سوشل میڈیا پہ تعلق بناتی گوریاں اور ہمارے رویے


حال میں ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک امریکی خاتون جن کی عمر 41 سال تھی پاکستانی 21 سالہ نوجوان کے عشق میں سیالکوٹ آ پہنچی ہیں۔ عام سی خبر ہے، عام ہی رہتی۔ ٹیکناکوجی نے ہمیں بدلا ہے، ہمارے رہن سہن کو بدلا تو ظاہر ہے دوستیاں، رشتوں اور تعلقات کو بھی وسعت دی ہے۔ ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ہماری رسائی کو تو بدلا ہے، سوچ کو نہیں بدلا۔ ہمارے ہاتھوں میں وہ جام جم تو ہے جسے موبائل کہا جاتا ہے جو پوری دنیا کو ہتھیلی میں سمیٹ لایا ہے لیکن ہماری بصیرت کو وہ وسعت حاصل نہیں ہو پائی۔ ہم انسانیت کا راگ الاپنے لگے ہیں لیکن اپنی چھوٹی چھوٹی اناوں اور منافقانہ سوچ سے نہیں ابھر پائے۔

ایسے واقعات ہی سوچ کو، معاشرے کے اصل روپ کو اور ترجیحات کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس واقعے میں کچھ پہلو ایسے ہیں جو ایک طرف ہماری سوچ کو ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم کس قدر منافقت اور مفاد پرستانہ رشتے بنانے پہ یقین رکھتے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کے اینکر انٹرویو کر رہے ہیں۔ ایک جانب وہ لڑکا ہے، خاتون درمیان میں بیٹھی ہیں اور ساتھ اینکر موجود ہیں۔ یہ انٹرویو صحافتی پھکڑ پن کی اعلی مثال ہے۔

اینکر:آپ نے کی عمر اکیس سال ہے اور خاتون اکتالیس سال کی ہیں تو آپ بتائیں آپ نے انہیں کیسے (سوچتے ہوئے) گریپ کیا۔ کہنا حضور پھنسانا چاہ رہے تھے

لڑکا: میرا ان سے انسٹا گرام سے رابطہ ہوا اور پھر چیٹ ہونے لگی۔

اینکر کا دوسرا سوال مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے تھا اور اس دوران لڑکے کے دوست قہقہے پہ قہقہ بلند کرتے رہے جو بےحد عامیانہ بات ہے۔ گویا کوئی شکار ہاتھ آیا ہے۔ خاتون اس گفتگو کو نہیں سمجھ سکتیں اس لیے ادھر ادھر دیکھتی رہیں۔

پھر اینکر اس جانباز مجاہد سے دیگر نوجوانوں کو ٹپ دینے کے لیے کہتا کہ ان سے تو اٹھارہ سال کی لڑکیاں نہیں پھنسائی جاتی آپ طریقہ بتائیں آپ نے اکتالیس سالہ امریکی خاتون کو پھنسا لیا۔ اس پہ بے ہنگم قہقہوں کا طوفان برپا ہوتا ہے۔

اس انٹرویو میں کچھ باتیں جو مجھے سمجھ میں آئی وہ یہ ہیں۔

پہلی بات کہ اینکر سماج کی سوچ کو ظاہر کر رہا ہے جہاں عورت اب بھی ایک بچی، چیز یا مہذب کہہ لیں تو کموڈیٹی ہے جسے پھنسایا جا سکتا ہے۔

دوسرا عمر کا فرق ہے۔ مرد عورت سے تیس سال بھی بڑا ہو تو چلتا نہیں بلکہ دوڑتا ہے عورت مرد سے بڑی ہو تو گلے میں بات پھنس جاتی ہے

تیسری بات مفاد کی شادی ہمارے سماج میں عام ہے۔ یہاں مفاد کچھ زیادہ کھل کے سامنے آیا کہ گرین کارڈ کا آسان طریقہ۔

مسئلہ نہیں ہوتا اگر آپ یہ راگ نہ الاپتے کہ یہ سماج روایات کا پاسدار ہے۔ عورت کو عزت کے سنگھاسن پہ بٹھاتا ہے۔ یہاں شادی سماجی اکائی اور بڑی ذمہ داری ہے۔ مذہب میں عمر کا تفاوت معنی نہیں رکھتا اس لیے سماج اسے درست سمجھتا ہے۔ یہ سب باتیں با آواز بلند کہی تو جاتی ہیں لیکن عمل نہیں کیا جاتا۔ آپ کیوں نہیں مان لیتے کہ ابھی اس لیول پہ نہیں ہیں کہ انسانیت کے نام پہ رشتے بنا اور نبھا سکے۔ کیوں اقرار نہیں کر لیتے کہ اخلاقیات کی رٹ ایک جھوٹ ہے سب مفاد پہ مبنی ہے رشتہ ہو یا دوستی۔ اس بات کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ سوچ پروان نہیں چڑھی صرف لبادہ جدیدیت کا ہے۔ ابھی آپ خلا میں معلق ہیں نہ جڑوں کو پکڑ سکتے ہیں نہ ہی آسمان چھو سکتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ آنکھوں پہ رنگین پٹی باندھنے کی بجائے اپنی حقیقت کو تسلیم کر لیں چاہے وہ کتنی ہی ابتری اور تتر بتر حالت میں کیوں نہیں ہے۔

جب انسان حقیقت تسلیم کرتا ہے تب ہی وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خوبیاں خامیاں کیا ہیں۔ اور تبھی وہ تباہ کن حالت بدل سکتا ہے۔ باہر کی دنیا جو آپ سے رشتے بناتی ہے جن معاملات سے گزرتی ہے وہی آپ کے سماج کا چہرہ ہوتے ہیں۔ فرد کی حیثیت میں ذمہ داری اتنی ہی اہم ہے جتنی سماج کی حیثیت میں۔ اس سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔ یہ کون سی قسم کی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور یہ کیسا سماج وجود میں لائے گی۔ یہ بات اہم ہے میڈیا سماج کا عکاس ہوتا ہے نوجوان سماج کا مستقبل ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اور اپنے لیے اور باقی کی انسانیت کے لیے کیسا سماج پروان چڑھا رہے ہیں۔ سوچ سکتے ہیں تو سوچیے اور بدلیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).