ایک ٹیلی گرام کی کہانی جس کے جواب کا آج بھی انتظار ہے


صرف چند دہائیوں پہلے تک سب سے موثر کہلانے والے ٹیلی گرام اور ٹیلیکس جیسے پیغام رسانی کے ذرائع اب دنیا سے مفقود ہو چکے ہیں لیکن ہم آپ کو آج ایک ٹیلی گرام کی کہانی سناتے ہیں جس کے جواب کا ستر سالوں سے انتظار ہے۔ یہ ٹیلی گرام گلگت سے برطانوی فوج کے آفیسر میجر الیگزنڈر براؤن نے دنیا کے نقشے پر نئے وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے حکام کو ”ارجنٹ“ کی تاکید کے ساتھ یکم نومبر 1947 ءکو بھیجا تھا مگر جواب تک نہیں آیا۔

ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اب حقائق کی تلاش بھی مشکل ہوگئی ہے۔ گورداس پور، رن آف کچھ، حیدر آباد اور کشمیر پر سازشی کہانیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ تاریخ نویسی کے نام پر داستان فروش ان کہانیوں میں صلاح الدین ایوبی کی صلیبی جنگوں میں کشور کشائی کے انتقام سے لے کر لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو پر نظر التفات کا مسالہ لگا کر بیچتے ہیں اور پڑھنے والے حسب ذائقہ تاریخ فہمی کا چورن منہ میں رکھ کر حظ اٹھاتے ہیں۔

بٹوارے کی سیاست کا ہندوستان کی دو بڑی ریاستوں بنگال اور پنجاب پر مرکوز ہونا اس لئے بھی امر مجبوری تھا کہ اصل میں تقسیم ہی ان دو ریاستوں کی تھا وگرنہ ہندوستان کبھی ایک ملک تھا ہی نہیں۔ ریڈ کلف کمیشن نے پنجاب اور بنگال کی ریاستوں کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کرکے جو خط کھینچا آج بین الاقوامی سرحد کہلاتا ہے۔ ریڈ کلف سمیت تقسیم ہند کے سارے برطانوی حکومت کے فیصلے سیاسی تھے جبکہ تقسیم ہندوستان کے دفاعی اور عسکری پہلوؤں پر ان کے فوجی افسران کا اپنا نکتہ نظر تھا جو دہلی اور لاہور میں بیٹھے سویلین حکام سے بعض معاملات میں مختلف بھی تھا۔

انگریز فوج کے جنرل سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی جو بعد میں پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف بھی مقرر ہوئے، پشاور کمانڈ کے انچارج تھے۔ ان کے ذہن میں کشمیر کی جو اہمیت تھی وہ شاید ہندوستان کے نئے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نزدیک نہیں تھی۔ ماؤنٹ بیٹن کی نظر میں کشمیر بھی ہندوستان کی دیگر نیم خود مختار ریاستوں کی طرح ایک ریاست تھی جس کے عوام کی اکثریت کا تعلق اس کے ڈوگرہ حکمران کے عقیدے یا مذہب سے نہیں تھا۔ جنرل گریسی اور عسکری قیادت سمجھتی تھی کہ اگرکشمیر کے مہاراجہ نے تقسیم ہند کے مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین متفقہ اصولوں کے مطابق اپنا فیصلہ ہندوستان کے حق میں دیا تو اس کے مضمرات روس کے ساتھ چلنے والی سرد جنگ کی برطانوی حکمت عملی پر کیا ہو سکتے ہیں۔

مہاراجہ کشمیر کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق اس لئے بھی نہیں کرے گا کہ ان کے اپنے تعلقات کشمیری راہنما شیخ عبداللہ کے ساتھ کشیدہ تھے جو پنڈت جواہر لال نہرو کی نہ صرف برادری سے تعلق رکھتے تھے بلکہ شوشلسٹ نظریات سے متاثر یہ دونوں راہنما انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوستان میں جاگیرداری اور شخصی حکمرانی کے نظام کے خاتمے پر بھی متفق تھے۔

ان حالات میں اپنی ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنا مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی اولین ترجیح تھی۔ آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے میں ناکامی کی صورت میں مہاراجہ کشمیر کے لئے نوابوں اور جاگیرداروں کے ساتھ مفاہمت والے ملک پاکستان کے ساتھ الحاق ہی زیادہ سود مند تھا۔ لیکن جموں و کشمیر میں اگست اور اکتوبر 1947 ء کے بیچ رونما ہونے والے واقعات نے مہاراجہ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے ناپسندیدہ فیصلے پر مجبور کیا جس کے مضمرات مستقبل کے ہندوستان سے متعلق برطانوی عسکری حکمت عملی پر مختلف تھے۔

پشاور میں بیٹھے جنرل گریسی نے مہاراجہ کشمیر کے تینوں متوقع فیصلوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی ترتیب دی تھی۔ گلگت ایجنسی اور محلقہ علاقے جن کی سرحدیں روس کی سرحد کے ساتھ واخان کی پٹی اور چین سے ملتی تھیں ان علاقوں کو چند سال پہلے انگریزوں نے مہاراجہ کشمیر سے پٹے پر لیا تھا اب پھر واپس لوٹانا تھا۔ ان علاقوں کے ہندوستان کے ساتھ مل جانے سے دہلی اور ماسکو کا زمینی رابطہ انگریز عسکری قیادت کی نظر میں امن عالم کے لئے خطرہ تھا جس کا تدارک ناگزیر تھا۔

جنرل گریسی نے قبائلی علاقوں میں پہلے پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیے آفیسر الیگزنڈر براؤن کو گلگت سکاؤٹس کی کمان سونپ کر روانہ کردیا تاکہ وہ پندرہ اگست 1947 کو اس علاقے کی ڈوگروں کو واپسی کے بعد سکاؤٹس کی قیادت سنبھال سکے۔ گلگت سکاؤٹس مختلف علاقوں کے راجوں کی قیادت میں ایک مقامی فورس تھی جو براہ راست انگریز کمان کے ماتحت تھی جس کا مہاراجہ کشمیر کی ریاست اور فوج سے تعلق نہیں تھا۔

گلگت میں 15 اگست سے 25 اکتوبر تک کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ما سوائے اس بات کے کہ مقامی گلگت سکاؤٹس کو اپنے نئے حکمرانوں کی مبہم پالیسی پر تشویش تھی کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ان کی مراعات برقرار رہ سکیں گی یا نہیں۔ اس بارے میں گلگت سکاؤٹس کی مقامی قیادت اور ڈوگرہ سرکار کے گورنر گھنسارا سنگھ کے درمیان کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن سری نگر اور جموں میں افرا تفری اور بد انتظامی کی وجہ سے گلگت سکاؤٹس کی تشویش پر کوئی اطمینان بخش جواب موصول نہ ہوسکا یا گلگت سے جموں بھیجے جانے والے ٹیلی گرام کے پیغامات بوجوہ ترسیل ہی نہ ہوسکے تھے۔

26 اکتوبر 1947 ء کو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی گلگت سکاؤٹس اور ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کے درمیان ہونے والی گفت شنید کی تلخی میں اضافہ ہوا۔ اس علاقے میں کسی قسم کے مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی میں عام لوگ تو سری نگر اور جموں کے حالات و واقعات سے بے خبر مگر انگریز کمانڈنٹ میجر براؤن ہر روز آنے والی تبدیلی سے ریڈیو اور ریڈیائی مواصلاتی نظام کے ذریعے با خبر تھا۔

یکم نومبر 1947 ء کی صبح گلگت سکاؤٹس کے ایک دستے نے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا اور ریاست کشمیر سے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ اس دوران گلگت سے چند کلو میٹر جنوب میں بونجی میں مقیم ریاست جموں و کشمیر کے فوج کی 6 رجمنٹ میں ایک کامیاب بغاوت کے بعد چھاونی اور اسلحہ کے ڈپو پر قبضہ حاصل کرنے والے کپتان حسن خان اپنے ساتھیوں سمیت گلگت پہنچا اور گلگت سکاؤٹس کی مقامی قیادت سے آن ملا۔

ڈوگروں سے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد امور ریاست کی نگرانی کے لئے ایک انقلابی کونسل تشکیل دی گئی جس کی صدارت گلگت کے راجہ شاہ رئیس خان نے کی اور فوجی کمان نوجوان حسن خان نے سنبھالی۔ چونکہ ڈوگروں سے آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے گلگت سے کشمیر کو ملانے ولے استور کے راستے کو محفوظ بنانا لازمی تھا اس لئے نوجوان حسن خان گلگت سکا ؤٹس کی نفری کو لے کر اس مشن پر روانہ ہوئے اور سری نگر کے نزدیک بانڈی پورہ تک پہنچ گئے۔

گلگت میں موجود انگریز فوجی آفیسر میجر براؤن نے اپنی حکمت عملی کے تیسرے حصے پر عمل کرتے ہوئے ہنزہ، نگر، پونیال، یاسین، گوپس اور اشکومن کے راجوں سے اپنے علاقوں کی نئے وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویزات حاصل کیں اور حکومت پاکستان کو اس خطے کے فوری الحاق کے لئے ایک ٹیلی گرام بھیجا۔ 16 نومبر 1947 ء کو پاکستان سے ایک تحصیلدارمحمد عالم خان نے گلگت آکر ڈوگروں سے نوآزاد اس علاقے کے انتظامی امور سنبھال لئے لیکن الحاق کے لئے دیے جانے والے اس ٹیلی گرام کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے۔ اب شاید جواب آ بھی نہ سکے کیونکہ ٹیلی گرام اور ٹیلیکس کی مشینیں بھی ناپید ہوکر شاذ و نادر ہی کسی عجائب گھر میں ملتی ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan