محنت کشوں کا مجاہد: حسن ناصر شہید


سرو کی طرح دراز قد، گورا چٹا چہرہ اس پر مناسب مونچھیں نمایاں جو دایمی مسکراہٹ کی وجہ سے پورے چہرہ پر غالب آجاتی تھیں۔ ملاقات اور گفتگو سے تہذیب اور نفاست عیاں تھی۔ ویسے بھی وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک ممتاز شخصیت اور حیدر آباد دکن کے نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔

حسن ناصر سے پہلی ملاقات 1954 میں روزنامہ امروز کراچی کے دفتر میں ہوئی جہاں سے میں نے صحافت کا سفر شروع کیا تھا۔ ان دنوں حسن ناصر کراچی کے ٹیکسٹایل مزدوروں اور ٹرانسپورٹ کےکارکنوں کو استحصال سے نجات دلانے کے لئے ان کی ٹریڈ یونین منظم کر رہے تھے۔ ان کے جاننے والے کہتے تھے کہ حسن ناصر جنونی ہے، حیدر آباد دکن میں نوابوں کی عیش و عشرت کی زندگی کو لات مار کر پاکستان آ کر اس نے یہاں مزدوروں کے مصایب کی پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی ہے۔

اس زمانہ میں مصر میں کرنل جمال عبد الناصر کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا تھا جس نے صدیو ں پرانی بادشاہت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ اسی مناسبت سے امروز کے کارکنوں میں حسن ناصر، کرنل کہلاتے تھے۔

مجھ سے رہا نہ گیا۔ ایک رات جب وہ امروز کے دفتر آئے تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ کمیونزم سے آپ کا تعارف کب اور کیسے ہوا۔ ایک گونج دار قہقہہ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا میں جن دنوں کیمرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو وہاں ہندوستان اور برطانیہ کے ممتاز کمیونسٹوں سے میل ملاپ ہوا اور ان کی صحبت میں مجھ پر کمیونزم غالب آگیا اور میرا یہ عقیدہ پختہ ہوگیا کہ کمیونزم کے راستے ہی ہندوستان کے غریب، نادار، مفلس اور استحصال کے شکار محنت کشوں کو نجات دلائی جا سکتی ہے۔ کہنے لگے کہ کیمبرج سے فارغ ہونے کے فورا بعد میں نے ہندوستان واپسی پر حیدرآباد میں مخدوم محی الدین کے ساتھ تلنگانہ کی مسلح تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

ہندوستان میں تو کمیونسٹ پارٹی پوری طرح سے منظم تھی لیکن نوزائیدہ ملک پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ میں سرحد پار کر کے پاکستان آ گیا۔

حسن ناصر اپنے جوش و جذبہ اور بےانتہا محنت و مشقت کے بل پر مزدوروں اور طالب علموں میں بے حد مقبولیت کی وجہ سے پاکستان کے حکام کی نظروں میں کھٹک رہے تھے، چنانچہ 1954 کے آخر میں پتہ چلا کہ حسن ناصر گرفتار کر لئے گئے ہیں اور انہیں جبرا سرحد پار ہندوستان میں دھکیل دیا گیا ہے۔

ابھی ایک سال ہی گذرا تھا کہ ایک رات حسن ناصر اچانک امروز کے دفتر میں نمودار ہوئے۔ ہم سب حیرت سے دم بخود رہ گئے۔ اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ حسن ناصر بڑے فاتحانہ انداز سے کہہ رہے تھے کہ جن حکام نے مجھے ہندوستان میں دھکیلا تھا ان کو میں نے واپس پاکستان آکر ہرا دیا ہے۔ ہم سب نے حسن ناصر کو مشورہ دیا کہ آپ کو بے حد محتاط رہنا چاہئے، ویسے بھی پاکستان میں سیاسی حالات بحران کا شکار ہیں۔ دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی ہے اور اب اقتدار پر فوج کے قبضہ کے آثار نظر آتے ہیں۔ حسن ناصر کہنے لگےمیں روپوش ہوں۔ ہم اپنے قہقہہ پر ضبط نہ کرسکے۔ یوں کھلم کھلا امروز کے دفتر آنے کو آپ روپوشی کہیں گے؟ ہمارے قہقہہ کے جواب میں حسن ناصر نے زور دار قہقہہ لگایا۔ جیسے انہیں کوئی فکر اور پریشانی نہیں ہے۔

کس قدر رجایت اور اعتماد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا حسن ناصر کی شخصیت میں۔ اور شاید یہی رجایت، مزدوروں اور کسانوں کو منظم کرنے اور ان کی خوشحالی کے لئے جدو جہد میں انہیں حوصلہ دیتی تھی۔

1959 میں، میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے دلی چلا گیا۔ وہاں دل دہلانے والی خبر ملی کہ حسن ناصر جنہیں گرفتار کرکے لاہور کے قلعہ کے عقوبت خانہ میں قید رکھا گیا تھا پوچھ گچھ کے دوران شدید ایذارسانی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ پھر ان کے قاتلوں نے اپنا جرم چھپانے کے لئے حسن ناصر کی مسخ شدہ لاش کہیں دفنا دی۔

دسمبر 1960 میں حسن ناصر کی والدہ زہرہ علمدار حسین، اپنے بیٹے کی میت لینے کے لئے لاہور گئی تھیں۔ جب وہ دلی واپس لوٹیں تو میں حسن ناصر کی تعزیت کے لیے ان سے ملا۔ میں نے پوچھا کہ حسن ناصر کی میت آپ لائی ہیں؟ اس سوال پر وہ بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے اوپر قابو پایا اور گویا ہوئیں کہ لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ایک قبر کو کھول کر یہ کہہ کر ایک بے حد مسخ شدہ لاش دکھائی کہ یہ میرا بیٹا حسن ناصر ہے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں یہ میر ا بیٹا حسن ناصر نہیں ہے یہ کسی اور کی لاش ہے۔ حکام کا اصرار تھا کہ نہیں یہ حسن ناصر کی لاش ہے جنہوں نے لاہور کے قلعہ میں اپنے سیل میں خود کشی کر لی تھی۔ حسن ناصر کی والدہ نے بتایا کہ میں نے حکام سے کہا کہ یہ دوسرا جھوٹ ہے۔ میرا بیٹا کبھی خود کشی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تو زندگی کا دلدادہ تھا۔ حسن ناصر کی والدہ نے بتایا کہ میں نے وہیں کھڑے ہو کر کہا کہ میرے بیٹے حسن ناصر نے ایک اعلی مقصد کے لئے جان دی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بے شمار بیٹے ہیں جو اس مقصد کے لئے اٹھیں گےجس مقصد کے لئے حسن ناصر نے اپنی جان دی ہے۔ زہرہ علمدار حسین نے بتایا کہ یہ سن کر پاکستانی حکام سخت پریشان ہوگئے اور انہوں نے فی الفور مجھے لاہور سے رخصت کر دیا۔

حسن ناصر کی والدہ کی یہ باتیں سن کر میں نے سوچا کہ واقعی حسن ناصر کو رجایت عزم و ارادہ اور محنت کشوں کے لئے جدو جہد کا یہ زندہ جاوید جذبہ اپنی والدہ سے ورثہ میں ملا تھا۔

1928 میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے حسن ناصر نے 1960 میں 32 سال کی عمر میں لاہور کے قلعہ کے عقوبت خانہ میں شہادت پائی۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani