مبارک ہو گوری پھنس گئی ہے


سوہنی تو دریا پار کر کے مہینوال سے ملنے جاتی تھی مگر یو ایس اے کی ماریہ ہیلینا سمندر پار کر کے کاشف کے پاس سیالکوٹ پہنچ گئی۔ سوہنی کو کچا گھڑا لے ڈوبا تھا لیکن ماریہ کو آہنی جہاز نے منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ اسی خوشی میں ایک نجی ٹی وی کے اینکر پرسن نے اس جوڑے کا مختصر انٹرویو کیا جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ ماریہ ہیلینا 41 برس کی ہیں اور کاشف کی عمر 21 برس۔ ماریہ ویٹنری ڈاکٹر ہیں اور کاشف بی کام کر رہے ہیں۔

اینکر پرسن کی باچھیں خوشی سے کھلی پڑ رہی تھیں اور وہ اپنی بے پایاں مسرت کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کاشف سے سوالات کر رہے تھے۔

” اچھا تو یہ بتائیے آپ نے ان کو کیسے “گریب” کیا ؟ “

” جی انسٹا گرام پر بات ہوتی تھی۔ دس مہینے سے یہ سلسلہ چل رہا تھا۔” کاشف نے بتایا۔ اینکر پرسن نے اسی خوشی میں کاشف کے لئے ” منڈیا سیالکوٹیا ” والا گانا بھی گایا۔ کاشف کے دوست سے بھی بات کی۔ وہ بھی کسی گوری کی نگاہِ کرم کے منتظر تھے۔ اینکر پرسن نے کاشف سے درخوست کی کہ نوجوانوں کو بتائیں کہ جیسے آپ نے ایک گوری کو ” دبوچا ” ہے وہ بھی ایسی کامیابی حاصل کر سکیں۔ کاشف نے کہا یہ تو نوجوانوں کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے نوجوان کی کامیابی پوری قوم کی کامیابی ہے۔ اینکر پرسن کی خوشی دیدنی تھی۔ ایسی خوشی جو ہمیں 1992 کا ورلڈ کپ جیت کر ہوئی تھی۔

اب ذرا دوسرا رخ دیکھتے ہیں، فرض کریں کہ گوری کی جگہ سانولی ہوتی یعنی اس کے اپنے شہر کی لڑکی ہوتی۔ فرض کریں وہ ڈھلتی عمر میں اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کر رہی ہوتی۔ فرض کریں کہ انسٹا گرام پر اس کا رابطہ بی کام کے طالب علم کاشف سے ہوتا۔ فرض کریں کہ وہ شادی کرنے کا ارادہ کرتے۔ تو پھر کیا ہوتا۔

یہی ہمارے اینکر پرسن جو بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے ایک ” ٹیلینٹیڈ ” نوجوان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے وہی انتہائی سنجیدہ صورت بنائے بڑی دلسوزی کے ساتھ گلو گیر لہجے میں فرما رہے ہوتے:

 ” ناظرین یہ ہے وہ بد کردار، بد اخلاق اور منحوس انسان جس نے اپنے اجداد کی پگڑی اچھالی، جس نے اپنے باپ کی عزت کو مٹی میں ملا دیا اور یہ دیکھئیے وہ ناہنجار لڑکی جس نے اپنے خاندان کی عزت و ناموس کا جنازہ نکال دیا۔ اپنے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا۔ یہ دونوں نہ صرف شرم و حیا سے عاری ہیں بلکہ اپنی روایات، اقدار اور اخلاقیات سے بھی بے بہرہ ہیں۔ یہ سماج کے باغی ہیں۔

شکر کیجئیے کہ ہم میڈیا والوں نے وقت پر پہنچ کر ان کی شادی رکوائی ورنہ یہ تو ہنی مون پر نکل جاتے اور ہم سب اپنی رسوائی پر ماتم کرتے رہ جاتے۔ تب کاشف کے دوست بھی غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے کہتے، ” یقین کیجئے اس گھٹیا انسان نے ہمیں ذرا بھی پتا نہیں چلنے دیا۔ ہم تو سمجھتے تھے رات بھر انٹر نیٹ کی مدد سے نوٹس تیار کرتا ہے ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ گُل کھلا رہا ہے۔ اجی ہم تو کہتے ہیں یہ انٹر نیٹ سب برائیوں کی جڑ ہے۔ سوشل نیٹ ورک نے نوجوان نسل کو تباہ کر دیا ہے۔”

اس کے بعد اینکر پرسن بڑے گھمبیر لہجے میں کہتے: ” ناظرین آپ نے دیکھا آج کل کے نوجوان کس طرح بے راہ روی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ آ ئیے مل کر ان کی راہیں مسدود کریں۔ اتنے میں ٹی وی کا کوئی کارندہ اینکر پرسن کے کان میں کچھ کہتا اور وہ بڑے جوش سے بریکنگ نیوز دیتے۔

” ناظرین ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ شہر بھر کے نجیب الطرفین شرفا اور علما نے پنچایت میں فیصلہ کیا ہے کہ ان عشق زادوں کو موت کی سزا دی جائے۔ ان دونوں کے خاندانوں نے سزا پر فوری عمل در آمد کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ انہیں کس طرح موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ زہر دیا جائے، گولیوں سے چھلنی کیا جائے یا کلہاڑی سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔”

لیکن ہم کیوں فرض کریں۔ یہ سر پھرے دانشورجو ہمیں دہرے معیار کے طعنے دیتے ہیں۔ وہ دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہونہار نوجوان نے ایک کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ہمیں اس خوشی کو منانا ہے۔ مبارک ہو اے سیالکوٹ کے شہزادے تم نے اپنے شہر کا نام روشن کیا۔ مبارک ہو اقبال کے شاہین تم نے وطن کے نوجوانوں کو لہو گرم رکھنے کا سلیقہ بتا دیا۔ مبارک ہو بانکے اور سجیلے نوجوان تم نے ایک گوری کو پھانس لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).