سکاٹ لینڈ: مسیحی رہنماؤں کی آسیہ بی بی کے لیے اپیل، ’برطانیہ میں سیاسی پناہ دی جائے‘
سکاٹ لینڈ کے سات گرجا گھروں کے سربراہان نے برطانوی سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید کو خط لکھ کر ان سے اپیل کی ہے کہ پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو سیاسی پناہ دی جائے۔
سکاٹ لینڈ کے کیتھولک چرچ کی سوسن براؤن اور لیئو کوشلی ان سات بڑے مسیحی گرجاؤں کے سربراہان میں شامل ہیں جنھوں نے یہ کھلاخط لکھا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کی حقدار ٹھہرائے جانے والی آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن گذشتہ ماہ ملک کی سپریم کورٹ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔
آسیہ بی بی کے حوالے سے مزید پڑھیے
آسیہ بی بی کی بریت اور پاکستان میں احتجاج پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ
‘پاکستان آسیہ کے تمام قانونی حقوق کا مکمل احترام کرتا ہے’
آسیہ بی بی کے شوہر کی مغربی ممالک سے پناہ کی اپیل
آسیہ بی بی کی بریت کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا آغاز ہو گیااور تین دن تک جاری رہنے والے احتجاج کا خاتمہ اس وقت ہوا جب حکومت اور مظاہروں کی قیادت کرنے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے پانچ نکاتی معاہدہ پر دستخط کیے جس کے مطابق عدالتی فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کی گئی۔
کھلے خط کے مضمون کے مطابق آسیہ بی بی کو پاکستانی سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو بری کر دیا تھا۔
‘خبروں کے مطابق وہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہیں لیکن انھیں مسلسل تحفظ کی ضرورت ہے کیونکہ مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے ان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس سے پہلے بھی پاکستان میں توہین مذہب کے معاملات میں لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہو چکا ہے۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کی جان کو صحیح معنوں میں خطرہ ہے۔ پاکستان کے توہین مذہب قوانین ہی اصل مسئلے کی جڑ ہیں اور ہم برطانوی حکومت سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر زور ڈالے کے ان قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ ان کا غلط استعمال نہ ہو۔’
چرچ کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں رہائش پذیر امید بخش کے خاندان کو بھی سیاسی پناہ دی جائے ورنہ اگر انھیں پاکستان بھیجا گیا تو ان کی جان کو خطرہ درپیش ہوگا۔
‘سفارتی عملے کے تحفظ کے لیے آسیہ کو سیاسی پناہ نہ دیں’
دوسری جانب برطانوی جریدے گارجین کے مطابق برطانوی خارجہ آفس پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی سیاسی پناہ گزینوں کے لیے بنائی گئی پالیسی پاکستان میں جاری مظاہروں کے دباؤ میں آگئی۔
گارجین نے دعوی کیا ہے کہ برطانوی دفتر خارجہ نے ہوم آفس پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں مقیم برطانوی سفارتی عملے کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آسیہ بی بی کو سیاسی پناہ نہ دیں۔
اخبار کے مطابق اسلام آباد میں متعین برطانوی ہائی کمشنر نے حکومت کو بتایا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کو سیاسی پناہ دی گئی تو وہ پاکستان میں عملے کے تحفظ کی یقین دہانی نہیں کرا سکتے۔
گذشتہ ہفتے آسیہ بی بی کے خاوند عاشق مسیح نے برطانیہ سے اپیل کی کہ وہ ان کے خاندان اور آسیہ بی بی کو سیاسی پناہ فراہم کریں کیونکہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
برطانوی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ٹوڈ ٹوجنڈ ہیٹ نے دفتر خارجہ کے مستقل سیکریٹری سر سائمن میکڈونلڈ سے پوچھا کہ کیا اس واقعے سے یہ سوال نہیں اٹھتا کہ برطانوی عملے کی سیکورٹی بڑھائی جائے یا اس کے مطلب ہے کہ چند مظاہرین برطانوی پالیسی کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔
‘آسیہ بی بی پاکستان میں ہی ہیں’
ادھر پاکستانی اخبار روزنامہ ڈان کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کو کہا ہے کہ آسیہ بی بی بری ہو گئی ہیں لیکن ‘نظر ثانی اپیل کی وجہ سے ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتیں۔’
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘آسیہ بی بی یہیں ہیں، نظر ثانی اپیل کی سماعت ہو رہی ہے، وہ یہاں سے کیسے جاسکتی ہیں۔ اس میں کوئی تنازع نہیں، وہ یہیں ہیں۔’
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق بریت کے بعد آسیہ بی بی پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے تاہم حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے معاہدہ کیا تھا جس میں مذہبی جماعت نے مسیحی خاتون کی نظر ثانی اپیل کے فیصلے تک بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینے کا کہا تھا۔
اس حوالے سے جب بی بی سی نے لاہور میں مقیم وکیل رضا علی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ قانون کی روشنی میں وزیر خارجہ کا بیان درست نہیں ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے بریت کے حکم کے بعد آسیہ بی بی پر کسی قسم کی کوئی پابندی لاگو نہیں ہوتی۔
رضا علی نے کہا کہ ‘آسیہ بی بی کو غیر متعلقہ وجوہات کی بنا پر روکا جا رہا ہے۔’
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان کیے گئے معاہدے کی حیثیت پر کیے گئے سوال پر ایڈوکیٹ رضا علی نے کہا کہ اگر کوئی معاہدہ قانون کے متضاد ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور اس وجہ سے یہ پانچ نکاتی معاہدہ بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یاد رہے کہ چند روز قبل اس معاملے پر کینیڈا کی حکومت نے پاکستان سے رابطہ کیا تھا اور شاہ محمود قریشی نے اپنے کینیڈین ہم منصب سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘آسیہ بی بی پاکستانی شہری ہیں اور پاکستان ان کے تمام قانونی حقوق کا مکمل احترام کرتا ہے۔’
ادھر لاہور میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی جانب سے جمعرات کو آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
- میٹا کو فیس بک، انسٹاگرام پر لفظ ’شہید‘ کے استعمال پر پابندی ختم کرنے کی تجویز کیوں دی گئی؟ - 28/03/2024
- ’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا - 28/03/2024
- ترکی کے ’پاور ہاؤس‘ استنبول میں میئر کی نشست صدر اردوغان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).