علامہ اقبال کا مومن شاہین اور ماہ رمضان


علامہ مرحوم و مغفور نے فرمایا تھا کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ اب اتفاق کچھ یوں ہوا کہ علامہ تو نہایت پڑھے لکھے تھے، اتنے زیادہ کہ حکیم الامت کہلاتے تھے، لیکن وہ یہ خیال نہ کر پائے کہ باقی ماندہ قوم واجبی تعلیم یافتہ ہے اور ان کے اس زریں فرمان کو بھی ’نوشتہ دیوار حکیمی نسخے‘ کے طور پر لے لے گی۔ ہم جیسوں کو یہی مطلب سمجھ آیا کہ خواہ کوئی کتنا ہی گنہگار بندہ کیوں نہ ہو، اگر وہ دوسروں سے لڑ پڑے تو وہ مومن ہو جاتا ہے۔

نجات کا اتنا سادہ نسخہ مل جائے، اور دیا بھی حکیم الامت نے ہو، تو پھر کیا کہنے۔ ہر بندہ اپنے درجات بلند کرنے کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہو گیا۔ کسی نے لڑائی کے لیے بھارت چنا اور اس کے خلاف جلوس نکال کر محلے کے چوک بھارتی سگنل توڑ دیا۔ کسی کو اسرائیل کے فلسطینیوں پر کیے گئے بہیمانہ ظلم یاد آئے اور اس نے ساتھ والی سڑک پر اسرائیلی ٹائر جلا کر اسرائیلی ٹریفک جام کر دی۔ کسی کو برما کی مسلمانوں پر شدید زیادتیوں کا صدمہ ہوا تو اس نے نزدیکی سڑک پر برما کی گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے۔ لیکن ان میں سے کچھ باشعور افراد کچھ حق پرست بھی تھے جنہوں نے نہایت سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ جانا کہ یہ سارے ممالک محض مہرے ہیں اور اصل بدمعاشی امریکہ کی ہے، سو انہوں نے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے شہر کی چند امریکی بسیں جلا ڈالیں۔

لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ابھی بھی بین الاقوامی تنازعات میں پڑنے سے کتراتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر باقی دنیا کے بارے میں۔ اس لیے بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہاں کے مقامیوں سے لڑنے کو افضل جانتے ہیں۔ ویسے تو وہ سارا سال ہی یہود و ہنود کے پاکستانی ایجنٹوں سے لڑتے ہیں اور خوب اقبالی مومن بن جاتے ہیں، لیکن رمضان میں تو ہر ایک ہی اپنے درجات بلند کرنے پر تلا ہوا ہوتا ہے۔

ایسا صالح شخص صبح اٹھتے ہی اپنی طبیعت کو لڑائی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور پھر چل سو چل۔ پہلا جھگڑا بیگم سے ہوتا ہے اور دوسرا سڑک پر ہوتا ہے۔ تیسرا چوتھا اور پانچواں دفتر کی میز پر۔ اتفاق ایسا ہوتا ہے کہ سڑک پر اور دفتر کی میز پر جو ملتے ہیں، وہ بھی اقبال کے معتقد ہوتے ہیں اور مومن بننے کی چاہ میں مرے جا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ مومن بننے کے لیے مارنے پر تلے ہوتے ہیں۔

لیکن حق بات یہی ہے کہ اقبال کے اس انسٹینٹ فارمولے سے مومن بننے کا جو جذبہ افطاری سے آدھا گھنٹہ پہلے سے شروع ہو کر افطاری کے پانچ منٹ بعد تک سڑکوں پر نظر آتا ہے، اس سے قوم کا اقبال پر یقین محکم واضح ہو جاتا ہے۔ ہر اقبالی مومن ڈرائیور اس وقت اقبال کا شاہین بنا ہوا ہوتا ہے جو کہ سڑک پر چلنے والے دوسرے لوگوں کو اقبالی ممولے سمجھ کر اقبالی مومن بننے میں لگ جاتا ہے۔ بھوکا بندہ۔ سحری سے ایک گھونٹ پانی نہ پیا ہو۔ ایک کھیل نہ کھائی ہو۔ اور میدان جنگ میں اپنی عالیشان جاپانی رتھ یا سبک رفتار ستر سی سی کے گھوڑے پر موجود ہو۔ اور افطاری میں چند منٹ ہی باقی بچے ہوں۔ اور بندہ سارے حقوق العباد مار کر بھی اپنے تئیں مومن بھی ہو۔ تو پھر ماہ رمضان میں ایسا ہی محسوس ہونے لگتا ہے کہ شعبان ہے تو صبر پہ کرتا ہے بھروسا، رمضان ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

Jun 20, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments