سوشل میڈیا کا شہرِطلسم


اکیسیویں صدی میں ہم سوشل ویب سائٹس کے شہرِ طلسم میں جی رہے ہیں۔ ہم روز بروز سماجی ویب سائٹس کے سحر میں جکڑے چلے جارہے ہیں اور غیرمحسوس طور پر ان کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ سوشل ویب سائٹس جہاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائی ہیں، وہیں یہ ایسی زمینیوں کی صورت اختیار کرگئی ہیں جن پر نفرتوں کے بیج بوئے اور تعصب کی فصلیں اگائی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے اس بوائی اور کاشت سے زہر کی فصل ہی حاصل ہونی ہے۔

آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی میں پہلے پہل اپنا آپ اپنا نمایاں نظر آنا کسی سحر سے کم نہیں ہوتا۔ اسی طرح جیسے پہلی بار کسی نوجوان کے ہاتھ میں شناختی کارڈ آتا ہے اور اپنی پہچان کا احساس پورے جسم میں خوشی اور فخر کی لہر دوڑادیتا ہے۔ یہ ویب سائٹس تو اس کیفیت سے کہیں زیادہ سحر انگیز ہیں۔ اپنا نام، اپنا تعارف، اپنی تصویر، رتبہ اور ہر وہ قابل ذکر فعل جو ہم نے سرانجام دیا ہو یا نہ دیا ہو اپنے نام کے ساتھ ان ویب سائٹس کی دیواروں پر آویزاں کرکے ہم خوشی سے نہال ہوجاتے ہیں۔ یہ محاورہ اب پُرانا ہوگیا کہ ”نیکی کر دریا میں ڈال“ اب تو یوں ہے کہ کچھ بھی کر فیس بُک پر ضرور ڈال۔

حالیہ برسوں میں سائبر بلنگ پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کو پاکستان میں سماجی میڈیا کے ذریعے بدنام کیا جاتا ہے۔ منفی پیغامات یا تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 75% خواتین مردوں کی طرف سماجی میڈیا پر ہراساں کی جاتیں ہیں۔ جس کے لئے ان کی تصاویر کو جعلی اکاونٹ کے ذریعے استعمال کیا جانا عام ہے۔ ایسی صورتحال میں خواتین کا خاموشی سے اپنا سماجی میڈیا کا اکاونٹ بند کردینا مسلئے کا حل نہیں۔ بلکہ قانونی مدد لے کر مجرم کو کیفِ کردار تک پہچاناضروری ہے تاکہ مزید مجرمانہ ذہنوں کو پست کیا جاسکے۔ ہراساں کرنا، بلیک میلنگ یا سوشل میڈیا پر رکیک حملے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کے مائنڈسیٹ اور نظام انصاف کم زور ہونے کی وجہ سے خواتین شکایت کرنے اور آواز اٹھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ چناں چہ یہاں یہ بات اہم ہے کہ کہ اگر پاکستان میں اس حوالے سے قوانین موجود بھی ہیں تو کس حد تک ان پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ متعلقہ ادارے اس حوالے سے کتنے محترک ہیں۔

میری دوست پر ایک دن انکشاف ہوا کہ فیس بک پر ان کی فیک آئی ڈی بنائی گئی ہے، جس کے ذریعے غیراخلاقی تصاویر اور دیگر مواد شیئر کیا جارہا ہے۔ میری یہ دوست یونی ورسٹی میں تدریس کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ سو خاتون ہی نہیں استاد کی حیثیت سے بھی ان کی عزت اور وقار خطرے میں تھے۔ پریشان خاتون نے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا، تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ حرکت کرنے والا کوئی اور نہیں ان کے ادارے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو ادارہ میری خاتون دوست کچھ عرصہ پہلے چھوڑ چکی تھیں۔ بہرحال معاملہ سامنے آنے کے بعد باقاعدہ کارروائی کا ارادہ کیا گیا۔ جس کے بعدFIA سے رابطہ کیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔ سال بھر بعد ان کی محنت رنگ لائی، کیس درج ہوا، وہ شخص پکڑا گیا اور اس کے خلاف کارروائی عمل میں آئی۔ اور پیکا  PECAکے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

میری دوست تو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں، انھوں نے بہت پریشانی کے ساتھ سہی، صورت حال کا سامنا کرلیا۔ لیکن اگر کسی عام عورت کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو وہ کیا کرے گی؟ وہ کیسے سامنے آکر اپنے مسئلے پر بات کرسکتی ہے؟ یہ صرف مفروضہ نہیں ایک تلخ حقیقت ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے کے ساتھ خواتین کی سیکیوریٹی کا مسئلہ ایک نئی صورت میں سامنے آتا ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنے، بلیک میل کرنے اور بدنام کرنے کے لیے اب سیاہ کردار لوگ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔

مسلہ یہ ہے کہ ہم ایسی کسی کارروائی کو اب بھی جرم تصور ہی نہیں کرتے بلکہ خاموش رہنا اس کا واحد حل گردانتے ہیں۔ پیکا PECA کے قانون کا نافذ ہونا پاکستان میں خوش آئند ہے لیکن اب بھی اس حوالے سے عوام میں شعور نا ہونے کے برابر ہے۔ اگر کسی کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تو اسے فورا FIA میں شکایت کرنی چاہیے۔ پیکا کے قانون کی شق 18 کے مطابق آن لاین ہراسمنٹ ثابت ہونے کے بعد تین سال قید بامشقت یا ایک ملین روپے جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے کا چلن یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کو یونی ورسٹی جاتے ہوئے راستے میں کوئی اوباش شخص تنگ کرے اور وہ اس بارے میں گھر پر بتائے تو اس کی تعلیم چھڑوا کر گھر بٹھا دیا جاتا ہے، اگر کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو ہدایت ملتی ہے کہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤ، اگر کسی عورت کو فون پر تنگ کیا جارہا ہے تو اس مسئلہ کا حل عورت کے فون اٹھانے پر پابندی لگاکر نکالا جاتا ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی یہی مائنڈسیٹ اپنا کام کرتا ہے۔ مردوں کی طرح خواتین کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا پورا حق ہے، لیکن اگر کسی خاتون کو ہراساں یا پریشان کیا جائے تو اسے ٹیکنالوجی سے دور کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت یا لڑکی کو بلیک میل کیا جا رہا ہو اور وہ یہ مسئلہ سامنے لائے تو سب سے پہلے وہ مجرم قرار پاتی ہے۔ یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس نے کچھ کیا ہوگا، اس کی غلطی ہوگی۔ ایسے میں وہ بہت سے لوگوں کے سامنے ذلت اور شرمندگی سہنے کے بہ جائے ایک شخص کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر کوئی خاتون ایسے کسی مسئلے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے تو اس پر اعتماد کیا جانا چاہے، اسے تسلی دینی اور اس کی مدد کرنی چاہیے، مگر اس کے لیے مائنڈسیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔

سائبر کرائم ایکٹ جو کہ 2016 میں منظور ہوا جس کا مقصد سائبر کرمنلز کو قانون کے کھٹرے میں لانا ہے۔ سابقہ مملکتی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالاجی اینڈ ٹیلیکمینوکیشن انوشا رحمان اس حوالے سے لاتعداد زندگیان سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے ذریعے برباد ہونے کا ذکر کر چکی ہے۔ قانون پاس ہوئے ہونے کو 3 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک سائبر کرائم ایکٹ پرعملدرآمد کے متعلق آگا ہی کے حوالے کوئی مہم نہیں چلائی گئی ہے۔ لیکن اس حوالے سے ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) سائبر کرائم ایکٹ کے متعلق آگاہی مہم چلا رہی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2