اگر شاعر صرف پانچ ہیں تو جون ایلیا کا کیا ہو گا؟


انھوں نے میرا قلم لیا اور کورے کاغذ پر ایک لکیر کھینچنا شروع کی۔ لکیر خاکے میں ڈھلی، خاکہ تصویر میں۔ کمال یہ ہوا کہ قلم نے کاغذ نہیں چھوڑا۔ ان کے ایک اسٹروک سے کاغذی پیرہن والی حسینہ کا ظہور ہوا۔ میں حیرت سے یہ کمال دیکھتا رہا۔

’’سیکڑوں نہیں، ہزاروں تصویریں بنائیں۔ قلم کو کاغذ سے اٹھائے بغیر تصویر مکمل کرتا۔ میں اس فن کا موجد تھا۔‘‘ فن کار نے دعویٰ کیا، ’’پھر ایک دن اسی سڑک پر، جہاں چائے خانے میں ہم بیٹھے ہیں، ایک لڑکی دکھائی دی۔ ایسا حسن میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے چہرے سے نور پھوٹ رہا تھا۔ میں نے وہ تصویر کاغذ پر بنانا چاہی۔ کئی ہفتے کوشش کرتا رہا۔ وہ چہرہ بھولتا نہیں تھا۔ لیکن کاغذ پر اترتا بھی نہیں تھا۔ اسی عالم میں یہ شعر کہا،

کیا حسن ہے، چہرے سے نکلتی ہیں شعائیں

بینائی چلی جائے اگر آنکھ ہٹائیں

اس کے بعد مصوری چھوڑ دی۔ شاعری شروع کردی۔‘‘

میر احمد نوید نے اس سے پہلے یہ قصہ نہیں سنایا تھا۔ نہ یوں تصویر بنا کر دکھائی تھی۔ میں انھیں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ لیکن جب سے جانتا ہوں، وہ شاعر ہی تھے۔

1993 کی بات ہے، وہ میرے محلے میں کسی گلی سے گزر رہے تھے۔ میں دوستوں کے حلقے میں کھڑا تھا۔ کرکٹ پر تبصرے جاری تھے۔ ایک دوست احمد نوید کے واقف تھے۔ سلام دعا کے بعد گفتگو شروع ہوگئی۔ ابھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ گفتگو کے بیچ میں احمد نوید نے غالب کا ایک مصرع پڑھا۔ وہ کچھ ہکلائے تو میں نے شعر مکمل کردیا۔ احمد نوید بہت خوش ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں ان کی نئی کتاب تھی، ’’ایسی خلوت ہے کہاں۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’کتاب بازار میں آنے میں دیر ہے۔ مجھے پہلی کاپی ملی ہے لیکن یہ تم لے لو۔ تم غالب کو پڑھتے ہو، یہ تمھارا تحفہ ہے۔‘‘

تئیس سال بعد کل میں نے وہ کتاب احمد نوید کو دکھائی۔ وہ ششدر رہ گئے۔ پھر میں نے اپنے بستے سے مزید دس کتابیں نکالیں۔ وہ سب احمد نوید کے مجموعہ ہائے کلام تھے۔ وہ کچھ دیر کو گنگ ہوگئے۔ پھر انھوں نے ہر آںے جانے والے کو روک روک کر بتانا شروع کردیا، ’’دیکھو، یہ شخص میری جوانی اٹھا لایا ہے، میری زندگی اٹھا لایا ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’نوید بھائی! باتیں بعد میں، پہلے ان سب پر دستخط کریں۔‘‘

انھوں نے دستخط کرنا شروع کیے۔ میں نے یاد دلایا کہ تئیس سال پہلے میں نے پہلی بار ان کی شاعری پڑھ کر کیا تبصرہ کیا تھا، ’’آُپ نوحے اور مرثیے کہتے ہیں یعنی مذہبی شاعری کرتے ہیں۔ لیکن غزل میں تشکیک کا سا اظہار ہے۔‘‘

خدا نہیں کہ خدا ہے، مجھے نہیں معلوم

کہاں تلک یہ خلا ہے، مجھے نہیں معلوم

جس کی طلب میں عمر بسر ہو مگر نہ ہو

اچھا ہے گر وہ ہے، بہت اچھا ہے گر نہ ہو

احمد نوید دستخط کرتے کرتے رکے۔ انھوں نے حضرت علی کا قول سنایا، ’’شبہ حق ہے۔ عالم کو خدا کی طرف لے جاتا ہے، جاہل کو گمراہی کی طرف۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’مولا علی نے یہ نہیں کہا کہ شبہ راستہ ہے، انھوں نے کہا، شبہ حق ہے۔ اس لیے شک کرنے یا سوال اٹھانے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ طالب علم کو تلاش ہمیشہ حق کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘

میں نہیں جانتا کہ احمد نوید نے پہلا نوحہ کب لکھا۔ لیکن ان کی شہرت تب ہوئی جب انجمن فدائے اہل بیت کے نوحہ خواں قمر نے ان کا نوحہ ’’لاشہ میرے بھائی کا عریاں ہے سر مقتل‘‘ پڑھا۔ وہ نوحہ قمر کو کیسے ملا، یہ دلچسپ واقعہ ہے۔ ان دنوں نعیم عباس روفی ایک ماتمی انجمن کے نوحہ خواں تھے۔ ان کی آواز غضب کی ہے اس لیے ایک دنیا ان کی دیوانی تھی۔ اچھے سے اچھا شاعر اچھے سے اچھا کلام انھیں دیتا تھا۔ احمد نوید نے شاید زندگی کا پہلا نوحہ روفی کو پیش کیا اور اس کی طرز بھی بتائی۔ روفی نے وہ کلام کسی اور طرز سے پڑھنے کی کوشش کی۔ احمد نوید خفا ہوگئے۔ انھوں نے روفی سے پرچہ چھین لیا اور اپنی دھن میں چلے۔ اتفاق سے اس انجمن کے دفتر کے بالکل ساتھ والا گھر قمر کا تھا۔ وہ کسی کام سے باہر نکلے تو احمد نوید نے پرچہ انھیں تھما دیا۔ وہ نوحہ بیس سال بعد بھی کم از کم کراچی کی حد تک بہت مقبول ہے۔

بہت عرصہ پہلے ایک دن میں نے احمد نوید کے سامنے ایک نام لیا اور کہا کہ وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ انھوں نے سوالیہ لہجہ اختیار کیا، اور مجھے ان کے الفاظ یاد ہیں، ’’ہو از شی؟‘‘ مجھے یہ بات بری لگی۔ انھوں نے کہا، ’’میاں دیکھو، شاعر صرف پانچ ہیں۔ انیس، میر، غالب، اقبال۔‘‘

میں نے چونک کر پوچھا، ’’اور پانچواں؟‘‘ انھوں نے کہا، ’’اور پانچواں میر احمد نوید!‘‘

میں نے کل کی ملاقات میں کہا، ’’جون ایلیا اور طرح کے شاعر تھے، آپ اور طرح کے ہیں۔ لیکن کہیں کہیں دونوں کا رنگ ایک جیسا ہوجاتا ہے۔

حاصل کن ہے یہ جہان خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

(جون ایلیا)

اب نظر آ کہ تھک رہا ہوں میں

کب سے آئینہ تک رہا ہوں میں

یہ بھی کیا سوچنا پردہ ہو کہ پردہ ہی نہ ہو

کیا تماشا ہو اگر دیکھنے والا ہی نہ ہو

(احمد نوید)

وہ ہنسے۔ کہنے لگے، ’’جون ایلیا سے زیادہ نہیں، آٹھ دس ملاقاتیں ہوئیں۔ ہاں وہ بڑے شاعر تھے۔‘‘ مجھے ایک جھٹکا لگا۔ ’’نوید بھائی؟ کیا پانچ شاعروں کی سنگت میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا؟‘‘ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن ایک غزل سنائی، جو بقول ان کے، ابھی تک کہیں چھپی نہیں ہے۔

الٹا سیدھا کہا سنا، لیکن

تیری حجت کا ہر سرا، لیکن

ممکن و ’’گویا‘‘، ’’شاید‘‘ و ’’یعنی‘‘

یا ‘‘گماں‘‘ یا قیاس یا ’’لیکن‘‘

اور تیرا جواب کیا؟ امکاں

اور تیرا سوال کیا؟ لیکن

ویکن آیا مگر نہ تیرے ہاتھ

تیرے اندر الجھ گیا لیکن

وائے حسرت تجھے انساں نہ ملا

مجھ کو انسان مل گیا لیکن

تیرے اندر ہی تھی دلیلِ دلیل

تُو ہی خود سے نہیں ملا لیکن

ہوگیا ہو کے لا جواب خموش

مطمئن تو نہیں ہوا لیکن

ایک تھا جون ایلیا شاعر

ہے غضب، وہ بھی مر گیا لیکن

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments