یہ غازی، یہ تیرے فیس بک جہادی


\"aqdasایک زمانہ تھا جب جنگیں زور بازو سے لڑی جاتی تھیں، پھر زمانہ بدلا اور جنگوں کی نئی اقسام آنے لگیں۔ ہم نے کولڈ وار کا سنا، پھر میڈیا وارز ہونے لگیں اور آج کے دور میں جنگ موبائل پر یا پھر لیپ ٹاپ پر ہوتی ہے۔ کسی بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ بنائیے اور لیجئے آپ جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ نہ کوئی اسلحے کی جھنجھٹ، نہ جان کا خطرہ۔ خرچہ کم اور چلے زیادہ۔

زمانہ حاضر کی جنگ پرانی جنگوں سے قدرے مختلف ہے۔ پہلے وقتوں میں یہ جنگ ختم ہونے کے بعد یہ پتا ہوتا تھا کہ جیتا کون اور ہارا کون۔ مگر فیس بک وارز میں یہ اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے کہ فاتح کون ہے اور شکست کس کا مقدر بنی۔ پرانے وقتوں میں جنگیں کئی کئی سال تک جاری رہتی تھیں۔ آج کے دور میں آپ کو میدان جنگ میں بس چند گھنٹے گزارنے ہوتے ہیں اور بس اپنے تئیں ہو گیا دشمن کا صفایا۔ ایک وقت تھا جب جنگ لڑنے کے لیے اسلحہ استعمال کیا جاتا تھا، مارٹر گولے، ٹینک، بندوق، لڑاکا طیارے، جنگی بیڑے، آبدوزیں اور نجانے کیا کیا الم غلم استعمال ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں فیس بک جنگ کے لیے یہ سب ضروری نہیں۔ بس طنزیہ فقرے، دھمکیاں اور ہماری قوم کی پسندیدہ ماں بہن کی گالیاں ہی کافی ہیں۔ اور اگر کوئی زیادہ تنگ کرے تو اس کی فیس بک آئی ڈی ہیک کر لو نہیں تو ایک مصنوئی آئی ڈی بنا لو، کیونکہ ساڈا کی جاندا اے۔

آہ! کتنا آسان ہے ناں فیس بک پر جنگ کرنا اور پھر غازی بن کر لوٹنا۔ میں سلام پیش کرتی ہوں اس یہودی مارک زکر برگ کو، جس نے مومنوں کے لیے جنگ کی راہیں ہموار کردیں، ہمیں اسلام کی اشاعت کا موقع دیا –اب ہم کافروں کا قلعہ قمع کرکے دم لیں گے، کیونکہ جیت ہمارا مستقبل ہے۔

ویسے قارئین کو بتاتی چلوں کہ کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی فیس بک وارز سے نا آشنا تھی۔ فیس بک تو کئی سالوں سے استعمال کر رہی ہوں مگر کبھی کسی بحث میں حصہ نہیں لیا، نہ ہی اپنی وال پر کبھی کوئی ایسی پوسٹ لگائی جس سے کسی بھی قسم کے فساد کا اندیشہ ہو۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے لکھنا شروع کیا اور اردو زبان کو اپنایا۔ صحافت کی طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ جانتی تھی کہ انگریزی زبان کے اخبارات اور بلاگ زیادہ تر ایک مخصوص طبقے کے افراد پڑھتے ہیں۔ لہٰذا اگر عام آدمی کی بات کرنی ہے اور عام آدمی سے کرنی ہے تو اردو زبان میں لکھنا ہو گا۔ جب سے لکھنا شروع کیا تو دوسرے لکھاریوں کی تحریریں اور کمنٹس بھی پڑھنا شروع کیے۔ زیادہ تر تحریروں اور کمنٹس میں مجھے شدت پسندی کا عنصر نظر آیا۔ لوگ ایک دوسرے کی بات پر غور کرنے اور سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کی نفی کرنے اور جھٹلانے میں مصروف ہیں۔ کوئی مولوی پوسٹ کرے تو لبرل پیچھے پڑ جاتے، لبرل کوئی پوسٹ کرے تو مولوی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اور کوئی متوازن سوچ رکھنے والا کچھ لکھ دے تو دونوں مل کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

کچھ دن پہلے میں نے \”ش\”سے شیرانی اور\”ش\” سے شلوار ایک تحریر لکھی۔ کچھ فیس بک جہادیوں نے بنا پڑھے ہی یہ اندازہ لگا لیا کہ اس میں مولانا شیرانی کی شان میں گستاخی کی گئی ہو گی۔ لہذا مجھے گالیاں دینا لوگوں نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا۔ یہ لوگ گالی دے سکتے ہیں، دے لیں۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ \” کاواں دے آکھے ڈھور نہیں مردے\”(کوؤں کے کہے کہار نہیں مرتے)، تو ان کی گالیوں سے کوئی مر نہیں جائے گا۔ مگر میں ان سے صرف یہ گزارش کروں گی کہ کسی پر کوئی مہر لگانے سے پہلے اس کی بات کو سمجھ لیں۔ یہی سلوک حمزہ علی عباسی کے ساتھ بھی کیا گیا۔ مانا کہ موقع نہیں تھا، مانا کہ وہ ریٹنگ لینا چاہتا تھا، مگر پھر بھی اس کی بات کو سمجھے بنا، اس پر کفر کا فتوی لگانا، اس کے قتل پر اکسانا کہاں کا انصاف ہے؟

شاید ہم لوگ بغض اور عناد سے بھرے ہوئے ہیں، نہ جانے کتنی نفرت اور غصہ دبائے ہوئے ہیں۔ لیکن تہذیب و تمدن کا ملمع چڑھائے ہم جیے جا رہے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں بھی کئی مواقع پر ہمیں کسی کی رائے سے اختلاف ہوتا ہے، کسی کو گالی دینے کا جی چاہتا ہے، مگر اپنی حسرت کو اندر ہی دبا لیتے ہیں۔ آخر تہذیب یافتہ جو ہوئے۔ پر یہ سارا غصہ، نفرت اور عناد فیس بک یا کسی اور ویب سائٹ پر جا کر انڈیل دیتے ہیں، کیونکہ حقیقی زندگی میں نہ سہی، مگر فیس بک کی مصنوعی دنیا میں تو اپنی اجارہ داری ہے۔ یہاں نہ اخلاقیات کا ڈنڈا ہے اور نہ ہی تہذیب کا گھوڑا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اہل مذہب جن سے توقع ہوتی ہے کہ وہ کردار اور گفتار کے غازی ہوں گے، وہ بھی ملمع اترنے پر خالی خولی فیس بک کے غازی نکلتے ہیں۔

 ہمارے فیس بک جہادی مکالمہ پسند نہیں کرتے، بس بحث برائے بحث پر یقین رکھتے ہیں۔ جیسے ہی دیکھیں گے کہ ان کی بات میں کوئی دلیل یا منطق نہیں اور دوسرا شخص مدلل گفتگو کر رہا ہے، لمحوں میں یہ گالم گلوچ اور دھمکیوں پر اتر آئیں گے۔ ان جہادیوں کے علاوہ ایک اور برگیڈ بھی فیس بک پر پائی جاتی ہے جو مذہبی  تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی کردار کشی کرتی ہیں، جو کہ کسی بھی مسلمان کے لیے قابل برداشت نہیں۔ میں آزادی رائے پر یقین رکھتی ہوں مگر ساتھ ہی ساتھ معاشرتی سکون اور امن کو قائم رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے حقوق تو یاد رہتے ہیں، مگر اپنے فرائض یاد نہیں رہتے۔ اس معاشرے میں اگر مذہب بیزار طبقہ اپنی جگہ چاہتا ہے تو ان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب پرستوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور سستی شہرت کے لیے مذہب کا مذاق اڑانا، یا کسی بھی قسم کی گفتگو، جو دل آزاری کا باعث بنے، اس سے گریز کریں۔ اسی طرح میرے جہادی بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ گالم گلوچ آپﷺ کا شعار نہیں تھا، اور نہ ہی اسلام آپ کو اس کا درس دیتا ہے، لہٰذا اپنے اندر کا غصہ اسلام کے نام پر مت نکالا کریں۔ اگر گالی دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو آئینے کا استعمال کریں۔

تاریخ ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو دہکتے کوئلوں پر لٹایا گیا، منصور کو سولی پر چڑھایا گیا، امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ پر کوڑے برسائے گئے مگر پھر بھی انہوں نے کلمہ حق ادا کیا تو آپ لوگ بھی گالی دے کر یا فتوے لگا کر کسی کو خاموش نہیں کروا سکتے۔ بقول جالب

ظلمت کو ضیاء،صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

ہمارا معاشرہ جہاں انتہا پسندی عروج پر ہے، ہم سب کو تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیے۔ اگر کوئی سوال اٹھا رہا ہے تو دلیل سے اس کا جواب دیں نہ کہ غلیل سے۔ اور آپ یہ بھی سوچیں کہ مرنے کے بعد آپ فیس بک پر کیا اثاثہ چھوڑ کر جائیں گے؟ چند گالیاں، کئی لاحاصل بحثیں،کچھ فتوے اور دھمکیاں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments