فورٹی رولز آف لو پر تبصرہ


رومی کو ایک بے تاثیر مولانا سے ایک سچا عاشق، شاعر اور صوفی بناتے ہوئے خود شمس ہزار طرح کی تکلیفوں سے گزرتا ہے۔ رومی کی نیک نامی کی دھجیاں اڑتی ہیں تو شمس کا دل بھی پاش پاش ہو جاتا ہے۔ رومی کی ذات کا سفر شمس کو بھی موجود سے فنا، بہار سے خزاں اور زندگی سے موت تک لے جاتی ہے۔ رومی کو نیے رنگ میں رنگ کر شمس تبریز کا مقصد حیات پورا ہوا تو اس کو الہام ہوتا ہے کہ اس کی روانگی کا نقارہ بج چکا۔

”ریشم کے پھلنے پھولنے کے لیے ریشم کے کیڑے کا مرنا ضروری ہے۔ “

رومی نام کے ستارے کو تاباں کرنے کے لیے شمس نام کے سورج کو غروب ہونا پڑے گا۔

دنیا میں رہنمائی کرنے والے لوگ ہی اکثر منزل چھوٹ جانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہی لوگ جب اپنی نگاہ سے انسانوں کی شناخت کرنے لگتے ہیں اور ان کو اپنے بنائے پیمانوں پرجانچنے لگتے ہیں تو کھرے اور کھوٹے کی نہ صرف پہچان کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ہماری روحوں کو زخمی کرتے جاتے ہیں

” تمھارے اور خدا کے بیچ کسی کو نہیں آنا چاہیے :کوی امام، پادری نہ کوی ربی، مذہبی اور اخلاقی اقدارر کے ٹھیکیدار نہ کوی روحانی عالم اور نہ ہی تمھارا اپنا ایمان۔ اپنی اقدار اور قواعد پر یقین رکھو لیکن ان کو کسی بھی شے پر حاوی مت ہونے دو! “

شمس آف تبریز کا یہ سبق دنیاوی مشعل برداروں کی نفی کرتا قاری کی آنکھ کو اس آئینہ میں جھانکنے کی ترغیب دیتا ہے کہ جس میں رب کا عکس دکھا ی دے رہا ہو۔ ہم ان کرداروں کی ازیتوں کو ایک ہمزاد کی طرح اپنے دل میں محسوس کرتے جاتے ہیں۔ شمس اور رومی کے تعلقات اور رومی کی شخصیت کا بدلاؤ معاشرے اور مذہب کے انہیں ٹھیکداروں کے ہاتھوں تنقید اور تحقیر کا باعث بنتا ہے۔

تاریخ اور حال کا ایسا سنگم کہ جس کو الگ الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی کو مصنفہ نے اکسویں صدی کے ساتھ اتنی مہارت سے گوندھ دیا ہے کہ قاری ان کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا نہ وہ دیکھنا ہی چاہتا ہے۔ شمس کی کہانی آپ کو ایلا کی طرف دھکیلتی ہے اور ایلا کو پڑھتے آپ کا دھیان شمس کی طرف لپکتا رہتاہے۔ ہر اگلا سبق پچھلے حصے کا بے اختیار تسلسل ہے۔ ظاہر میں ایک دوسرے سے الگ دکھتی کہانیاں اصل میں ایک ہی دھاگے سے باندھی گیی اور ایک ہی خوشبو سے مہکای گیی ہیں۔

عشق اور عشق حقیقی کی زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ خالق کی محبت انسانوں سے امتحان لیتی ہے۔ محبوب صرف واحد ہو سکتا ہے اور واحد کو محبوب بنانے کے لیے دنیاؤ ی شہرت اور عزت سے ماورا ہونا پڑتا ہے۔ کسی بشری تقاضے سے ماوارا ہونا عشق کی معراج بھی ہے اور صوفی ازم کا بنیاد ی نکتہ بھی جس کو درجہ بدرجہ چالیس اصول واضح کرتے جاتے ہی۔

ناول کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سامنے آنے والے کردار آپ کی روح میں پنجے گاڑ تے جاتے ہیں۔ روز آف فارسٹ، شرابی، فقیر، کیارا، ایک ملنگ اور درویش کے عشق میں تڑپتی کیمیا، باپ پر یقین رکھتا سلطان ولد، دنیا کی نظروں میں زمینی حقایق، سچ اور جھوٹ، اصل اور نقل میں فرق، ظاہر اور باطن کا دھوکہ آنکھوں کے سامنے واضح ہوتے جاتے ہیں۔ عشق ومستی کا کھیل کبھی حسد، رقابت اور آگ سے دامن بچا سکا ہے اور نہ ہی حسن و محبت کی داستان نفرتوں کی شمولیت کے بغیر کبھی مکمل ہوی ہے۔

ان صفحات پر بھی الہ دین، بیبرز اور زیلٹ نفرت سے خون تک کا سفر طے کرتے نظر آ تے ہیں۔ کس طرح خبیث ترین کام مقدس سمجھ کر سرانجام دیے جاتے ہیں۔ روایتی طبقات کا نکتہ نظر کتنا سچ اور جھوٹ لیے ہے سب روز روشن کی طرح واضح ہوتا جاتا ہے۔ تعصبات حقایق کو دھندلائے رکھتے ہیں اور کالے بادل چمکتے سورج کو نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح روایتی سوچ اور حسد شمس اور رومی کو ملحد دکھا کر بدصورت بنا دیتی ہے تو ایلا اور عزیز کی بے نیازی بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ دونوں سطحوں پر متعلقہ معاشرہ کبھی الہ دین اور مقامی علما کی شکل میں اور کہیں شوہر اور بچوں کی صورت اپنی اپنی مزاحمتوں میں سرگرم عمل نظر آتا ہے۔

شمس اور عزیز میں زمان و مکاں کا فرق ہونے کے باوجود عزیز شمس ہی کی ڈوری کا ایک سرا دکھای دیتا ہے۔ شمس کے برعکس عزیز دکھنے میں ایک عام انسان لگتا ہے مگر درحقیقت صوفیانہ لڑی سے جڑا شمس کا ہی ایک جنم ہے۔ صوفی سرائے میں اپنے صوفیانہ تربیت کے دوران اس کا استاد اس کی شمس سے مماثلت کا ذکر کرتا ہے تو عزیز کو اپنے پاس سے شمس کے لباس کی سرسراہٹ سنای دیتی ہے شمس کے بارے میں جان کراسے وہ کردار بہت جانا پہچانا اور دیکھا بھالا لگتا ہے۔ اور یہی بات جب ایلا پوچھتی ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ شمس رومی کے بغیر ادھورا ہے چونکہ روی کی ذات کی تکمیل ہی شمس کی زندگی کا اصل مقصد تھا۔

”اگر کوی شمس ہو بھی تو اسے دیکھنے والا رومی کہاں ہے۔ “

ایلا عزیز کی محبت اور اپنے شمس کی رومی بن جاتی ہے۔ عشق خدا کا ایکجذباتی، روحانی اور پراسرار رخ اور اعلیٰ ترین درجہ شمس کا تو دوسرا مغربی، دنیاوی اور انسانی رخ عزیز ہے۔

” ہر چور جب دنیا سے روانہ ہوتا ہے تو ایک نیا جنم لیتا ہے۔ ہر مہزب انسان جب وفات پاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی نیا لے لیتا ہے، اس طرح سے کچھ بھی ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور نہ ہی کچھ بھی ہمیشہ بدلتا ہے۔ کہیں کوئی صوفی مرتا ہے تو ا اسی لمحے دوسرا کسی دوسرے کونے میں پیدا ہو جاتا ہے“

صوفی ازم، تزکیہ نفس، عشق حقیقی اور مجازی، دماغوں کو نیے سُروں سے روشناس کرواتے ہیں تو تحریر کی پراسراریت، اس کے کرداروں کی طلسمیت، دل کو دہکا دینے والے لمحے اور گرما دینے والی حدتیں آپ کو کئی کیئی حیران کن جزیروں کا سفر کرواتے ہیں۔

” کنویں کے اندر سے دو چمکتی کالی پتھر سی آنکھیں“

آپ کبھی بھول نہیں پاتے، کنویں کے کنارے گرا ہوارومی زمین پر نہیں آپ کے دل پر گرتا ہے اور بین کرتا ہے جس کی نوحہ کنعایاں آپ کے وجود میں زلزلے برپا کر دیتی ہیں۔ ایلا کے سامنے بیٹھا عزیز اپنے صوفی بننے کی کہانی سناتا ہے، ایلا کے ساتھ خوفناک رستوں پر چلنے کی بات کرتا ہے تو ایلا کے ساتھ آپ کی ذات بھی موم کی طرح پگھل کر بہہ جاتی ہے۔ معشوق کا وصال ہو یا جدای اپنے پنجے قاری کے دل میں گاڑھتی ہے۔ ایلف شفق اپنی تحریر سے آپ کو شمس آف تبریز اور عزیز سے عشق کرنے پر مجبور کر دیتی یے تو رومی اور ایلا کے احترام اور رتبوں میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ کیمیا کی غیر فطری صلاحیتیں اس کے لیے فنا کا پیغام لاتی ہیں اور ایک غیر معمولی بچی سے درویش تک اور درویش سے فناییت تک کا سفر اسے عشق حقیقی کی تکمیل تک لے کر جاتا ہے کیمیا کا کرب اور جستجو اور من مندر میں لگی آگ قاری کا دامن جلانے لگتی ہے۔

آپ ہر لفظ سے اپنی انگلی چھڑا کربھاگنا چاہتے ہیں مگر مصنفہ آپ کا بازو پکڑے آپ کو آگے سے آگے دھکیلتی جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ لکھاری کی مہارت اور ہنر ہے کہ قاری نہ صرف کتاب سے چپک کر رہ جاتا ہے بلکہ اسے روح کی گہرایوں تک محسوس کر کے اگلے کیئی روز تک اس کی تاثیر محسوس کرتا رہتا ہے۔ ناول کے آغاز میں کنویں کی تہہ میں چمکتی ہوی آنکھوں سے شروع ہونے والا خوف، تہہ میں گرنے کی آواز کے منتظر قاتل جو کنویں کی خاموشی سے سہم جاتے ہیں، تک آپ کی اذیت کو بڑھاتا ہی نظر آتا ہے یہاں تک کے قاری آخری صفحات پر پھر انہیں آنکھوں اور نوح و کنعاں تک آ ٹھہرتا ہے۔

ایلا کی داستان آپ کے اندر ایلا کو بیدار کر دیتی ہے تو۔ رومی کی تڑپ آپ کو انگاروں پر جلانے لگتی ہے، شمس آف تبریز کے ساتھ چلتے آپ درویش بن جاتے ہیں تو عزیز آپ کو منزل منزل روشنی دیتا ہے۔ بابا زمان اپنی شفقت اور لیاقت سے آپ کو شرابور کر دیتے ہیں اورکیمیا کی حسرتیں آپ کا دامن جلا دیتی ہیں۔ الہ دین کا حسد، روز آف فارسٹ کی جستجو سب قاری کو خود پر سہنی پڑتی یے عشق حقیقی کے اسباق پڑھتے، سمجھتے اور سیکھتے ہوئے۔

صوفی ازم کو فلسفے کی کتابوں سے نکال کر ایک کہانی کی صورت میں مصنفہ نے اس طرح ڈھال دیا ہے کہ ایک عام سا قاری بھی سیما ( درویشانہ رقص) کی دھڑکنوں میں گول گول گھومنے لگتا ہے۔ درویشانہ رقص ایک عام نظر کو منٹوں میں کندن کر کے حسن وعشق کے وہ اسباق پڑھا جاتا ہے جو عام حالات میں شاید فلسفے کی کتابوں میں بند رہ جاتے یا صرف فلسفہ کے شاگردوں کی ایک درسی ضرورت بن جاتے۔ مصنفہ کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ عشق حقیقی کے چالیس قوانیں وہ سیدھے ایک قاری کے دل میں اتار جاتی ہے بغیر کسی بحث و مباحثہ، بغیرکسی حجت کے۔ اور فلاسفی کو اتنی خوبصورتی اورسادگی سے عوام الناس کے سامنے پیش کرکے اپنی ناول نگاری پر مکمل گرفت کا ثبوت دیتی ہے۔ فلسفہ کو ایک سادہ کہانی کی صورت بیان کرنے میں مصنفہ کی پختگی بہت جلد پایلو پاؤلو کوئلو کو ہلو کو پیچھے چھوڑتی دکھای دیتی ہے۔

صوفی ازم کو اپنے بہتریں انداز میں پیش کرتے ہوئے جہاں مصنفہ اسلام میں چالیس کی اہمیت، اور چالیس قوانین کو واضح کرتی ہے وہیں اپنے ہر سبق کا آغاز ب سے کرکے اس لفظ کی اہمیت اجاگر کرکے ناول کی درویشیت کو تقویت دیتی ہے چونکہ بسم اللہ کے ب کو سارے قرآن کا مفہوم کہا گیا ہے۔ اپنے کرداروں، الفاظ اپنی کہانی کی بنت اور اتار چڑھاو، رومی کے چالیس اصول ہر شے کو مصنفہ بہت احتیاط سے چھان پھٹک کے اس موضوع کے ساتھ بہترین انصاف کرتی دکھائی دیتی ہے۔

ناول کے کرداروں کو عام زندگی کی حکایتوں، فلموں اور ڈراموں کی محبت کے زاویے سے دیکھنا اس کے ساتھ زیادتی کرنا ہے۔ عشق حقیقی کی لہروں کو دھیرے دھیرے اپنی ذات میں جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ذہن میں معاشرے اور روایات کے ہاتھوں پالی گیی بصیرت کو کچھ لمحوں کے لئے بھلا کر آپ خود کو اس کتاب کے کرداروں اور الفاظ کے سپرد کر دیں اور دیکھیں کہ آپ کی استطاعت کتنے سمندروں کی حدوں تک ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ عشق کا سمندر آپ کے پاوں گیلے نہیں کرے گا بلکہ اپنی لہروں میں ڈبو دے گا۔ اک حیات جادواں کا نظارہ دکھانے کے لیے۔ کچھ دنیائیں عام انسانوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں جو صرف مقدر والوں کا مقدر اور بصیرت والوں کی بصارت بنتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2