امریکی افسانہ بٹن بٹن اور ہمارے خواب


’بٹن بٹن‘ امریکی مصنف رچرڈ میتھیسن کے قلم سے لکھا گیا ایک شاہکار افسانہ ہے جو کہ نچلے متوسط طبقے کے طرزِ زندگی اور اس کی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار ایک میاں بیوی ہیں جو کہ اپنے طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ نارما اور اس کا شوہر آرتھر ایک دن اپنے کام سے واپس گھر آتے ہیں تو دروازے کے سامنے ایک چھوٹا سا ڈبہ پڑا ہوتا ہے۔ نارما جھٹ سے اسے اٹھا لیتی ہے۔ ڈبے کے ساتھ ایک کاغذ کا ٹکڑا جڑا ہوتا ہے جس پہ یہ پیغام درج ہے کہ سٹیورڈ نامی شخص شام کو ان سے ملنے آئے گا۔

مقررہ وقت پہ دروازے کی گھنٹی بجتی ہے اور نارما لپک کے جاتی ہے۔ مہمان کو کمرے میں بٹھایا جاتا ہے اور اس کے آنے کا مقصد دریافت کیا جاتا ہے۔ جس پر وہ برجستگی سے جواب دیتا ہے کہ وہ ان کے لئے ایک بڑی زبردست پیشکش لے کے آیا ہے۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ انہیں صرف ایک بٹن دبانا ہو گا اور ایسا کرتے ہی ایک ایسے بندے کی موت واقع ہو جائے گی جسے وہ جانتے تک نہیں ہوں گے اور اس کے عوض انہیں پچاس ہزار ڈالر ملیں گے۔

یہ سنتے ہی نارما کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں اور اس کے اندر مدتوں سے دبی ہوئی خواہشات سر اٹھاتی ہیں۔ آرتھر کا رویہ اپنی بیوی کے بر عکس ہے اور وہ کسی بھی انسان کی جان لینے کو ایک سنگین جرم سمجھتا ہے۔ نارما اسے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور ایسا کرنے کے لئے وہ سب سے بڑی دلیل یہ دیتی ہے کہ یہ بٹن دبانے سے ان کے مدتوں کے ارمان پورے ہو جائیں گے۔ وہ ایک بڑا گھر بنا پائیں گے، ایک بہترین قسم کی گاڑی خرید لیں گے، سارے یورپ کا تفریحی دورہ کریں گے اور ایک پر تعیش زندگی گزاریں گے۔ آرتھر کے بار بار منع کرنے کے باوجود نارما باز نہیں آتی اور یہ گھناؤنا کام کر ڈالتی ہے۔ اسے اپنے لالچ کی قیمت اپنے شوہر کی موت کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔

درحقیقت نارما کا کردار انسان کی نہ ختم ہونے والی خواہشات کی نمائندگی کرتا ہے۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کے نزدیک مادی ترقی ہی زندگی کا اعلٰی ترین مقصد ہے۔ اس دور کے انسان نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خوشیاں مادی چیزوں کے حصول اور دولت کے انبار لگانے سے ہی ممکن ہیں۔ انسان کی پہچان یہ نہیں رہی کہ وہ خود کیا ہے بلکہ یہ بن چکی ہے کہ اس کی ملکیت میں کیا کچھ ہے۔ اس کی ’ایکسچینج ویلیو‘ ہی اس کی شناخت ہے۔ ایرک فرام اپنی شہرہ آفاق کتاب ’ٹو ہیو آر ٹو بی‘ میں بڑی خوبصورتی سے شناخت کے اس خاص قسم کے بحران کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ہرطرف کارپوریٹ کلچر کا راج ہے اور ہر بندہ ایک ان دیکھے مقابلے میں شریک ہے اور سر پٹ بھاگا جا رہا ہے۔ اس کے پاس رکنے کا، غور و فکر کرنے کا، فطرت کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کا اور زندگی کے اصل معانی کھوجنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انسان کو مادی چیزوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک معقول آمدن پر سکون زندگی گزارنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اپنی ساری توانائیاں زندگی کی نثر کے پیچھے بھاگتے بھاگتے صَرف کر دی جائیں اور اس کی شاعری کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔

شاید موجودہ کارپوریٹ کلچر نے انسان کے اندر دیو مالائی بادشاہ مائیڈس جیسا بننے کی شدید خواہش پیدا کر دی ہے۔ مائیڈس کے پاس اتنی طاقت آ گئی تھی کہ وہ جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتا وہ سونا بن جاتی۔ اس سے بڑھ کے کسی آدمی کو کیا چاہیے کہ اس میں ایسی صلاحیت آ جائے۔ لیکن جب وہ بادشاہ کھانا کھانے لگا تو اس کا نوالہ بھی سونے کا بن گیا اور جب اس نے اپنی بیٹی سے پیار کرنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے تو ان کے مس ہوتے ہی وہ بھی سونے کی بن گئی۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم سونا نہیں کھا سکتے نہ سونے کی مورتیوں سے کوئی رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم زندگی کی شاعری کو اپنی ترجیح بناتے ہیں یا بے رنگ نثر کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).