہ ہے۔

585 صفحات پر مبنی یہ مجوزہ معاہدہ شائع کر دیا گیا ہے اور اس کا مختصر ورژن بھی جاری کیا گیا ہے۔ اس میں برطانیہ اور یورپی یونین کے مستقبل کے روابط کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔

یورپی پارلیمنٹ میں بریگزٹ کے حوالے رہنما گاے ورہوفسٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ بریگزٹ کو ممکن بنائے گا، برطانیہ اور یورپ یونین کے قریبی رشتے کو قائم رکھے گا، شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے گا اور آئرلینڈ کے لیے ایک سخت تر سرحد نہیں ہونے دے گا۔

اس معاہدے پر تنقید آئرلینڈ کے باڈر کے حوالے سے کی گئی ہے۔

معاہدے میں کیا ہے؟

اس مجوزہ معاہدے میں ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں عام طور پر ’طلاق‘ کے معاملات کہا جا رہا تھا۔ اس میں اس بات کا عزم کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم یورپی شہریوں اور یورپ میں رہنے والے برطانوی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

اس میں مارچ 2019 میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد 19 ماہ کا ایک منتقلی دورانیہ بھی رکھا گیا ہے اور مالی حوالے سے برطانیہ کی جانب سے 39 ارب پاؤنڈ کی افائیگی بھی رکھی گئی ہے۔

مذاکرات کا سب سے متنازع حصہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ نہیں ہوتا تواس بات کی ضمانت دی جائے کہ برطانیہ اور آئرلینڈ کی سرحد پر لوگوں کی آمد و رفت کے لیے چیک پوسٹیں نہیں بنائی جائیں گی۔

دونوں قریقوں نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ ضمانت نہیں مگر اس سلسلے میں متبادل نظام بنایا جائے گا۔

یورپی یونین کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن مائیکل بارنیئیر کا کہنا تھا کہ اگر جولائی 2020 تک ایسا ممکن نہ ہو سکا تو منتقلی دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے اور اگر پھر بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوتا تو ضمانتی اقدامات لاگو ہو جائیں گے۔

ان اقدامات میں برطانیہ اور یورپی یونین کو ایک مشترکہ کسٹمز علاقے مانا جائے گا تاکہ سرحد پر چیک پوسٹوں کی ضوروت نہ پڑے۔

ادھر ٹوری پارٹی کے رکن اراکینِ پارلیمنٹ اس بات پر ناراض ہیں کہ ان کے خیال میں اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کو آئندہ کئی سالوں تک یورپی یونین کے قوانین ماننا پڑیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp