کیا عورتیں واقعی بری ڈرائیور ہوتی ہیں؟


ویک اینڈ بہت مصروف گزرا۔ جمعے کے دن کلینک کے بعد کومانچی میموریل کے فیملی میڈیسن کے ریزیڈنٹس کو کیلشیم کے زیادہ ہوجانے کی بیماری پر لیکچر دینا تھا۔ کیلشیم کا نارمل دائرے میں ‌ ہونا بہت اہم ہے۔ اس کے زیادہ یا کم ہوجانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کیلشیم کے زیادہ ہونے یا کم ہونے کی وجوہات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ‌ اور ان کا علاج بھی اسی لحاظ سے مختلف ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اتوار کو یونیٹیرین کانگریگیشن میں ‌ بھاشن دینے کی میری باری تھی۔

میں ‌ نے ویکیسن لگانے کی ضرورت پر بات کی۔ پچھلے دو مضامین ویکسین سے متعلق تھے جن کے بارے میں ‌ لوگوں ‌ نے کچھ سوال بھیجے ہیں۔ ان میں ‌ سے ذیابیطس کے مریضوں ‌ میں ‌ کون سی ویکسینوں کی ضرورت ہے اہم ہے۔ بہت سارے ادھورے مضمون جمع ہوگئے ہیں۔ اب ان کو باری باری مکمل کرنے کی کوشش کروں ‌ گی۔ آج کا مضمون ڈرائیونگ سے متعلق ہے۔

آپ فلاں ‌ جمعے کیا کررہی ہیں؟ مجھ سے کسی نے سوال کیا۔
ٹھہرو ذرا کیلینڈر دیکھوں۔ کلینک ہوگا پھر میں ‌ فارغ ہوں۔

کیا آپ مجھے ڈرائیونگ سینٹر ٹیسٹ کے لیے لے جائیں گی؟
ہاں ‌ ضرور۔

اوکلاہوما میں ‌ ڈرائیونگ ٹیسٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک تھیوری اور ایک پریکٹیکل۔ تھیوری پاس کرلینا نسبتاً آسان ہے اور پریکٹیکل ذرا مشکل ہے۔ پریکٹیکل میں ‌ بال کی کھال اتارتے ہیں۔

وہ اوکلاہوما یونیورسٹی کے ہسپتال میں ‌ ایک نئی میڈیکل ریزیڈنٹ تھی اور ابھی کچھ مہینے پہلے ہی پاکستان سے آ کر ریزیڈنسی شروع کی تھی۔ لیکن اس جمعے کے آنے سے پہلے ہی اس نے اپنی گاڑی خرید لی تھی۔ پھر بھی میں ‌ نے ہفتے کے دن اس سے پوچھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا؟ اس نے کئی گھنٹے کے بعد جواب دیا کہ وہ ڈرائیونگ ٹیسٹ میں ‌ فیل ہوگئی۔ میں ‌ اس بات کی توقع نہیں ‌ کررہی تھی۔ میرا بیٹا نوید جب ڈرائیونگ ٹٰسٹ میں ‌ فیل ہوگیا تھا تو وہ اپنے کمرے میں ‌ گھنٹوں ‌ روتا رہا۔ فیل ہوجانا بچوں ‌ کے لیے بہت صدمے کی بات ہوتی ہے۔ صرف بچوں ‌ کے لیے ہی کیا، کوئی بھی ناکام ہوجانا پسند نہیں ‌ کرتا۔

کچھ دیر بعد میں نے جواب دیا۔ ہاں میں ‌ بھی تین بار ڈرائیونگ ٹیسٹ میں ‌ فیل ہوگئی تھی جو کہ ایک سچ ہے۔ کم بخت ٹلسا اوکلاہوما کے ڈرائیونگ لائسنس والے ذرا ذرا سی بات پر فیل کردیتے تھے۔ آپ نے بایاں ‌ ٹرن ٹھیک نہیں لیا، اگر کوئی گاڑی ہوتی تو اس کو ٹکر لگ جاتی۔ ہاں ‌ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ہم تو خالی سڑکوں پر گاڑی چلا رہے ‌ ہیں۔ مگر نہ بھئی۔ اور دوسرا مسئلہ تھا پیرالل پارکنگ کا، جو مجھے بہت مشکل سے آئی۔ آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ ٹلسا سے باہر ایک چھوٹا شہر ہے جہاں ‌ کے ٹیسٹ لینے والے اتنے ”سڑو“ نہیں ‌ ہیں تو میں ‌ وہاں ‌ گئی اور انہوں نے مجھے پاس کردیا۔ ایک بار پاس کرلیں ‌ تو اس کے بعد بس رینیو کرانا ہوتا ہے۔

انٹرنیٹ پر ایسی وڈیوز گردش کرتی رہتی ہیں جن میں ‌ خواتین کی ڈرائیونگ کا مذاق بنایا جارہا ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں ‌ کہ خواتین بری ڈرائیور ہیں یا وہ ڈرائیونگ میں ‌ دلچسپی نہیں ‌ رکھتیں۔ ان کو ٹریفک پولیس زیادہ روکتی ہے اور وہ فلرٹ کرکے چالان سے بچ جاتی ہیں یا ان کی توجہ بٹی ہونے سے حادثے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان باتوں ‌ میں ‌ کس قدر سچائی ہے؟

تاریخ‌ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سائنسی ترقی سے جیسے ہی تیز رفتاری سے سفر ممکن ہوا، خواتین کو ان سواریوں ‌ کے استعمال سے ہر لحاظ سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، جب بائسکل نئی ایجاد ہوئی تو بائسکل چلانے والی خواتین میں ‌ ایک خیالی بیماری ایجاد کی گئی جس کو بائسیکل فیس کہتے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ خواتین کے بائسکل چلانے سے ان کا منہ عجیب طریقے سے نکل آتا ہے جس سے بچاؤ کے لیے ان کو سائکل چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔

سعودی عرب میں ‌ حال ہی میں ‌ خواتین میں ‌ گاڑی چلانے پر پابندی ختم کردی گئی۔ سعودی عرب میں بہت سارے ایسے بالکل غلط خیالات گردش میں ‌ ہیں جن سے خواتین کے حقوق کی پامالی میں ‌ مدد ملے۔ یہ بات بھی عام ہے کہ سائنسی یا مذہبی خیالات کو استعمال کرکے خواتین کو کم تر ثابت کیا جائے۔ کوئی سو سال پہلے تک سائنسدانوں ‌ کا خیال تھا کہ خواتین کو تعلیم حاصل نہیں ‌ کرنی چاہیے۔ اگر وہ اپنا دماغ استعمال کریں ‌ گی تو خون کے بہاؤ کا رخ بچہ دانی سے دماغ کی طرف ہوجائے گا اور وہ بانجھ ہوجائیں گی۔

یورپ اور امریکہ میں ‌ کار کی انشورنس ایک بڑا بزنس ہے۔ بہت ساری بڑی کمپنیاں ‌ ایک دوسرے سے مقابلے میں ‌ ہیں۔ یہ کمپنیاں ‌ لوگوں ‌ کے ذاتی خیالات سے زیادہ ریسرچ پر مبنی ڈیٹا پر زیادہ انحصار کرتی ہیں کیونکہ ان کا منافع اس معلومات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس ریسرچ سے یہ بات واضح ہے کہ خواتین احتیاط سے گاڑی چلاتی ہیں، ان کے حادثات کم ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی کار انشورنس کی فیس بھی کم ہوتی ہے۔

یہ بھی ایک عام خیال ہے کہ خواتین کو کچھ معلوم نہیں کہ گاڑی کیسے خریدنی ہے یا ان کو مہنگی بیچی جائے گی، ان کو اپنی گاڑی کا خیال رکھنا نہیں آئے گا۔ حالانکہ ان باتوں کا صنف سے کوئی تعلق نہیں ‌ ہے۔ میری بیٹی ہائی اسکول میں ‌ صبح کلاسیں شروع ہونے سے پہلے ایک کلاس لے رہی تھی جس کے لیے مجھے بہت صبح اٹھ کر اس کو کلینک جانے سے پہلے لے جانا ہوتا تھا۔ میں ‌ اتنی صبح سویرے، بغیر دانت صاف کیے، سونے والے پجامے میں ‌ پولیس والوں اور دوسرے والدین کی گاڑیوں ‌ کو ڈاج دے کر اس کو اسکول چھوڑنے کے لیے جیمز بانڈ کی طرح‌ گاڑی چلاتے ہوئے تنگ آچکی تھی۔ جیسے ہی اس کی عمر قانون کے دائرے میں ‌ آئی اور اس نے ڈرائیونگ لائسنس لے لیا تو اس کو اپنی پرانی گاڑی دے کر خود جا کر نئی ہانڈا اکورڈ خرید لی۔ وہ مجھے بھی اتنے ہی پیسوں ‌ میں ‌ ملی جتنی کہ اور لوگوں کو۔ اس سے میری زندگی میں ‌ بہت سکون ہوگیا۔

کچھ دیر کے بعد میں ‌ نے میڈیکل ریزیڈنٹ کو ایک اور ٹیکسٹ کیا کہ دیکھو میں ‌ نے فلسفے کے ٹیچر کو بتایا تو انہوں ‌نے کہا کہ وہ بھی تین دفعہ ڈرائیونگ ٹیسٹ میں ‌ فیل ہوگئے تھے تو اس نے جواب دیا کہ ”ہا ہا اب میں ‌ بہتر محسوس کررہی ہوں۔ “ حالانکہ اس نے پہلے یہ بالکل ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ غمزدہ تھی۔

ناکامی کا سامنا کرنا زندگی میں ‌ بہت اہم ہے۔ ایڈیسن نے بلب بنانے کے لیے سینکڑوں ‌ مرتبہ تجربات کیے۔ ہر ناکام تجربے کے بعد وہ یہی کہتے تھے کہ اس تجربے سے میں ‌ نے یہ سیکھا کہ اس طرح‌ بلب نہیں ‌ بنے گا۔ جب کوئی کسی چیز میں ‌ فیل ہوجائے یا کسی کو کوئی مشکل پیش آئے تو ان پر مزید تنقید کرنے یا مفت مشورے دینا شروع کرنے سے ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ صنفی تعصب سے انسانیت کی بھلائی ممکن نہیں ‌ ہے۔ کبھی کبھار لوگوں ‌ کو آپ کے مشوروں کی نہیں ‌ بلکہ صرف آپ کی ہمدردی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).