جون ایلیا، احمد جاوید اور ہم سب


عدم برداشت صرف مذہبی لوگوں کی میراث نہیں۔ ہمارا ادبی حلقہ بھی اس دولت سے مالامال ہے۔ ان دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کی بہت سی خصلتیں ملتی جلتی ہیں۔ مثلاَ یہ لوگ اپنا چھوٹا پن چھپانے کے لیے علمی بحث کے بجائے ذاتی حملے کرتے ہیں۔ اسی چھوٹے پن کا مظاہرہ کچھ لکھاریوں نے احمد جاوید کی یہ رائے سننے کے بعد کیا ہے کہ جون ایلیا کے کلام میں ایک بھی بڑا شعر نہیں۔

نومبر 2017 میں انیق احمد صاحب کے مکان پر میں نے اور میرے چھوٹے بھائی شہاب نے احمد جاوید کا لیکچر بہ عنوان “جون ایلیا: پہلی نشست” ریکارڈ کیا تھا۔ یہ نشست میری اور صحافی عباد احمد کی درخواست پر منعقد ہوئی تھی جس میں کراچی کی چند ممتاز علمی و ادبی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ میرے ممدوح اور جون ایلیا کے مداح جناب مبشر علی زیدی بھی موجود تھے۔ بات یہ ہے کہ میں اور عباد احمد بھی جون کے شیدائی ہیں۔ ہم بھی جون کے کلامِ مقدس کا تعویذ لٹکائے جون کے نام کی جے جے کرتے ہیں۔ میں نے کوئی نو دس برس قبل کالج کے زمانے میں جون کی شاعری کی تمام کتب خرید کر پڑھی تھیں۔ کئی غزلیں زبانی یاد ہو گئیں۔ جون کی شاعری دل لگانے اور دل بہلانے کا وظیفہ ہے۔ لیکن میرے ادبی و معنوی شعور کی دنیا میں ایک نیا سورج اس دن طلوع ہوا جب میں نے احمد جاوید صاحب کو سراج اورنگ آبادی کی شہرہ آفاق غزل” خبرِ تحیر عشق سُن” کی شرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس وڈیو لیکچر نے مجھے معنی آفرینی کے تحیر میں مبتلا کر کے میرے لیے خبر کی حقیقت اور عشق کی تعریف بدل کر رکھدی۔ میں احمد جاوید کے لیکچرز سنتا رہا۔ اور پھر وہ دن آیا جب میں جاوید صاحب کا لیکچر ریکارڈ کر رہا تھا۔

جون ایلیا کی شاعری پر جاوید صاحب کا لیکچر یوٹیوب پر اپلوڈ ہونے کے بعد ادبی حلقوں میں اس تبصرے کی گونج سنائی دینے لگی۔ تاہم اس لیکچر نے اصل ہلچل تب مچائی جب معروف صحافی رافع محمود نے جاوید صاحب کا تبصرہ جون ایلیا مرحوم کی برسی کے موقع پر شایع ہونے والے اپنے مضمون میں شامل کیا۔ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے اس آرٹیکل میں ممتاز شعرا اور نقاد کی رائے بھی شامل کی گئی۔ یہ مضمون چھپنے کے بعد جون ایلیا کے فیس بُکی عاشق آپے سے باہر ہوگئے۔ جون کے فدائیوں نے نہ آئو دیکھا نہ تائو اور احمد جاوید پہ ذاتی حملے شروع کر دیے۔ سوشل میڈیا کے جہادیوں کا کیا کہنا، کچھ لکھاریوں نے بھی مکمل لیکچر سننے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے لگتا تھا شاید لوگ پڑھتے نہیں، اب معلوم ہوا کہ ہمارے لوگ سنتے بھی نہیں۔ یہ لیکچر پونے دو گھنٹے کا ہے۔ لیکچر کے آغاز میں جاوید صاحب نے جون ایلیا کی شاعرانہ عظمت بیان کی۔ جاوید صاحب کے مطابق جون حضرتِ بیدل سے متاثر ہیں۔ جاوید صاحب کہتے ہیں:

“جون ایلیا کا نظامِ احساس ایسا ہے کہ ہمارا محسوساتی درو بست اس کے لیے ناکافی سا لگتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے احساسات کی شدت یا قوت کو بڑھانا پڑھتا ہے، ہمیں اپنے محسوساتی حدود میں توسیع کرنی پڑجاتی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے اور جون ایلیا اس میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز نہیں، بلکہ شاید واحد ہیں۔ یہ ان کی شاعرانہ خصوصییت کا، میری رائے میں، ایک بہت بڑا حصہ ہے۔“

اس کے بعد تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ جاوید صاحب کی رائے میں جون اظہارِ معنی میں اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گئے۔

“جہاں وہ مضامین کو بیان کرتے ہیں تو ان کے ہمعصروں میں ان جیسی روانی، ان جیسی سبکی، ان جیسا بہائو، اور ان جیسی رنگا رنگی کہیں نہیں ۔۔۔ ان کے جو بھی سینئر یا جونیئر معاصر ہیں وہ اظہارِ مضامین میں جون ایلیا سے بہت پیچھے ہیں۔ لیکن اظہار معانی میں جون اییلیا اپنے کئی ہم عصروں سے پسماندہ ہیں۔”

اظہارِ مضامین اور اظہارِ معنی میں کیا فرق ہے؟ جاوید صاحب جواب دیتے ہیں:

“مضامین کا تعلق ذہن کے منطقی درو بست، اور ذہن اور واقعہ کے نسبت سے زیادہ ہوتا ہے۔ معنی کا انحصار ذہن اور حقیقت کے تعلق پر ہے۔ یعنی وہ حقیقت جو ماوراءِ تجربہ ہے، وہ حقیقت جو واقعیت کےمظاہر میں سموئےجانے سے ماورا ہے ۔۔۔ ذہن اور حقیقت کے نتیجے کو معنی کہتے ہیں، ذہن اور واقعے کے نتیجے کو مضمون کہتے ہیں۔ اب یہ انشا اللہ آسان ہے۔“

نہیں جاوید صاحب! یہ ابھی بھی آسان نہیں۔ اور سہل کریں۔ جاوید صاحب مزید وضاحت کرتے ہیں:

“معنی میں تاریخیت کا عنصر نہیں ہوتا، مضمون میں تاریخی پن غالب ہوتا ہے۔ معنی کے لیے طرزِ احساس میں passion غالب ہوتا ہے، مضمون کے لیے احساسات ایک دوسرے سے مربوط اور تصدیق ہوسکنے والی حالت میں پہنچ جائیں اتنا کافی ہوتا ہے۔ معنی کے لیے درکار احساس qualified مخاطب ہی کے ساتھ share ہوسکتا ہے، مضمون کی تشکیل میں کارفرما احساس کی کوئی pre-qualification نہیں ہے، وہ ہر آدمی اپنے حسیاتی نظام میں اس کو share کرلیتا ہے۔ “

اس وضاحت کے بعد جاوید صاحب کہتے ہیں:

“جون ایلیا کے یہاں کوئی بڑا شعر نہیں۔ بڑا شعر وہ جو universe of discourse ہو۔” اس لیکچر میں بڑے اشاعر کی چند مثالیں بھی پیش کی گئیں۔ جیسےغالب کے یہاں:

ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

جیسے میر کہتا ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

جیسے اقبال کی شاعری میں:

وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں

اور جیسے کہ جون ایلیا کے ہم عصر رئیس فروغ کا یہ شعر:

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے

ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

” یہ بڑے اشعار ہیں۔ بڑا شعر شاعری کے مجموعے میں اس جزو کی طرح ہوتا ہے جو کُل سے زیادہ مکمل ہوتا ہے۔ یعنی پورا کُل اس سے کم مرتبہ ہوتا ہے۔ جون ایلیا کے یہاں مشہور شعر بہت ہیں۔ ان کے اشعار میں technique کی سہولت، روانی، ایک خوش گوار پیچیدگی، اور انگیزی والا pun ہونے کی کیفیت ایسی ہے کہ اسے یاد رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔۔۔ لیکن بڑا شعر ہوتا ہے جیسے

خبرِ تحیرِ عشق سُن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بےخبری رہی

اب اس میں ہر لفظ ایسا ہے کہ معنی کے بارے میں تمام تصورات کو ایک ایک لفظ میں آپ کھپا سکتے ہیں۔ آپ کا تصورِ معنی اس شعر میں برتے گئے لفظوں میں بھر بھی جائے تو اس لفظ میں اپنا ذاتی خلا برقرار رہے گا۔۔۔ جون ایلیا نے نئے الفاظ، نئی تراکیب بہت ساری دی ہیں ۔۔۔ لیکن ایسا لفظ نہیں دیا جو میرے شعور کی کفالت کرسکے، جو میرے passion کی پرداخت کا ذمہ لے سکا۔ یعنی انہوں نے کوئی علامت create نہیں کی۔“

یہ علامت کیا ہے اور یہ کیسے create ہوتی ہے؟ جاوید صاحب بتاتے ہیں:

“زبان کی تین سطحیں ہوتی ہیں۔ ایک لفظ سادہ معنی میں۔ پھر وہ لفظ ترقی کرکے استعارہ بنتا ہے۔ یعنی اپنی صوری فارم میں اپنی توسیع کرتا ہے۔ پھر وہ استعارہ عروج پکڑ کرعلامت بنتا ہے، وہ اپنی معنویت کو غیر محدود بناتا ہے۔ یعنی لفظ ااپنی صورت کو مکمل کرتا ہے استعارہ بن کر۔ لفظ اپنی معنویت کو کامل بناتا ہے علامت بن کر۔ اور علامت بننے کے بعد لفظ پورے بیان پر حاکم کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ یعنی ایک شعر میں ایک علامت آتی ہے تو اس شعر کا پورا نظامِ معنی اس علامت کی تحویل چلاجاتا ہے، اس علامت کی محتاجی میں چلا جاتا ہے۔“

جاوید صاحب! کیا آپ چند بڑے شاعروں کے یہاں علامت کی مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟ جون ایلیا کے کلام میں یہ کمی کیوں ہے؟ اور آپ جون کی اس کمی کا بیان کیوں کر رہے ہیں؟ جاوید صاحب اسی لیکچر میں‌ جواب دیتے ہیں:

“جس طرح اقبال کے یہاں “شاہین” اور” گُلِ لالہ”۔ رومی کی “نے”۔ غالب کے یہاں “برق” اور “آئینہ”۔ [دراصل] جون ایلیا کی زباں دانی vertical نہیں، horizontal  ہے۔ جون ایلیا کی زباں دانی لفظ اور معنی کے رشتوں میں پیچیدگی اور وسعت پیدا کرنے کا tool  نہیں ہے، بلکہ لفظ اور شے کے درمیان تعلق کے چونکا دینے والے نتائج ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ چھوٹی بات نہیں۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جون ایلیا کا اچھا شاعر ہونے کے باوجود بڑا شاعر نہ بن سکنے کا سبب کیا ہے”

اس مضمون میں جاوید احمد سے کیے گئے سوالات فرضی ہیں‌۔ میں نے یہ سوالات لیکچر کو سہل انداز سے پیش کرنے کی غایت سے لکھے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے نقاد بھی ٹاک شوز والا مزاج اپنا چکے ہیں۔ سوال چنا جواب گندم۔ سوال جون ایلیا کی شاعری، جواب احمد جاوید کا ماضی حال مستقبل۔ اس لیکچر کے جواب میں ایک مضمون علی زریون نے بھی لکھا۔ اتنے بڑے آدمی کا مضمون دیکھتے ہی میں گمان کیا کہ اس میں احمد جاوید کے “بڑے شعر” کی تعریف پر گرفت کی گئی ہوگی۔ زریون صاحب ہمیں بتائیں گے کہ بڑا شعر اصل میں ہوتا کیا ہے اور جون کے کلام میں سے بڑے اشعار کے نمونے پیش کریں گے۔ لیکن اس مضمون میں‌بھی ٹاک شو والا ماحول تھا۔ احمد جاوید کی علمی تنقید کا جواب کہیں نہیں۔ وہی apologetic behavior  کہ: “اگر جون صاحب بڑے شاعر نہیں ہیں تو آپ کے یہاں تخلیقی و فکری بڑائی و بزرگی کے معیارات بڑے نہیں ہیں۔” تو بھائی یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ بڑے معیارات بڑی تنقید کےنتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے مضمون “جون ایلیا کا جہان احمد جاوید کی دنیا سے الگ ہے” میں زریون صاحب احمد جاوید کی علمی تنقید سے گریز کرتے ہوئے ان کی شاعری پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک اچھی کوشش تھی۔ مجھے لگا کہ زریون صاحب یہ کہیں گے کہ احمد جاوید کے “بڑے شعر” کی تعریف کے مبابق ان کا اپنا کون سا شعر بڑا ہے؟ لیکن زریون صاحب کی تنقید کی بڑائی ملاحظہ کریں:

“واجب التعظیم بزرگ جنابِ احمد جاوید صاحب سے ہی یہ استفسار کرنا ہے کہ حضور چھوٹا منہ بڑی بات، لیکن آپ کے پاس جو نوادراتِ شعر کے خزانے ہیں، ان میں سے بس ایک ہی جوہر ایسا ہے جس کی بازگشت ہم نے سنی ہے۔۔۔

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے

لنگر سے روٹی لیتا ہوں پانی سبیل سے!

آپ کے گھٹنوں کو چھو کر سوال کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ آخر یہ کیسا ہی خود کفیل دل ہے جو دعوی خود کفالت رکھ کر بھی لنگر سے روٹی اور پانی سبیل سے لے رہا ہے؟”

اب کوئی اہلِ دل زریون صاحب کو بتائے کہ علی کے لنگر کی روٹی اور حسین کی سبیل کے پانی کے بغیر کوئی کہاں خود کفیل ہوتا ہے۔ اس کے بغیر تو آدمی سعودی کفیل کے مزاج کا ہوجاتا ہے۔ اِسے آپ میری رائے کہہ سکتے ہیں۔ خدارا! شرک و بدعت کا فتوی نہ لگائیے گا۔ میں‌ صوفی مزاج آدمی ہوں۔ ہاں، صوفی ہونے سے یاد آیا کہ ایک مربتہ میں نے جاوید صاحب سے علامہ جاوید احمد غامدی کے حوالے سے شکایت کی۔ میں نے کہا کہ غامدی صاحب صوفیوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ جاوید صاحب سے کئی گھنٹوں‌ پر محیط ملاقات کے دوران میں‌ غامدی صاحب کی تنقید کے جواب میں اپنے تئیں دلائل پیش کرتا رہا۔ جاوید صاحب میرا دل رکھنے کے لیے مُسکراتے رہے۔ گفتگو کے دوران میں جذباتی ہوگیا اور میں نے یہ کہہ دیا کہ شاید غامدی صاحب کو صوفیوں سے کوئی ذاتی مسئلہ ہے۔ یہ جملہ سُنتے ہی جاوید صاحب کے چہرے پر سنگینی آگئی۔ کہنے لگے نجم صاحب خیالات پر تنقید کریں، ذات کو ہدفِ تنقید نہ بنائیں۔ غامدی صاحب بڑے آدمی ہیں۔ اس دور کے بڑے عالموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کی تنقید کو اپنی صوفی عینک اتار کر دیکھیں۔ جو بات درست لگے قبول کرلیں، جس بات سے اختلاف ہو اس کا رد پیش کریں۔ ذاتی حملہ چھوٹے پن کی نشانی ہے۔

جاوید صاحب کی اس نصیحت نے میرے دل پر بڑا اثر کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ تصب سے پاک ہوجانے نام تصوف ہے۔ جون کو صوفی بزرگ ماننے والے احباب بھی اس نصیحت پر غور فرمائیں اور جاوید صاحب کے اس شعر کا لطف اُٹھائیں:

مجھ سے بڑا ہے میرا حال

تجھ سے چھوٹا تیرا خیال

نجم سہروردی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نجم سہروردی

نجم سہروردی دی نیوز انٹرنیشنل، ایکپریس ٹریبیون اور انگریزی چینل ٹریبیون 24/7 میں بطور رپورٹر، سب ایڈیٹر اور نیوز پروڈیوسر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان دنوں لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ''مذہب، قانون اور معاشرے" کے موضوع پر ماسٹرز کر رہے ہیں

najam-soharwardi has 7 posts and counting.See all posts by najam-soharwardi