امریکا اتنا بھی جمہوری نہیں


میلانیا ٹرمپ سے تو آپ واقف ہی ہوں گے؟ وہی جو اپنے امریکی صدر کی زوجہ ہیں۔ اور اس مناسبت سے خاتون اول کہلاتی ہیں۔ امریکا میں ہی قومی سلامتی کی نائب مشیر ہیں میرا رکارڈل۔ تو ہوا یوں کہ میلانیا اور میرا صاحبہ میں کچھ ان بن ہو گئی۔ بات کچھ خاص نہ تھی۔ خاتون اول نے امریکا کا دورہ کرنا تھا۔ جہاز میں معمول سے زیادہ سیٹیں سیکیورٹی اسٹاف کے لیے مختص کر دی گئیں۔ کچھ نشستیں صحافیوں کو دی گئیں۔ جب کہ قومی سلامتی کی نائب مشیر اور ساتھی عہدے دار کے لیے کوئی سیٹ نہ چھوڑی گئی۔

اگر نشستیں نہ بچیں تو محکمہ خارجہ اور قومی سلامتی کے عہدے دار علیحدہ طیارے پر جاتے ہیں تاکہ پالیسی سطح کی مشاورت فراہم کر سکیں۔ تاہم یہاں میرا ریکارڈل ڈٹ گئیں۔ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اس دورے کے لیے فراہم کردہ اپنے محکمے کے وسائل بھی استعمال نہ ہونے دیں گی۔

اس کھٹ پٹ کے بعد میلانیا ٹرمپ افریقہ گئیں تو اپنے لباس کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنیں۔ پالیسی اسٹاف ساتھ ہو تو مشاورت فراہم کرتا رہتا ہے کہ کیا پہنا جائے، کیا کہا جائے۔ میلانیا نے ایک موقع پر سفید رنگ کا ہیلمٹ پہن لیا جو افریقہ میں نو آبادیاتی دور کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بہت تنقید ہوئی۔

کچھ غلط خبریں بھی پھیلیں، جیسا کہ کہا گیا خاتون اول کے اسٹاف نے ہوٹل میں دس ہزار ڈالر اڑا دیے۔ میلانیا اس سب کو میرا ریکارڈل کی شرارت سمجھتی رہیں۔

لہذا خاتون اول دورہ افریقہ سے واپس آئیں تو نائب مشیر قومی سلامتی کے خلاف زہر اپنی جڑ پکڑ چکا تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر کو تو کہا ہی ہو گا کہ فارغ کرو اس کلموہی ریکارڈل کو۔ اخبارات بتا رہے ہیں کہ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے بھی کہا گیا کہ میرا ریکارڈل کو ہٹا دیا جائے۔ تاہم انہوں نے یہ درخواست یا حکم رد کر دیا۔

اس ان بن کو مہینہ ہی گزرا ہو گا کہ خاتون اول نے بم پھوڑ دیا (ہمیں تو یہ حرکت بم پھوڑنے سے کم نہیں لگی) ۔ رپورٹر حضرات کو میلانیا ٹرمپ کی ترجمان کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں لکھا جملہ سبھی کو چونکا گیا؛ ”خاتون اول کا دفتر سمجھتا ہے، میرا رکارڈل اس عزت کی حق دار نہیں رہیں کہ وہ وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دے سکیں۔ “

یعنی سادہ الفاظ میں، ٹرمپ کی بیگم چاہتی ہیں کہ قومی سلامتی کی نائب مشیر کو فارغ کر دیا جائے۔

پہلے تو بات ڈھکی چھپی تھی، لیکن ای میل کے بعد کوٹھے جا چڑھی۔ ایک غلغلہ بلند ہو گیا۔ ای میل سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد غیرت مند میرا ریکارڈل نے یہ عہدہ چھوڑ دیا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا، اب وہ امریکی انتظامیہ میں ہی ایک نئی حیثیت میں کام کریں گی۔ اس بات کی وضاحت تک نہ کی گئی کہ وہ نئی حیثیت کیا ہو گی۔ (جو ظاہر کرتا ہے فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا، یا میرا صاحبہ کو کھڈے لائن لگا دیا گیا) ۔

امریکا کے انتظامی امور میں صدر کی بیگم کی اس قدر کھلم کھلا مداخلت، کم از کم ہم نے اس سے پہلے ایسا کوئی واقعہ دیکھا نہ سنا۔ اس سے تو تاثر ملتا ہے کہ امریکی صدر اور ان کی بیگم اعلیٰ عہدے داروں کو بھی ذاتی ملازم ہی سمجھتے ہیں۔ پسند نہ آیا تو فارغ کر دیا۔

یہاں پاکستان میں خاتون اول کے سابق شوہر کو ناکے پر روکنے والا ڈی پی او تبدیل ہوتا ہے تو شور مچ جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ جواب طلب کر لیتی ہے۔ صوبے کا وزیراعلیٰ اور آئی جی وضاحتیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ وزیر کے کہنے پر مقدمات قائم نہ کرنے والا آئی جی اسلام آباد تبدیل ہوتا ہے تو عدالت نوٹس لیتی ہے اور انتظامیہ پیش ہو کر صفائیاں دیتی ہے۔ کوئی وزیر جو کہہ دے کہ ہم اگر آئی جی تک تبدیل نہیں کر سکتے تو الیکشن کرانے کی کیا ضرورت ہے، اس وزیر کی بھی پیشی ہو جاتی ہے۔

اور وہاں امریکا میں صدر کی بیوی سر عام کہہ دیتی ہے کہ وہ نائب مشیر قومی سلامتی کو خدمات سرانجام دینے کی حق دار نہیں سمجھتی اور کوئی طوفان نہیں آتا۔ وہاں کی سپریم کورٹ تک نوٹس نہیں لیتی۔

اور پھر یہ سب کہنے والی میلانیا ٹرمپ خود کیا ہیں؟ ایک سابقہ ماڈل، امریکی صدر کی بیوی؟ اس کے علاوہ ان کی کیا قابلیت یا صلاحیت ہے؟ دوسری جانب میرا رکارڈل امریکا کے محکمہ خارجہ، دفاع اور کامرس میں کام کر چکی ہیں۔ پینٹاگون کی مشیر رہ چکی ہیں۔ بوئنگ کمپنی کی نائب صدر رہ چکی ہیں۔ گویا نائب مشیر قومی سلامتی کا عہدہ پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا۔ اپنی محنت سے کمایا ہے۔ اور ان کے بارے میں امریکی صدر کی بیگم منہ اٹھا کر کہہ دیتی ہیں کہ میرا رکارڈل وائٹ ہاؤس میں کام کرنے کی حق دار نہیں۔

بھیا اُس جمہوریت سے تو یہ اپنی جمہوریت کہیں اچھی ہے۔ وہاں امریکا میں آپ نے دیکھ ہی لیا ہو گا کہ نا پسندیدہ سوال پوچھنے پر امریکی صدر کیسے صحافی کو جھاڑ پلاتا ہے۔ اس کے میڈیا چینل کو برا بھلا کہتا ہے، اس کے وائٹ ہاؤس داخلے پر بھی پابندی لگا دیتا ہے۔

گویا امریکی صدر یا ان کی بیگم کو جس نے انکار کیا، یا جس نے سوال کیا، اسے دیس نکالا ہی ملا۔

تو صاحب۔ جمہوریت جمہوریت کی گردان کرنے والے امریکا کے رویوں میں ہمیں تو قطعاً کوئی جمہوریت نظر نہ آئی۔ لہذا امریکی عہدے داروں کے لیے اپنا تو مشورہ مفت ہے۔ کام کرنا ہے تو صدر کی بیگم سے بنا کر رکھو۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood