ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا اور قتل، حکومت کی مجرمانہ غفلت


ایک دن موجودہ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے زینب زیادتی و قتل کیس میں قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”جس قتل کا قاتل نہ ملے اس کا ذمے دار حاکم وقت ہوتا ہے۔ علی محمد خان، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضہ اللہ عنہ کا یہ قول دہراتے وقت شاید یہ بھول گئے تھے کہ ایک دن وہ بھی اسی ایوان میں حکمران کی حیثیت سے ایسے ہی کسی قتل کے ذمے دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے نوے دنوں میں اغوا اور قتل کے دو انتہائی اہم اور بہیمانہ واقعات ہوئے ہیں۔

پہلا واقعہ 2 نومبر کو پیش آیا جب اسلام آباد کی انتہائی پوش سوسائٹی بحریہ ٹاؤن میں جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور مدرسۂ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق کو ان کے گھر میں ان کی آرام گاہ میں بڑی بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ دوسرا واقعہ ایس پی پشاور طاہر داوڑ کا اسلام آباد سے اغوا کے پندرہ دن بعد افغانستان میں قتل ہونے کا ہے۔ ابھی ہم بات کرتے ہیں طاہر داوڑ کے اغوا اور پھر ان کے وحشیانہ طریقے سے قتل کی۔

طاہر داوڑ پشاور دیہی کے ایس پی تھے کسی کام سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے اور پھر وہاں سے ان کا اغوا ہو جاتا ہے۔ 26 اکتوبر کو جب ایس پی طاہر داوڑ مختصر کام کے سلسلے میں اسلام آباد آئے۔ وہ اپنے گھر سے رات کا کھانا کھانے کے بعد اکیلے ہی کہیں نکلے۔ اس کے ایک گھنٹے بعد ان کا موبائل بند ہو گیا جو پھر نہیں کھل سکا۔ ان کی پراسرار گمشدگی پر ان کے لواحقین سمیت قریبی دوستوں نے کے پی پولیس اور اعلیٰ حکومتی شخصیات سے رابطے کر کے ان کی گمشدگی بابت فوری آگاہی دی۔

مگر اسے مرکزی اور خیبرپختونخواہ حکومتوں کی عدم دلچسپی کہیں یا مجرمانہ غفلت سے تعبیر کریں انہوں نے اس اہم گمبھیر مسئلے پر کوئی فوری کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ جب بی بی سی نے وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی سے ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا اور ان کی بازیابی کی بابت رابطہ کیا تو موصوف نے فرمایا کہ ان کے اغوا کی خبر غلط ہے وہ پشاور میں موجود ہیں۔ انہوں نے بی بی سی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو لندن میں بیٹھے کیسے پتہ کہ طاہر داوڑ اغوا ہو گئے ہیں جبکہ ہمیں یہاں بیٹھے نہیں پتہ کہ وہ اغوا ہو گئے ہیں۔

اس سے زیادہ بے حسی، غیرذمہ داری، لاعلمی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے ان کے اغوا کی خبر چلے اور اہم حکومتی رکن اس کی تردید کرے۔ طاہر خان داوڑ کے اغوا سے لے کر ان کی افغانستان میں لاش ملنے تک اگر تحریک انصاف حکومت کی، پولیس کے اس دلیر افسر کے گمشدگی کے معاملے میں دلچسپی کو دیکھیں تو بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ حکومت کی اپنے اس اثاثے کی بحفاظت بازیابی کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔

طاہر داوڑ کا خاندان ان کی معصوم بیٹیاں، دوست احباب، قبیلے کے سرکردہ عمائدین ان کی تصاویر اٹھا کر پریس کلب پشاور پر بار بار دہائیاں دیتے مرکزی اور صوبائی حکومت سے ان کی بحفاظت بازیابی کے لئے درخواستیں کرتے رہے، مگر خیبرپختونخواہ پولیس اور مرکزی حکومت نے مجرمانہ خاموشی اور غفلت کا مسلسل مظاھرہ کیا۔ اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ایک ایسا افسر جس نے دہشتگردوں کے خلاف بہت سخت کارروائی وں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جس نے سینکڑوں دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، جس کی جان پر دو خودکش حملوں سمیت متعد جان لیوا حملے ہوئے، اس کی گمشدگی کی خبر پر تحریک انصاف کی حکومت کیوں سرگرم نہ ہوئی، کیوں اس جانباز سپاہی کی بازیابی کے لیے فوری اور بھرپور کارروائی اں شروع نہیں کیں۔ حکومتی نا اہلی اور غیر سنجیدگی نے پاکستان کو ایک دلیر مجاہد سے محروم کردیا۔ طاہر داوڑ اسلام آباد سے اغوا ہوکر جہلم، ڈی آئی خان اور پھر کوہاٹ کے راستے افغانستان پہنچ گئے اور ہمارے تمام سیکیورٹی ادارے، کے پی کے پولیس ایجنسیاں جگہ جگہ لگی چیک پوسٹیں سب کے سب سوتے رہ گئے۔

13 نومبر کو جب طاہر داوڑ کی بدترین تشدد زدہ لاش ملنے کی خبر سوشل میڈیا پر بریک ہوئی تو مجھے علی محمد خان کے وہ الفاظ یاد آگئے کہ ”جس قتل کا قاتل نہ ملے تو اس قتل کا ذمے دار حاکم وقت ہے“ تو اب شہید طاہر خان داوڑ کے بہیمانہ قتل کا ذمے دار کون ہے۔ ان کے قتل کے بعد حکومتی وزراء اور اکابرین کی وہی گھسی پٹی آہ بکا کہ ہم ان کے قاتلوں کو کسی قیمت پہ نہیں چھوڑیں گے، چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں۔ یہاں ان کے پاکستان کے دارلحکومت سے اغوا سے لے کر افغانستان منتقلی تک مرکزی حکومت، پنجاب اور کے پی کے حکومت کی نا اہلی سمیت تمام سیکیورٹی اداروں کی ناکامی پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

آج جب شہید طاہر داوڑ کا جسد خاکی وطن واپس لاکے تدفین کے مراحل سے گزر چکا ہے تو اب حکومت کے مملکتی وزیر برائے داخلہ فرما رہے ہیں کہ وزیراعظم صاحب نے مہربانی فرماکر رپورٹ بھی مانگ لی ہے اور انکوائری کا حکم بھی صادر فرما دیا۔ تحریک انصاف کی 90 روزہ حکومت مسلسل اپنی نا اہلیوں اور نالائقیوں کے سبب تیزی غیر مقبولیت جانب گامزن ہے۔ لیکن کے پی کے پولیس کا ایک انتہائی اہم اور دلیر افسر جس طرح دارلخلافہ سے اغوا ہوکر ایک غیر ملک میں مردہ حالت میں بازیاب ہوتا ہے یہ واقعہ ایک واضح اشارہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت ملک چلانے کی صلاحیت اور اہلیت سے عاری ہے۔

وزیر داخلہ نے فرمایا کہ اسلام آباد کے اٹھارہ سو، سی سی ٹی وی کیمروں میں سے چھ سو خراب ہیں جبکہ باقی 1200 کسی انسان کی اور گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر لینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اپنی نالائقی، نا اہلی اور مجرمانہ غفلت کا ذمے دار آپ کیمروں کو ٹھرا کر اپنی ذمیداریوں سے چشم پوشی اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اب حکومت چاہے کچھ بھی کہے کسی دہشت گرد کو مورد الزام ٹھرائے یا کسی افغان خفیہ ایجنسی کو حقیقت تو یہ ہے کہ طاہر داوڑ ان کی ناک کے نیچے سے ہوکے غیر ملک پہنچ گئے، اور بڑے ہی بہیمانہ طریقے سے شہید کر دیے گئے۔

ملک اور کے پی کے پولیس اپنے ایک انتہائی دلیر اور جانباز افسر سے محروم ہو گئے، ان کی معصوم بیٹیاں اور بیٹے اپنے شفیق اور محبت کرنے والے والد کی شفقت و محبت سے محروم ہو گئے۔ پورا ملک سوگوار ہے اپنے بہادر طاہر داوڑ کی شہادت پر تو دوسری جانب پاکستان کی عوام یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں کہ جو حکومت اپنے اتنے اہم پولیس افسر کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو پھر ان کی حفاظت کیوں کر کرسکتی ہے۔ یہ نہایت ہی گمبھیر اور تشویشناک سیکیورٹی صورتحال ہے جو تحریک انصاف حکومت کی نا اہلی اور نالائقی سے ملک و قوم کو درپیش ہے۔ پاکستان کی عوام اب صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس نے اور طرح پاکستان کے دلیر بیٹے طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کیا اور پھر انہیں قتل کردیا، امید ہے تحریک انصاف کی حکومت اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کے لئے جلد از جلد تمام حقائق عوام کے سامنے لے کر آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).