BBCShe#: ’زیادہ پڑھنا چاہیں تو کہتے ہیں تم تو قندیل بلوچ بنتی جارہی ہو‘


’عورت کو طلاق ہو چکی ہے تو یہ یقیناً بری عورت ہی ہوگی۔ اس نے ایسا ضرور کچھ کیا ہوگا کہ اس کے ساتھ یہ ہوا۔ جب بھی کوئی شادی ناکام ہوتی ہے تو اس کا ذمےدار عورت کو ہی کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا کچھ مرد نے بھی تو کیا ہوسکتا ہے نا جس سے شادی ٹوٹ گئی ہو۔ لیکن مرد کو تو کوئی طلاق یافتہ کہتا ہے نہ طلاق یافتہ مرد کو کوئی برا سمجھتا ہے۔‘

کالی عبایا میں پوری طرح لپٹی ایبٹ آباد یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک طالبہ جب یہ لفظ بول رہی تھی تو اس کے لہجے میں غصہ نمایاں تھا۔ اس کی ہاتھوں کی جنبش اس کے اندر کی بے چینی کا پتہ دے رہی تھی۔

بی بی سی شی سیریز کے لیے سفر کرتے ہوئے ہمیں دو ہفتے ہوچکے ہیں۔ ہمارا تیسرا پڑاؤ ایبٹ آباد تھا جہاں ہم نے خیبرپختونخوا کی لڑکیوں کو یہ موقع دیا کہ وہ ان مسائل پر بات کریں جن کا انھیں اپنی زندگیوں میں ہر وقت سامنا رہتا ہے۔

جب ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا تو میری توقعات مختلف تھیں۔ کوئٹہ اور سندھ میں لڑکیوں نے جس طرح سے اپنا نکتہ نظر پیش کیا وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ اس لیے ایبٹ آباد کا سفر کرتے ہوئے میرے خیالات کچھ ملے جلے تھے۔

لیکن میرے اندر کی صحافی کا خیال تھا کہ یہاں نوجوان لڑکیوں کو زیادہ مسائل ایسے رسم و رواج سے ہوں گے جن کے نام پر خواتین سے ان کے بہت سے حقوق اور آزادیاں سلب کرلی جاتی ہیں۔

بی بی سی شی

طالبات نے گھروں راستوں اور تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے کا معاملہ اٹھایا

میڈیا اور معاشرے سے شکایت

لیکن یہاں بھی معاملہ الٹا ہی نکلا۔ لڑکیوں نے دقیانوسی روایات پر بات تو کی لیکن پہلا مدعا جو اٹھایا گیا وہ معاشرے کی طرف سے عورت کو مخصوص معیاروں پر جانچنے کا تھا۔

ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’میڈیا نے عورت کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں کامیابی کا معیار اس کی خوبصورتی کو بنا لیا ہے۔‘

’اس معیار کے مطابق ایک ایسی عورت ہی مکمل ہوسکتی ہے جس کا رنگ گورا ہو وزن بہت کم ہو اور قد بہت لمبا ہو اور جو عورت اس معیار پر پوری نہیں اترتی نہ تو وہ اپنے کام میں ترقی کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کی شادی کسی کامیاب اور بہتر شخص سے ہوسکتی ہے۔ ‘

طالبہ کا کہنا تھا کہ عورت کے اس ’پرفیکٹ امیج‘ نے ہزاروں نوجوان لڑکیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور انھیں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔

بی بی سی شی

’طلاق ہو جائے تو عورت کی غلطی اور 30 سال کی ہو جائے تو لڑکی شادی کے قابل نہیں رہتی‘

حق رائے اور غیرت کے نام پر قتل

ایک اور طالبہ نے میڈیا میں خواتین کی عکاسی پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ عورت کو ہمیشہ روتے دھوتے اور کمزور کرداروں میں ہی دکھایا جاتا ہے۔ کیونکہ خود مختار عورت معاشرے سے ہضم ہی نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ مضبوط اور کامیاب عورتوں کی کہانیاں معاشرے کی بہت سی لڑکیوں کو حوصلہ اور آگے بڑھنے کی لگن دے سکتی ہیں۔ ایسے کہانیوں کو زیادہ پیش کیا جانا چاہیے۔

بہت سی طالبات نے اپنی زندگی کے فیصلے نہ کرنے کی آزادی ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ اگر ہم زیادہ پڑھنا چاہتے ہیں یا پڑھنے کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تواس میں ایسا برا کیا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ تم تو ’قندیل بلوچ‘ بنتی جارہی ہو۔

ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ آئین میں جو حقوق اور آزادیاں خواتین کو دی گئی ہیں وہ صرف کاغذ کا ایک مسودہ ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں لڑکیاں اپنی شادی شدہ زندگی سے مطمن نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی تو ایک طرف ان کا نکاح کرنے سے پہلے ان کی مرضی تک معلوم نہیں کی جاتی۔

کئی طالبات نے غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پختون معاشرے میں غیرت کے نام پر عورت کو جان سے مارنے کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں اور ان کی تعداد عام اندازوں سے کافی زیادہ ہے۔ بہت سے واقعات تو صرف اس لیے میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے کہ اس طرح کے جرائم میں زیادہ تر خواتین کے خاندان کے لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں۔ اور ان پر پردہ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔

ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنی ذہنیت کو مذہب کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں جس سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

بی بی سی شی

’لڑکیوں سے مرضی پوچھی نہںی جاتی بلکہ ان پر فیصلہ مسلط کر دیا جاتا ہے`

حق رائے دہی، تحفظ اور ذہنی صحت

ایک سٹوڈنٹ نے صوبے کے کچھ علاقوں میں عورتوں کے ووٹ ڈالنے پر پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا حق رائے دہی کا استعمال خواتین میں اعتماد پیدا کرسکتا ہے۔

بہت سی طالبات نے گھروں راستوں اور تعلیمی اداروں میں ہراساں کیے جانے کا معاملہ اٹھایا۔ ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ محفوظ رہنا ہے تو برقع پہن لو۔ لیکن وہ لڑکیاں جو عبایا پہنتی ہیں انھیں بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسئلہ عورتوں کو برقع پہنانے سے حل نہیں ہوگا۔ یہ مردوں کی سوچ بدلنے سے حل ہوگا۔ اس کے لیے معاشرے کی ذہنیت کو تبدیل کرنا ہوگا۔

مباحثے میں شریک ایک اور طالبہ نے عورتوں میں ذہنی دباؤ کے باعث جنم لینے والی بیماریوں کا تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت کے حوالے سے خبیرپختونخوا میں کوئی شعور نہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر حیران ہوں کہ محدود مواقع اور اتنے سارے چیلجنز کے باوجود ان لڑکیوں میں اتنی سجھ اور جرات کہاں سے آئی۔

بی بی سی شی کی آخری منزل صوبہ پنجاب ہے۔ دیکھئیے وہاں ہمیں کس طرح کی کہانیاں سننے کو ملیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp