مُلا گردی اور ہم


سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک دفعہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ آپ سانپ پال کر یہ سوچ سوچ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ یہ سانپ ہمسایوں کو ڈسیں گے اور ہم محفوظ رہیں گے تو یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والی باتیں ہیں۔ اور ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ وہی پالتو سانپ ہماری نسل کو کھائے جارہے ہیں اور ہم ہیں کہ ابھی تک سانپ پالنے سے باز نہیں آرہے۔ اتنی عدم برداشت پیدا کی جا چکی ہے اور اس کو مزید بڑھایا جارہا ہے کہ سوچ کے دیکھ کے محسوس کر کے ایک عام آدمی سوچتا ہوگا کہ کیا اسی ملک کے لئے مسلمانوں نے جدوجہد کی کیا یہی اسلام کی درست تعبیر ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کریم ص کو مبعوث کیا۔

کیا ہم سب اس بات سے آگاہ نہیں کہ پاکستان سے ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ حج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ زیارات مقدسہ کے لئے عراق ایران جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ہر وقت دین کی تبلیغ کے لئے پورے ملک میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے غور کیا کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود ہمارا معاشرہ مزید بگڑتا کیوں جارہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام کی خود ساختہ ترجمانی عدم برداشت اپنے آپ کو سچا اور کھرا سمجھنا اور دوسروں کو پوری کوشش کر کے دائرہ اسلام سے نکالنے میں سعی کرنا بڑی وجوہات ہیں۔

اس میں اگر بہت زیادہ کردار نام نہاد اسلام کے ٹھکیدار ملاؤں کا ہے تو اس معاملے سے کم از کم پڑھا لکھا طبقہ بھی بری الذمہ نہیں۔ وہ اس لئے کہ اگر ایک پڑھے لکھے شخص کو سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک اس طرح جوتوں کپڑوں سے لے کر مریخ تک کم یا زیادہ معلومات رکھتا ہے اور مزید معلومات کے لئے بھی اس کی کوشش پوری زندگی کم یا زیادہ بہرحال جاری رہتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بطور مسلمان ہم اپنے مذہب کو جاننے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔

اور جو محلہ کا مولوی کہ دے آمدناً صدقاً کہہ دیتے ہیں یا پھر کچھ حضرات کچھ ”خاص“ مولنا حضرات کی لچھے دار گفتگو کی سوشل میڈیا پر تقاریر خود بھی سنتے ہیں اور بطور تبرک دوسروں کو بھی شیئیر کرکے اسلام کے سچے مومن ہونے کا اپنا فرض گویا پورا کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہی اسلام اور اس کی پوری تعلیمات ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس طرح کی تنگ نظری اور مذہب کے بجائے فرقوں کی دینی تعلیم سے ہی ہمارا معاشرہ بجائے اسلام کی درست روح سے اس میں مثبت اور بہتری آئے ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔

میں کسی ایک مسلک کی بات نہیں کررہا۔ آپ کسی بھی مسلک کے دینی مدرسے میں چلے جائیں آپ کو اس مسلک کے علاوہ باقی مسلک کے لئے نفرت اور طنز اور کافر گستاخ کی باتیں ہوں گی یا پھر رد بریلوی رد دیو بندی گستاخ اہل حدیث شیعہ کافر اس مضامین کی کتابیں اور باتیں وافر تعداد میں ملیں گی۔ اس طرح کی کتابیں پڑھ کے شام کے وقت گھر گھر سے بھیک منگوا کر روٹیاں اور سالن کھا کے (مولوی صاحب کے لئے ”خوبصورت اور خاص“ شاگرد خاص کھانا بناتے ہیں ) سائنسی ایجادات اور آج کی سائنسی باتوں کو کفر کہنا اور جب اس طرح کے کنویں کے مینڈک کی طرح کی اکثریت جب بڑے ہو کے اسلام کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو نتیجہ کیا نکلنا ہے یہ جاننے کے لیے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

عام محلہ کا دیہات کا عام مولوی کیسی پھلجھڑیاں چھوڑتا ہوگا اور وہ بھی اسلام جیسے امن کے دین کے نام پر بخوبی سمجھ جائیں۔ تازہ ترین واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ چنیوٹ میں ایک مکتبہ فکر کے مولنا صاحب نے مخالف فرقہ کے جنازہ پڑھنے پر کفر کا فتویٰ اور ساتھ نکاح ٹوٹ گئے کا فتویٰ بھی صادر فرما دیا۔ باقی معاملے کو تو چھوڑ دیں۔

جنازہ مرد حضرات نے پڑھا طلاق بے چاری عورت کو ہوگئی۔ خبر کے مطابق مفتی جی کی اپنی زوجہ محترمہ بھی مخالف فرقہ والوں کے گھر تعزیت کے لئی گئی۔ اپنی بیوی کے بارے میں کوئی فتویٰ دینے کے بارے راوی خاموش ہے۔ اسلام اور ملاگردی جیسی دو الگ الگ چیزوں کو اس طرح گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ کہ ملا کی بات یا خیالات سے اختلاف گویا اسلام سے یا اسلامی ضابطہ سے انکار ہے۔ اور اس بات کو لے کر کفر کے فتوے اور گردن کاٹنے کو عین اسلامی کہا جاتا ہے۔

اس وقت ہمارا معاشرہ اتنی گھٹن اور ڈر اور خوف کا شکار ہے۔ کہ ہماری اعلیٰ عدالت نے آسیہ مسیح کے بریت کے فیصلے میں اردو زبان میں لکھے گئے فیصلے میں گویا محسوس ہوتا ہے ججز حضرات قانونی باتیں کم اور ملا حضرات کو اپنے مسلمان اور عاشق رسول ص ہونے کا یقین زیادہ دلا رہے ہیں۔ اور تو اور ہمارے سپہ سالار تک کو اپنے آپ کو راسخ العقیدہ ثابت کرنے کے لئے یہاں تک کرنا پڑا کہ اپنے گھر میں ہونے والی میلاد شریف ص اور اپنے فرزند کی شادی پے مولانا صاحب کا خطبہ دونوں تقریبات کی تصاویر اور ویڈیوز میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی بڑی بڑی ہستیاں ایمانی سڑیٹیفکٹ کے لئے اتنے جتن اور پاپڑ بیل رہے ہیں تو ہم اور آپ کیا کریں۔ تو عرض ہے۔ ہم سب کو پریشان اور خوف زدہ ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہم تو کافی عرصہ ہوا ملا حضرات کے جاری کردہ فتاویٰ کی رو سے کچھ گستاخ، کچھ بدعتی، کچھ کافر ڈکلیئر ہو چکے ہیں۔ اب تو خیر سے جو ملا حضرات کی باتوں اور ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا مولوی صاحب کہتے ہیں ”اناں دی پین دی سِری“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).