پی ٹی وی کا ناجائز چیئرمین عطا الحق قاسمی


چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے لئے ہماری عقیدت کو کچھ احباب چاپلوسی گردانتے ہیں، جب کہ ہم اُن کی رائے کو قصۂ کم نظری سمجھتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کیجیے، ہمیں ایک ایسے چیف جسٹس کی مدح میں غلو سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے جو سبک دوشی کے سرہانے کھڑا ہے؟ کیا جانے والے سے محبت اور عقیدت اور پھر اس کا بر ملا اعتراف رسمِ کاسہ لیسی کہلا سکتی ہے؟ قطعاً نہیں! یہ تو ہمارے دل کی صدا ہے، ہمارے ضمیر کی آواز ہے، ”مجھے ہے حکمِ اذاں“ کی تفسیر ہے۔ قند کو زہرِ ہلاہل قرار دینا تو سراسر بدنیتی ہو گی۔

جو دوست حقیقی زندگی میں چیف جسٹس ثاقب نثار کو قریب سے دیکھ چکے ہیں ہمیں اُن پہ رشک آتا ہے۔ خُدا جانے وہ اپنے جذبات پہ کیسے قابو پاتے ہوں گے، ہم تو نہ رکھ پاتے، ہم تو غالباً آپے سے باہر ہو جاتے، حال کھیلتے، سر میں خاک ڈالتے (اپنے) ، کپڑے پھاڑ ڈالتے (اپنے) اور اس کے علاوہ بھی نہ جانے کیا کر بیٹھتے، یعنی ”وصل اُس کا خُدا نصیب کرے، میر، جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ“ ۔

چیف صاحب سے ہماری مبالغہ کی حدوں کو چھوتی ہوئی ارادت مندی کی وجوہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ محبت و عقیدت اُن کے چند لازوال فیصلوں سے پیدا ہوئی، وہ فیصلے جنہیں جہلا متنازع، اور اہلِ بصیرت لافانی قرار دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک تاریخی فیصلہ، ایک سے بڑھ کر ایک نکتہ کُشا اور عالی ظرفی کے غمّاز ریمارکس۔ یوں فیصلے اور ریمارکس آتے چلے گئے اور چیف صاحب اُترتے چلے گئے (ہمارے دل میں ) اور ہماری محبت، عشق میں اور عقیدت، عبادت میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔

ہم جب بھی سمجھے کہ اب یہ کیش مندی کا سفر اپنے منتہا کو چُھو چکا ہے، چیف صاحب نے کوئی اور عالی شان فیصلہ صادر فرما کے ہمیں غلط ثابت کر دیا، اور اسی سلسلے کی فی الحال آخری کڑی ہے اُن کا پی ٹی وی کے سابق چیئرمین عطا الحق قاسمی از خود نوٹس کیس میں تاریخ ساز فیصلہ۔ کوتاہ نظروں کی تنقیص برطرف، اہلِ دانش اس فیصلے پر مدتوں سر دُھنتے رہیں گے۔

سپریم کورٹ نے قاسمی کے بہ طور چیئرمین اور ایم ڈی پی ٹی وی تقرر کو ناجائز قرار دیا ہے کیوں کہ اس میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔ قاسمی کے وکیل کہتے ہیں کہ آج تک پی ٹی وی کا ہر چیئرمین اسی طریقے سے تعینات ہوا ہے جس طرح اُن کا موکل۔ یہ کیا دلیل ہوئی؟ اگر سب چیئرمین اور ایم ڈی غلط تعینات ہوئے ہیں تو اس وقت ثاقب نثار چیف جسٹس تو نہیں تھے، اور اب تو ثاقب نثار ہیں، اب تو قانون کی حکمرانی ہے، اب تو ہر طاقت ور کا احتساب ہو رہا ہے۔

(خُدارا پھر جنرل مشرف کا تذکرہ نہ لے بیٹھیے گا) اور اگر موجودہ چیئرمین پی ٹی وی کو بھی خان حکومت نے اُسی طرح لگایا ہے جیسے قاسمی کو لگایا گیا تھا تو آپ دیکھیے گا یہ بھی نہیں بچ سکے گا، جیسے ہی چیف صاحب کو اس بے قاعدگی کی بھنک پڑی تو گلوٹین کو ایک اور گردن میسرآ جائے گی۔ اور سنیے، قاسمی ٹولہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ اگر تقرر میں بے قاعدگی ہوئی بھی تو اس میں قاسمی صاحب کا کیا قصور ہے، تو اُن سیانوں سے سوال ہے کہ مریم نواز کا کیا قصور تھا؟ اعانتِ جُرم کا مطلب آتا ہے آپ کو؟ بات سیدھی سی ہے، نواز شریف سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ”شریک مجرم“ ہے، لہذا اب ان سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔

قاسمی کے دفاع میں اُن کے حواریوں کے سب دلائل ایسے ہی بودے اور بے سروپا ہیں۔ الزام لگتا ہے کہ عطا الحق قاسمی اس عہدہ کی شرائط پوری نہیں کرتے تھے، جواب آتا ہے وہ پاکستان کے سربرآوردہ ادیبوں میں شامل ہیں۔ یہ کیا جواب ہوا؟ چلیں ہم نے مان لیا، بلکہ ہم اس سے ایک قدم آگے جا کر یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پچھلی نصف صدی کے اردو زبان کے سب سے بڑے فکاہیہ و طنزیہ کالم نویس ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی وی سے ان کا تعلق کئی عشروں پہ محیط ہے اور انہوں نے بہ طور ڈراما نگار ”شب دیگ“ اور ”خواجہ اینڈ سنز“ جیسی مقبول سیریلز لکھیں۔

لیکن بہرحال اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ چیئرمین پی ٹی وی کے عہدہ کی شرائط پوری کرتے تھے، کیونکہ انہیں کسی ادارے کے مالی معاملات چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ (پی ٹی وی کے باوا آدم اسلم اظہر غالباً چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے؟) یہ بھی درست ہے کہ اس اصول کے تحت پچھلے ستّر برسوں میں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی سے احمد فراز اور اشفاق احمد تک درجنوں ادیبوں کا مختلف سرکاری اداروں میں تقرر ناجائز قرار پائے گا۔ بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ ناجائز قرار پائے ”گا“ نہیں، ناجائز قرار پا ”چکا“ ہے، اور ان اصحاب کو بعد از مرگ جرمانے بھی کیے جانے چاہییں۔ کیونکہ قانون کی نظر میں زندہ مردہ سب برابر ہیں، اصول اصول ہیں، اور ثاقب نثار، ثاقب نثار ہیں۔

قانونی نکات سے ذرا ہٹ کے ایک نظر قاسمی کے سیاسی نظریات پہ بھی ڈال لیجیے۔ نواز شریف کے حق میں اُن کا تعصب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور جمھوریت کا راگ الاپتے ہوئے انہوں نے اپنا قلم گِھسا دیا۔ آخر کیوں؟ انہیں آج تک نواز شریف کے علاوہ کوئی حکمران پسند ہی نہیں آیا، آخر کیوں؟ پاکستان میں ہر طرح کا حکمران آیا لیکن جناب اُن میں کیڑے ہی نکالتے رہے۔ یہ سلسلہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے شروع ہوا، اس قدر وجیہہ حکمران جس کے دور کی معاشی ترقی کی گونج آج بھی پی ٹی آئی کے جلسوں میں سنائی دیتی ہے، قاسمی صاحب اسے ”طالع آزما“ ہی سمجھتے اور لکھتے رہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ یحییٰ خان کے دور میں ملک ٹوٹ گیا، لیکن یہ صاحب تو سقوطِ ڈھاکا سے پہلے بھی اُس کے خلاف لکھتے رہے۔ یحییٰ خان نے امتیازی حیثیت سے کاکول اکیڈمی سے تربیت مکمل کی تھی، بہترین سولجر سمجھے جاتے تھے، اور انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھا، تو اُن میں کوئی تو خوبی ہو گی، لیکن قاسمی صاحب کو زندگی بھر ایک فقرہ بھی اُن کے حق میں لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

اکثر دائیں بازو کے صحافی و ادیب جنرل ضیا الحق کو ”مردِ مومن، مردِ حق“ لکھتے رہے، انہیں اسلام کا مجاہد سمجھتے رہے، انہیں مسیحا قرار دیتے رہے، لیکن حرام ہے کہ قاسمی کے منہ سے ضیا کے حق میں ایک توصیفی جملہ بھی نکلا ہو۔ جناب انہیں آئین شکن ہی پکارتے رہے، ”زیاں الحق“ ہی لکھتے رہے۔ پھر ضیا الحق سے الٹ مزاج کا ایک حکمران آیا، لبرلز کی ڈارلنگ، جو جام بہ سر محوِ رقص رہتا تھا، لیکن قاسمی کو وہ بھی پسند نہیں آیا، اُسے بھی آج تک حضرت ”کمانڈو“ اور ”ڈکٹیٹر“ جیسے القابات سے یاد فرماتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا وہ سارے ہی برے تھے؟ جناب نے سب کی ہی مخالفت کی، آخر کیوں؟ قاسمی صاحب آپ کو یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ آج تک آپ کو ایک بھی فوجی حکمران پسند نہیں آیا، اُن میں سے کوئی بھی آپ کے معیار پہ پورا نہیں اُترا؟ آخر کیوں؟ لہذا، یہ کوئی خوبی نہیں ہے، بلکہ عطا الحق قاسمی کا غداری کی سرحدوں کو چُھوتا ہوا تعصب ہے، جس کی سزا مکافات عمل نے سُنا دی ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قاسمی پر پابندی لگائی ہے کہ وہ آ ئندہ بھی کسی سرکاری ادارے کی سربراہی نہیں کر سکیں گے۔ یہ دور اندیشی کی ایک عمدہ مثال ہے، یہ سرکاری کارپوریشنز کے بجٹ خسارہ پر قابو پانے کی سمت ایک فیصلہ کُن جست ہے۔ کاش، عدالت ایک قدم اور آگے جاتی اور عطا الحق قاسمی کے لکھنے پر بھی تاحیات پابندی لگا دیتی کیوں کہ برائی کی اصل جڑ اس آدمی کا قلم ہے۔

ہمیں ہمیشہ اس بات کا دکھ رہے گا کہ آنے والی نسلیں عطا الحق قاسمی کو ”ناجائز چیئرمین پی ٹی وی“ کے طور پہ نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے طنزیہ و مزاحیہ کالم نگار کے طور پہ یاد رکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).