بے نامی اکائونٹس اور ہمارے قانون ساز


 

ترقی کے اسی مرحلے پر موجود دیگر معیشتوں کے ساتھ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کا حجم ہماری کُل معیشت سے کہیں زیادہ ہے۔ عقربی حجم رکھنے والی یہ غیر دستاویزی معیشت ٹیکسز حاصل کرنے کی راہ میں نہ صرف ایک رکاوٹ ہے بلکہ اس کی وجہ سے ٹیکس کا ناہموار نظام بھی وجود میں آتا ہے جس میں دولت مند افراد واجب ٹیکسز ادا نہیں کرتے۔

ماہرینِ معاشیات کا خیال ہے کہ معاشی استعداد بڑھانے کے لیے براہِ راست ٹیکسز وصول کرنا بہتر ہے۔ یہ ٹیکسز آمدنی اور دولت پر لگائے جاتے ہیں تاہم غیر دستاویزی معیشت یا کالے دھن کے غیر معمولی حجم کی موجودگی میں ہم دولت یا آمدنی پر مکمل ٹیکسز عائد نہیں کر سکتے۔ اس طرح ہم تجارت اور استعمال کی جانے والی اشیا پر ٹیکسز لگاتے ہیں، جو کہ بالواسطہ ٹیکسز کہلاتے ہیں۔ یہ ٹیکسز نہ صرف معیشت کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے غریب افراد کی زندگی بھی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ اُنہیں کم آمدنی کے باوجود ٹیکسز ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ بچت کرنے اور اپنی حالت سدھارنے کے قابل نہیں رہتے۔ دولت مند افراد اپنی دولت کو چھپا لیتے ہیں، چنانچہ وہ بہت کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے دو اہم اقدامات کیے تھے۔ پہلا قدم افراد پر انکم ٹیکس کے حجم میں کمی لانا تھا۔ ہم نے پہلے ایک لاکھ ماہانہ آمدنی پر انکم ٹیکس مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اگلے ایک لاکھ پر انکم ٹیکس کے نرخ صرف پانچ فیصد رکھے۔ اس کے بعد دس فیصد، جبکہ چار لاکھ ماہانہ آمدنی سے زائد پر پندرہ فیصد انکم ٹیکس رکھا گیا۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے نہ صرف 90 بلین روپے کے نئے بالواسطہ ٹیکسز عائد کر دیے ہیں بلکہ انفرادی ٹیکس کے نرخوں میں بھی 29فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس نے ٹیکسز کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے اس نظام کو مزید پیچیدہ بھی بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت کی طرف سے متوسط آمدنی والے طبقے اور تنخواہ دار افراد کو فراہم کیا گیا ریلیف واپس لے لیا گیا ہے۔ اب دوسرے اقدام کی بات کرتا ہوں۔ اسے زیادہ سمجھا نہیں گیا لیکن میرے نزدیک یہ پاکستان میں ٹیکس کی بنیادی اصلاحات کا سب سے بڑا قدم تھا۔ اس اصلاح کا تعلق نام نہاد ’’ڈی سی ریٹ‘‘ اور ’’ایف بی آر ریٹ‘‘ کو ختم کرنا تھا، جو کہ جائیداد کی رجسٹریشن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بالترتیب عائد کردہ ٹیکسز ہوتے ہیں۔

ان نرخوں کو ختم کرتے ہوئے ہم نے اعلان کیا کہ جائیداد خریدنے والا کسی بھی نرخ پر اپنی جائیداد رجسٹرڈ کرانے کے لیے آزاد ہو گا لیکن وفاقی حکومت کے پاس حق ہو گا کہ وہ اس کے بیان کردہ نرخ سے دوگنی رقم دے کر وہ جائیداد خرید لے۔ اس کا مطلب ہے کہ جائیداد کا مالک اب اصل مارکیٹ قیمت کا کم از کم نصف درست رجسٹرڈ کرائے گا، مبادا حکومت اُس کی جائیداد اصل قیمت سے کم پر خرید لے۔ اگلے دو سال کے لیے ہم نے اس قانون کو مزید سخت کر دیا کہ دو سال بعد وفاقی حکومت جائیداد کا صرف پچاس فیصد زیادہ ادا کرکے خریدنے کی مجاز ہو گی۔ اس نے گاہک کو مجبور کر دیا کہ وہ اصل قیمت کا کم از کم دو تہائی رجسٹرڈ کرائے۔ اس سے آگے ہم نے قدم نہیں بڑھایا کیونکہ مارکیٹ میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے اور پھر ہم نہیں چاہتے تھے کہ حکومت کے پاس استبدادی اختیارات ہوں۔

میں ان اقدامات کو پاکستان میں کی گئی اہم ترین ٹیکس ریفارمز کیوں سمجھتا ہوں؟ اس حقیقت پر غور کریں کہ پاکستان میں دولت مند افراد کے لیے جائیداد کی ملکیت دولت جمع کرنے کا سب سے اہم ذریعہ رہی ہے۔ مکانوں کی سرکاری قیمت‘ اصل قیمت کا صرف بیس فیصد یا اس سے بھی کم، لکھی جاتی ہے۔ غیر دستاویزی دولت کا یہ وسیع اسٹور کالا دھن جمع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

مثال کے طور پر ایک شخص کسی بھی بڑے شہر کے پوش علاقے میں اپنا مکان فروخت کرتا ہے۔ فرض کریں یہ مکان دو کنال یا ایک ہزار گز کا ہے اور اسے 1980ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ اس کی مارکیٹ قیمت بارہ کروڑ روپے ہو لیکن سرکاری طور پر اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ پچاس لاکھ لکھوائی گئی ہو گی۔ عام طور پر نہ تو خریدار بارہ کروڑ علانیہ دولت رکھتا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ چاہے گا کہ وہ جائیداد بارہ کروڑ کی قیمت پر رجسٹرڈ ہو کیونکہ اس صورت میں اُسے سات فیصد صوبائی محصولات اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایف بی آر کو تین فیصد انکم ٹیکس اور دیگر محصولات ادا کرنا ہوں گے۔ چنانچہ وہ دونوں چاہیں گے کہ اُس جائیداد کی قیمت ایک کروڑ یا اس کے لگ بھگ لکھی جائے۔ وہ اس پر صوبائی اور وفاقی ٹیکسز کا کل ملا کر دس لاکھ کے قریب ادا کر دیں گے۔

یہ رقم ادا کرنے سے پہلے خریدار ایک کروڑ روپے حوالے کے ذریعے بیرون ملک بھیجے گا اور پھر وہاں سے زرمبادلہ منگوائے گا، جو کہ وائٹ منی ہو گی۔ باقی کے گیارہ کروڑ وہ خریدار کو کسی بے نامی اکائونٹ سے ادا کرے گا۔ ممکن ہے کہ وہ بے نامی اکائونٹ اُس کے کسی مالی یا کسی ٹھیلے والے کے نام پر ہو، اور اُس اکائونٹ کو دراصل وہی خریدار چلا رہا ہو (آج کل ایسے بے نامی اکائونٹس کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ کچھ ٹھیلے والے اکائونٹس پکڑے گئے ہیں لیکن بہت سے افراد نے اپنے مالیوں کے نام پر بھی اکائونٹس کھول رکھے ہیں۔ اُن کی بھی خبر لی جانی چاہیے)

ہم نے ایمنسٹی اسکیم نامی ایک اور اقدام کا اعلان کیا تھا۔ اس کے مطابق ایسے افراد، جو بیرون ممالک سے سالانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ رقم منگواتے ہیں، اُنہیں انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانا ہوں گے۔ یہ اقدام حکومت کو اس بات کا تعین کرنے کا موقع دیتا تھا کہ بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم کالے دھن کو سفید کرنے کا ذریعہ نہ بننے پائیں۔ یہ اقدامات پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دستاویزی بناتے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ لوگ اپنی جائیداد کی قیمت کم لکھواتے ہیں لیکن اس سے اُنہیں انکم ٹیکس کی چھوٹ نہیں مل جاتی۔ ہم منافع پر ٹیکس عائد نہیں کرتے۔ لوگ جائیداد کی قیمت اس لیے کم لکھواتے تھے تاکہ وہ اپنی دولت چھپا سکیں اور اُنہیں صوبائی محصولات کم ادا کرنا پڑیں۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ فیڈرل ایڈوانس انکم ٹیکس کے ایک فیصد نرخ کم کر دیے، اور صوبوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ اپنے صوبائی ٹیکسز ایک فیصد تک کم کر دیں۔ ہم جانتے تھے کہ جو صوبہ ہماری ہدایت پر عمل نہیں کرے گا، وہاں جائیداد کی رجسٹریشن کا عمل سست ہو جائے گا اور یوں اُس کے محصولات کا حجم کم ہو جائے گا چنانچہ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ صوبے ہماری ہدایات پر عمل کریں۔

اب یہ قانون نافذ العمل ہے۔ وفاقی حکومت ایسی زمین خریدنے کی مجاز ہے جس کی قیمت انتہائی کم رجسٹرڈ کرائی گئی تھی تاہم موجودہ حکومت نے اس قانون کو عملی طور پر نافذ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک وفاقی حکومت نے ایسی کوئی زمین نہیں خریدی جس کی قیمت اصل سے صرف بیس فیصد یا اس سے بھی کم درج کرا کر ٹیکسز بچائے گئے تھے۔

مسلم لیگ (ن) حکومت نے براہِ راست ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا تھا۔ اس کا مقصد زمین کی ملکیت کی صورت غیر پیداواری دولت کے وسیع ذخیرے میں ارتعاش پیدا کرنا تھا۔ اس کے ذریعے بہت زیادہ دولت دستاویزی معیشت کا حصہ بن جاتی، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے اور انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کے حجم میں اضافہ ہوتا۔ موجودہ حکومت کو صرف اس نئے قانون پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ملکی مفاد کی خاطر ایسا کیا جائے گا۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ: صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).