’بچے رشتے داروں کے گھروں میں رل رہے ہیں‘


اویغور بچے

(فائل فوٹو)

چین کے صوبہ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی ‘ذہنی تربیت’ کے مراکز میں کئی ایسی خواتین بند ہیں جنھوں نے پاکستانی مردوں سے شادیاں کر رکھی ہیں۔

بی بی سی نے ان خواتین کے پاکستانی شوہروں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان خواتین کی نظربندی سے ان کے خاندان والوں، خاص طور پر بچوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور پورے کے پورے خاندان تتر بتر ہو گئے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے کچھ لوگ خود اپنی زبانی بتا رہے ہیں کہ چینی حکومت کی اس پالیسی سے ان کے خاندانوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

٭ ان کہانیوں میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

سنکیانگ کے کیمپوں کے بارے میں بی بی سی کی خصوصی سیریز سے مزید

چین کے خفیہ کیمپ

’چین میں قید ہماری بیویوں کو رہا کروایا جائے‘

‘چینی کیمپ میں میری بیوی کو برہنہ کیا گیا’

معمور خان

ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے سے ہے اور ان کا خاندان ملک بھر کی باڑہ مارکیٹوں کے دکانداروں کو مال سپلائی کرتا ہے۔

انھوں نے 2006 میں ایک چینی خاتون سے شادی کی تھی جس سے ان کے تین بچے ہیں جن میں سے دو پاکستان میں اور ایک چین میں پیدا ہوا۔ وہ اپنی کہانی کچھ یوں سناتے ہیں:

‘دونوں بڑے بیٹوں کو ایک چینی سکول میں داخل کروا دیا گیا، مگر 2017 کے آخری دنوں میں ہمارے لیے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے میرے دونوں بڑے بیٹوں کو سکول سے نکال دیا گیا اور کہا گیا کہ ان کا پاسپورٹ پاکستانی ہے اس لیے وہ چین کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک دن چین کے سکیورٹی حکام آئے اور میرے چھوٹے بیٹے اور بیوی کا پاسپورٹ طلب کیا اور اس کو ضبط کر لیا۔

‘میں چین کے حساب سے بھی متمول کاروباری شخص ہوں۔ ہر جگہ ہاتھ پیر مارے مگر کچھ بھی نہ بن پڑا بلکہ انھوں نے تو میری بیوی اور میرے چھوٹے بیٹے کے علاقہ چھوڑنے پر بھی پابندی عائد کر دی حالانکہ یہ بیٹا چین میں پیدا ہوا تھا۔

‘یہ صورتحال میرے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں میرے خاندان والے بھی ہر کوشش کر چکے ہیں، مگر کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔

‘پاکستان کے سفارت خانے کے تمام اعلیٰ اہلکاروں سے میرے ذاتی تعلق والے ہیں۔ وہ بھی زبانی تسلیاں دیتے رہے مگر میں بہت تنگ آ چکا تھا۔

‘میں نے اپنی بیوی کو گھر میں رہنے کا کہا کیونکہ اس کو علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی اور خود اپنے تینوں بچوں کو لے کر طویل سفر کر کے پاکستان کے سفارت خانے بیجنگ پہنچ چکا ہوں۔

‘میں نے سفارت خانے کو بتا دیا ہے کہ اب مجھے چین میں نہیں رہنا، کاروبار ختم ہوتا ہے تو ہو جائے، اور راستے پیدا ہوجائیں گے۔ مجھے میری بیوی اور چھوٹے بچے کا پاسپورٹ دیا جائے اور سفارت خانہ ویزا دے تاکہ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے ملک واپس چلا جاؤں۔’

ملک نور علی

پشاور کے نواحی علاقے کے رہائشی ملک نور علی گذشتہ 15 سال سے چین میں مقیم ہیں۔ وہ چند دن قبل صوبہ سنکیانگ سے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے پہنچے۔ ان کے ہمراہ تین بچے بھی ہیں۔

انھوں نے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے سے بی بی سی اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کئی سال قبل چین کاروبار کے لیے گئے تھے اور وہاں کی مقامی مسلمان خاتون کے ساتھ شادی کر لی تھی۔

ملک نور علی کے مطابق: ‘شادی کے بعد ان کے دو بچوں کی پیدائش پاکستان میں ہوئی جبکہ ایک بچہ چین میں پیدا ہوا۔ کاروبار چین میں تھا اس لیے وہ اپنا اور اپنے دو بچوں کا ویزا لگوا کر چین آ گئے تھے۔ چند سال تو حالات بہتر رہے مگر دو سال سے حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔

‘میرے دو بچوں، جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہیں، ان کو چین کے سکولوں میں داخلہ نہیں دیا جا رہا۔ میری بیوی اور چین میں پیدا ہونے والے سات سالہ بچے کا پاسپورٹ حکام نے ضبط کر رکھا ہے اور اس کی نقل و حرکت کو انتہائی محدود کر دیا ہے۔’

ملک نور علی کا کہنا تھا کہ ‘چین میں ہماری زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ واپس اپنے ملک پاکستان چلے جائیں، جس کے لیے میں اپنے کم عمر بیمار بیٹے کے ہمراہ طویل سفر کر کے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے میری بیوی اور بچے کا پاسپورٹ واپس کیا جائے، چین میں پیدا ہونے والے بیٹے کا اندراج میرے نام پر کیا جائے اور میری بیوی اور بچے کو پاکستانی ویزا دیا جائے۔’

اویغور بزرگ

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے چین میں کبھی بھی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ اگر چین کے حکام نہیں چاہتے تو میں واپس جانے کو تیارہوں لیکن اپنی بیوی اور بچوں کو کسی صورت چین میں نہیں چھوڑ سکتا۔ میرے معاملے میں پاکستان اور چین کے حکام انسانی ہمدری کی بنیاد پر غور کریں۔’

شمشاد حسین

شمشاد حسین لاہور کے رہائشی ہیں۔ وہ 2008 سے کاروبار کے لیے چین آ جا رہے ہیں اور انھوں نے 2016 میں چین میں شادی کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ بیوی کو ان سے ایک سال بعد ہی جدا کر دیا گیا تھا اور اس وقت وہ چین کے ری ایجوکیشن سینٹر میں ہے، جہاں پر چین کے احکام ان کے درمیان زبردستی طلاق کروانا چاہتے ہیں۔ ان کی کہانی انھی کی زبانی۔

‘میں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد چین سے گارمنٹس برآمد کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ میری زندگی میں تبدیلی 2013 میں آئی جب کاشغر کے علاقے کی ایک مارکیٹ میں میری ملاقات میری بیوی سے خدیجہ سے ہوئی اور ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔

مگر شادی کے کچھ ہی عرصے بعد حکام خدیجہ کو لے گئے اور اسے ری ایجوکیشن سینٹر میں بند کر دیا جہاں اسے دو سال ہو گئے ہیں۔ میرے احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کے بعد ایک دن چینی حکام نے مجھے اطلاع دی کہ خدیجہ سے میری ملاقات کروائی جا رہی ہے۔

یہ ملاقات کیا تھی۔ اس کو اور مجھے بڑے بڑے کیمروں کے سامنے بیٹھا دیا گیا۔ خدیجہ کے پیچھے چینی اہلکار بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ ری ایجوکیشن سنٹر میں بہت خوش ہے، یہاں پر اس کو بہت اچھا ماحول ملا ہوا ہے۔ وہ جلد ایک نئی زندگی شروع کرنے والی ہے جس میں میری کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے میں اس کو طلاق دے دوں۔

وہ بار بار صرف طلاق ہی پر اصرار کر رہی تھی اور میں حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ بڑے بڑے کیمروں اور ریکارڈرز کے سامنے میں اس پوزیشن میں بھی نہیں تھا کہ اس کو یاد دلا سکوں کہ ہم نے مستقبل کی زندگی کے لیے کیا کیا خواب سوچے تھے اور کیا کیا منصوبہ بندیاں کی تھیں۔

آخر کار میں نے جھنجھلا کر اس سے کہا کہ دنیا اوپر نیچے ہو جائے، وہ خوش ہو یا خفا ہو، میرا کاروبار بھلے برباد ہو جائے، چین کے حکام مجھے چین سے باہر نکال دیں، میں اس کو طلاق نہیں دوں گا۔ اگر وہ طلاق چاہتی ہے تو وہ اپنا وکیل کرے، میں بھی عدالت میں پیش ہو کر اپنا وکیل کروں گا جہاں چین کے قوانین کے مطابق فیصلہ ہو گا۔

میں واضح طو رپر دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہونٹوں پر تو مسکراہٹ تھی، اور وہ پرسکون نظر آنے کی کوشش بھی کر رہی تھی مگر اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

ملاقات ختم ہوئی تو میں نے چین اہلکاروں کو بھی کہا کہ میں خدیجہ کے طلاق کے مطالبے پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ یہ اس نے اپنی خوشی سے خود طلب کی ہو گی۔ جو عورت دو سال سے تحویل میں ہے، جس عورت کو آزادی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جس عورت سے دو سال بعد اس کا شوہر کیمروں اور نگرانی میں ملاقات کرتا ہوں اس کی کسی بات پر اس وقت تک یقین نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کو آزادی نہیں مل جاتی اور وہ آزادی سے اپنا فیصلہ کرنے والی حالت میں نہیں پہنچ جاتی۔‘

عبدالکریم

عبدالکریم گلگت بلتستان کے رہائشی ہیں اور ان کا خاندان ایک طویل عرصے سے چین میں کاروبار کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا:

‘میں نے چین میں 22 سال پہلے محبت کی شادی کی تھی اورمیرے تین بچے ہیں۔ 2014 سے پہلے کے حالات تو ٹھیک تھے مگر 2014 کے بعد چین کے مقامی حکام، جو پہلے وہاں کے مقامی مسلمانوں کو نشانہ بنایا کرتے تھے، اب انھوں نے پاکستانیوں اور ان کی چینی بیویوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اور میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔

‘یہ 2014 ہی کی بات ہے جب جب ہم میاں بیوی اپنے بچوں کے سکول گئے تو وہاں پر ہمیں بتایا گیا کہ حکام اور سکول انتظامیہ کو ہمارے بچوں کے اسلامی طور طریقوں پر تشویش ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی تربیت چین کے رسم ورواج کے علاوہ ملکی قوانین کے مطابق کی جائے اور اگر ضرورت پڑے تو ان کے والدین بالخصوص ماں کو بھی تربیت فراہم کی جائے۔

‘سکول انتظامیہ کی ان باتوں پر مجھے تشویش ہوئی جس پر میں نے اپنی بیوی سے تفصیلی بات چیت کی اور اس کو یہ تجویز بھی دی کہ کیوں نہ ہم بچوں کو پاکستان منتقل کر دیں جہاں ان کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی اور اگر چاہے تو وہ بھی بچوں کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو سکتی ہے۔

‘میری بیوی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا، مگر دو سال بعد جب وہ ایک غیر ملکی سفر کے لیے مقامی دفتر سے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے گئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ حکام نے اس کو بتائے بغیر اس کے پاسپورٹ کے اجرا اور تجدید پر پابندی لگا رکھی ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی سفر پر بھی پابندی ہے۔

‘اس نے حکام کے جانے کے بعد بتایا کہ انھوں نے پوچھا کہ ہمارے بچے اسلامی تعلیمات پر کیوں عمل پیرا ہیں، کیا ہم انھیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرواتے ہیں، کیا ان کو گھر میں قرآن پڑھایا جاتا ہے، کیا ہم بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں، کیا ہم دونوں میاں بیوی بچوں کو اپنے ہمراہ نماز پڑھاتے ہیں، کیا ہم دونوں میاں بیوی اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہیں؟

‘میری بیوی نے ان کو بتایا کہ میرا خاوند نماز تو پڑھتا ہے مگر بچوں کو تلقین نہیں کرتا، ان کو قرآن بھی نہیں پڑھایا جاتا اور اسلامی تعلیمات سے روشناس بھی نہیں کروایا جاتا۔ ان کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہم دونوں بچوں کے ہمراہ سعودی عرب عمرہ کے لیے جانا چاہتے تھے اس لیے پاسپورٹ کی تجدید کروانا چاہتے تھے تو انھوں نے اس پر واضح طور پر تشویش کا اظہار کیا۔

‘اب میں فکرمند ہو گیا اور میں نے بچوں کے پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کروا دی، مگر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی مجھے بچوں کا پاسپورٹ نہیں دیا گیا، اور بار بار سوال کرنے پر بھی کوئی معقول جواب نہیں ملا۔

‘2017 کے آغاز پر مجھے پاکستان آنا پڑا۔ ابھی پاکستان آئے ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ مجھے اطلاع ملی کہ رات کے وقت سکیورٹی حکام میری بیوی کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں، اور میری بیوی کے قریبی رشتہ داروں کو بتایا ہے کہ وہ بچوں کا خیال رکھیں۔

‘اب صورتحال یہ ہے کہ میرے تین بچے کبھی میری بیوی کے ایک رشتہ دار اور کبھی دوسرے کے گھر میں رُل رہے ہیں۔ بڑے دو تو کسی نے کسی طرح گزارا کر لیتے ہیں مگر چھوٹا ہر وقت روتا رہتا ہے۔ میری تقریباً روز ہی ان سے بات ہوتی ہے، مگر چھوٹا سنبھل کر نہیں دے رہا۔

‘وہ بار بار مجھ سے ضد کرتا ہے کہ میں چین آؤں اور اس کو اس کی ماں کے پاس لے کر جاؤں مگر میں بےبس ہوں۔

‘برسوں کی محنت سے کھڑا کیا کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور اب صرف یہ چاہتا ہوں کہ بچوں کو کسی طرح پاکستان لے آؤں اور جب بیوی آزاد ہو تو اس کو بھی پاکستان لے آؤں۔ مگر مجھے ویزا ہی نہیں دیا جا رہا۔ میں عالمی برادری اور حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کریں کہ میری بیوی پر کوئی الزام نہیں ہے تو اس کو رہا کیا جائے اور اگر کوئی الزام ہے تو مقدمہ چلایا جائے اور میرے بچے میرے حوالے کیے جائیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp