میڈیا کو سرنگوں کرنے کی ایک اور کوشش


نئے پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حقوق کے تحفظ کا جو نیا انتظام متعارف ہو رہا ہے، اس میں قومی میڈیا اور صحافیوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل لانا ضروری قرار پایا ہے تاکہ ا ن کوششوں میں کوئی خلل واقع نہ ہو جوسب محب وطن قومی ادارے اور سیاست دان مل جل کر عوامی حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے کے لئے کررہے ہیں۔ تاہم ملک کی سپریم کورٹ اور چیف جسٹس چونکہ میڈیا کی تمام تر ’بے اعتدالیوں‘ کے باوجود نرم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ آئین کی شقات کے مطابق آزادی رائے کا حق پامال نہ ہو، اسی لئے آج روزنامہ جنگ اور دی نیوز کو غلط رپورٹنگ کرنے اور چیف جسٹس پر بہتان باندھنے کے الزام سے محض یہ کہہ کر بری کردیا گیا کہ آئندہ اس بارے میں احتیاط کی جائے۔ یوں ایک بار پھر پاکستانی میڈیا کو نیا موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ بھی قومی تعمیر کے اس منصوبہ میں یکساں طور سے شریک ہوجائے جس کی تکمیل میں حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ اور محب وطن ادارے پہلے ہی پوری تندہی سے مصروف عمل ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ ملکی نظام، عدل کی روایت اور پاکستانی صحافت کی تاریخ میں اس قسم کے اقدامات صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ہراساں کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں پا سکتے۔

بدقسمتی سے ہزاروں مقدمات کو نمٹانے کا پیشہ وارانہ کام کرنے کی بجائے ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے گزشتہ کچھ عرصہ سے اپنا زیادہ وقت سیاسی معاملات سلجھانے، حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور ان امور کو نمٹانے میں صرف کیا ہے جو براہ راست عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ لیکن نام نہاد سو مو ٹو یا آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ملنے والے اختیار کے تحت سپریم کورٹ نے مسلسل اپنے دائرہ اختیار میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ا س شق کے تحت اختیار کی حدود کے حوالے سے ملک کے قانون دان تسلسل سے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ اور یہ مطالبہ بھی سامنے آتا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس اختیار کے بے دریغ اور کثرت سے استعمال کے سوال پر فل کورٹ کا اجلاس طلب کرنا چاہیے تاکہ عدالت عظمیٰ کے تمام 17 جج مل کر یہ فیصلہ کرسکیں کہ چیف جسٹس کس حد تک سوموٹو اختیار استعمال کرسکتے ہیں اور ان اختیارات کی زد میں قومی زندگی کے کون سے شعبے آسکتے ہیں۔ کیوں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے سو موٹو اختیار کے تحت اٹھائے گئے متعدد اقدامات کا براہ راست بنیادی حقوق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سپریم کورٹ انہیں بنیادی حقوق سے منسلک کر کے ایسے معاملات میں مداخلت کرچکی ہے جن کے قومی سیاسی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ وکلا کے دباؤ کے باعث چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند ماہ پہلے یہ اقرار بھی کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشمل بنچ کو اس آئینی شق کے حوالے سے حتمی رائے دینی چاہیے۔ لیکن اس کے بعد یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ سو موٹو اختیار کا استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس مسلسل ان معاملات کو بنیادی حقوق میں شامل کررہے ہیں جو ان کے خیال میں ملکی معاملات میں عدالت کی اتھارٹی میں اضافہ کے لئے ضروری ہیں۔ تاہم ابھی تک لارجر بنچ یا فل کورٹ سے اس آئینی شق کے حوالے سے رائے لینے اور حدود متعین کروانے کا کام نہیں کیا سکا۔

آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت اختیارات کا استعمال عام طور سے حکومت کے اقدامات، حق و اختیار اور ایسے معاملات میں کیا گیا ہے جن سے حکومتی اختیار پر عدالت کو تصرف حاصل ہؤا ہے۔ اسے ملک کے آئینی جمہوری انتظام میں ایک غیر معمولی صورت حال کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس اختیار کی زد میں میڈیا اور صحافیوں بھی آئے ہیں۔ ملک میں دو دہائی قبل الیکٹرانک میڈیا کو فروغ حاصل ہؤا ہے اور حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کو رائے سازی کے لئے مؤثر طور سے استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس خوش آئند تبدیلی کا خیرمقدم کرنے کی بجائے، عام طور پر میڈیا کی کارکردگی پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ میڈیا نے بھی اعلیٰ عدالتوں کی طرف خاص طور سے توجہ مرکوز رکھی ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے علاوہ ملک کی ہائی کورٹس بھی ہائی پروفائل سیاسی معاملات میں مداخلت و فیصلوں کے علاوہ عدالتی تبصروں، سوالات اور تاثرات کے ذریعے رائے سازی میں شراکت دار بن رہی ہیں۔ ملک میں سیاسی یا سماجی رائے سازی میں اعلیٰ عدالتوں کو کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت متعدد جج اس اصول کو نظر انداز یا مسترد کرنے پر مصر ہیں۔

اس صورت حال میں اگر میڈیا عدالتی کارروائی پر زیادہ توجہ دیتا ہے یا اس پر رائے زنی کی جاتی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ کمرہ عدالت اور جج ملک کے منتخب ایوان اور نمائیندوں سے زیادہ قومی اہمیت کے معاملات پر اثر انداز ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس رویہ کے فروغ کی دوسری بڑی وجہ خود ججوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ انہیں شہرت حاصل ہو اور ان کے ’کار ہائے نمایاں‘ سے لوگوں کو باخبر رکھا جائے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کے بعض جج منصف سے زیاددہ سیاسی کردار کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان حالات میں جب عدالتی کارروائیوں کے بارے میں کثرت سے رپورٹنگ ہوگی تو ان پر رائے دینے کے بھی اتنے ہی مواقع پیدا ہوں گے اور رپورٹنگ یا تبصروں میں غلطی کا اندیشہ بھی بڑھ جائے گا۔ اس صورت حال کو روکنے کا سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور اس کی پیروی کرتے ہوئے دیگر اعلیٰ عدالتیں شہرت کی خواہاں ہونے کی بجائے خالص پروفیشنل انداز میں قانونی معاملات پر توجہ مرکوز کریں۔ عدالتی کارروائی کے دوران آبزرویشن کے نام پر سیاسی تبصرے یا ذاتی گلے شکوے کرنے کی بجائے، عدالتی ماحول کا تقدس و تشخص برقرار رکھا جائے تاکہ میڈیا کو بھی غیرضروری دلچسپی لینے اور بے جا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہ ملے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali