ہم جنس پسندی اور احمدی سوال: ترقی پسند مسلمان کےکٹھن امتحان


\"khalduneگزشتہ ہفتے کے دو واقعات نے اسلامی دنیا، بالخصوص پاکستان میں، برسوں سے مقفل سوالات کا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو میں پچھلے اتوار کی رات کو عمر متین نامی ایک 29 سالہ افغان نژاد امریکی نے 50 ہم جنس پرستوں کو ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جمعے کو پیمرا نے حمزہ علی عباسی کے رمضان شو کی نشریات پر پابندی لگا دی کیونکہ اس پروگرام میں یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ کیا پاکستانی ریاست کو احمدی برادری کو غیر مسلم قرار دینے کا حق ہے یا نہیں۔ بظاہر تو ان دو واقعات میں کچھ قدر مشترک نہیں، لیکن اکیسویں صدی میں اسلام کی ترقی پسند تشریحات کے مستقبل کا دارومدار بالآخر ان مسائل کی بابت اصلاح پسند رویہ پہ ہوگا۔

حمزہ علی عباسی کے شو میں احمدیوں سے متعلق سوالات کا جواب کوکب نورانی اوکاڑوی نے اہل منبر و محراب کے برسوں سے آزمودہ ٹوٹکے سے دیا۔ کوکب نورانی کے فتوے کے مطابق ایسے سوالات کرنے والے ہر فرد کو \”اسی مقام پر گولی مار دینی چاہیے\”۔ پیمرا نے قتل پر اکسانے والے اور تشدد کے مطلوبہ ہدف کو یکساں سزا دے کر مجرمانہ اشتعال انگیزی اور علمی تجسس کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا نیز سوال اٹھانے والے کو خاموش کر کے مجازی اور حقیقی دونوں بندوقوں کا رخ بھی اس متجسس ذہن کی جانب موڑ دیا ہے۔

اسی طرح عمر متین نے آرلینڈو میں ہم جنس پسندی سے نفرت کی آڑ میں ہم جنس پسندوں کوگولیوں سے چھلنی کیا۔ کسی نظریے سے ہمیں کتنا ہی بیر کیوں نہ ہو اس کا نزلہ کبھی بھی کسی کمیونٹی کے افراد پر نہیں گرنا چاہیے۔

ہاں البتہ ہم جنس پسندی نہ تو کوئی عقیدہ ہے، نہ نظریہ، نہ کوئی بیماری اور نہ ہی کوئی یہودی سازش۔ 1500 سے زائد جانداروں میں ہوموسیکشویلٹی (ہم جنس پسندی) دریافت کی جا چکی ہے، جبکہ ہوموفوبیا (ہم جنس پرستوں کے خلاف تعصب اور نفرت) فی الحال صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔

آرلینڈو شوٹنگ کے پس منظر میں کٹر مذہبی تشریحات اور ہوموفوبیا کے درمیان تعلق کا ذکر ناگزیر تھا۔ لیکن ہم جنس پسندی کے خلاف تشدد اور تعصب پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔ جیسا کہ جمیکا، یوگنڈا اور روس میں ہم جنس پرستوں کے خلاف قوانین سے واضح ہوتا ہے۔ چین جہاں اکثر بزور شمشیر لادینیت نافذ کی جاتی ہے وہاں بھی ہوموفوبک قوانین پاس کئے جا چکے ہیں۔ اسی طرح موجودہ امریکی صدر باراک اوباما اور اس سال صدارتی الیکشن کی امیدوار ہلیری کلنٹن نے سنہ 2008 میں ہم جنس شادیوں کے خلاف ووٹ ڈالا تھا۔

 آج بہت سے مغربی ممالک میں ہم جنس پسندوں کے حقوق کا ارتقا کئی برس کے بحث و مباحثے کے بعد شادی کے حق تک رسائی حاصل کر چکا ہے، مسلم دنیا ابھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ایک مسلمان بھی، جینیاتی مجبوریوں کے باعث، ہم جنس پرست ہو سکتا یا  ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 13 برس سے اقوام متحدہ کی ہم جنس پرستوں کے لئےمنظور کی گئی قراردادوں کو مسلمان ممالک کا بلاک ڈی ریل کئے جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ 51 ممالک کے اس بلاک نے گیارہ ایل جی بی ٹی گروپوں کو اقوام متحدہ کے اجلاس برائے ایڈز میں آنے سے روک دیا تھا۔

مسلم دنیا کے ہم جنس پرستوں کے خلاف رویے کی بنیاد تین سطحوں پر ہے۔ یہ معاشرتی جبر، سائنس کی نفی اور کٹر مذہبی تشریحات پر مبنی ہے۔ مسلم معاشروں کی اکثریت سنہ 2016 میں شادی کے معاہدے میں رضامندی اور نجی زندگی کے قانونی تحفظ پر اتفاق رائے نہیں رکھتی اور ہر ایسے رشتے کو عزت و غیرت کے فرسودہ سانچے میں ٹھونس کر معاشرے کو ٹھیکے داری سونپ دیتی ہے۔ اسی طرح یہ ممالک اس سائنسی تصدیق کے بھی منکر ہیں کہ ہم جنس پسندی قدرتی رجحان ہے لیکن اس معاشرتی جمود کا جواز سائنس کے برعکس مذہبی تعلیمات سے نکالا جاتا ہے۔

ہم جنس پسندی کی \”اسلامی مذمت\” قوم لوط کی کہانی سے منسوب ہے جو عیسائی اور یہودی صحیفوں میں بھی یکساں موجود ہے۔ لیکن جب قوم لوط کی ہم جنس پسندی کا ذکر ہوتا ہے اور اس پر آنے والے عذاب سے متعلق خبردار کیا جاتا ہے، تو ان میں جنسی تشدد کے رجحان کا ذکر ہم بھول جاتے ہیں۔ قوم لوط محض ہم جنس پرست نہیں تھے، بلکہ زبردستی خلاف وضع فطری کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی تعلیمات کی ترقی پسند تشریح کے ساتھ ساتھ ہمیں جنسی سرگرمیوں میں رضامندی کا درس بھی دینا ہو گا۔

اس اجتہاد میں ہمیں تکفیر کے سوال پر بھی غور کرنا پڑے گا جس کا خمیازہ احمدیوں نے آئینی طور پر اور اہل تشیع نے غیر ریاستی عناصر کی خونخوار جارحیت کی شکل میں بھگتا ہے۔ حمزہ علی عباسی کا سوال بھی اسی حقیقت کی طرف چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے اشارہ کرتا ہے۔ جب داعش، القاعدہ اور طالبان  مسلمانوں کی اکثریت کو \”ناکافی مسلمان\” ہونے کی بنیاد پر کافر قرار دے کر ہولناک تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں تو ایسے میں کسی کمیونٹی کی ریاستی تکفیر نہ صرف اس برادری پر بلکہ ہر اقلیتی فرقے کے خلاف جارحیت کا جواز فراہم کر دیتی ہے۔

کسی بھی برادری کی تکفیر کے خلاف سوال اٹھانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تمام مسلمانوں سے اس فرقے کو مسلمان تسلیم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس طرح ہر فرد اور کمیونٹی کو ذاتی شناخت کا حق ہونا چاہیے، اسی طرح دوسروں کو کسی گروپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا بھی حق ہونا چاہیے۔ ہم ایسی سوچ کو متعصب کہہ سکتے ہیں لیکن کسی بھی فرد کو نظریاتی اختلاف ختم کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ستم ظریفی ہے کہ ریاستی سطح پر غیر مسلم قرار دے کر ہم نے یہ حق مسلمانوں سے بھی چھین لیا ہے کہ کون احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنا چاہتا ہے اور کون نہیں۔

اگر \”علماء\” کے اتفاق رائے کو قوم کے لئے حجت اور پتھر پر لکیر سمجھا جاتا تو اسلامی نظریاتی کونسل کے \”حقوق نسواں بل\” کے خلاف پر زور احتجاج نہ ہوتا اور ملک میں علما کی خود ساختہ تشریحات کے مطابق شرعی نظام کب کا نافذ کیا جا چکا ہوتا۔ ہمین سمجھنا چاہیے کہ جب ہر فرد کو اپنی سوچ کے مطابق مذہبی تشریح پر عمل کا حق دیا جائے گا، علماء کا کام مذہب اور جدیدیت کے درمیان فاصلے کو اجتہاد کے ذریعے دور کرنا ہوگا اور جمہوری ریاست عقائد کا نہ تو امتحان لے گی اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر تفریق کرے گی، تب جا کر ترقی پسند اسلام کا ارتقا شروع ہوگا۔

آج اعتدال پسند مسلمان حقوق نسواں کی بابت فیمنسٹ تشریح کے ذریعے اصلاحات لانے کی طرف گامزن ہیں۔ غالباََ تکفیر اور ہم جنس پسندوں کے حقوق اسلامی اصلاح پسندی کی دو فیصلہ کن منزلیں ہوں گی۔ اور فیصلہ کن مرحلے کبھی آسان نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments