گورا لیگل، کالا الیگل


جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے عین اس وقت میکسیکو کے سرحدی قصبے تیجوانا میں گوئٹے مالا ، ہنڈوراس ، ایل سلواڈور وغیرہ کے پانچ ہزار تارکینِ وطن عورتیں ،بچے اور جوان ایک قطار میں انٹرویو کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ یہ تارکینِ وطن قریباً چار ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے جانے کتنے دنوں اور کتنی ذلتیں بھگت کے یہاں پہنچے ہیں۔

یہ بہتر اقتصادی مستقبل کی تلاش میں امریکا میں داخل نہیں ہونا چاہتے بلکہ اس لیے آنا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے سنا ہے کہ امریکا میں منشیات کے اسمگلروں اور وار لارڈز کے نجی ڈیتھ اسکواڈز نہیں ہوتے اور ریپسٹ کو عدالت سزا بھی دیتی ہے۔

جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے اس وقت میکسیکو کے سرحدی قصبے تیجوانا کو امریکی ریاست کیلی فورنیا سے ملانے والی شاہراہ پر خاردار باڑھ لگ چکی ہو گی اور نو ہزار امریکی فوجی بطور کمک سرحد پر بھیجے جا چکے ہوں گے۔ یہ اضافی فوجی صدر ٹرمپ کے بقول میکسیکو کے راستے حملہ آور قاتلوں ، ریپسٹ اور مشرقِ وسطی سے آنے والے دہشت گردوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روکیں گے۔

امریکا چونکہ ایک قانون پسند ملک ہے لہٰذا ان تارکینِ وطن کو انٹرویو کرنے کے بعد مسترد کیا جائے گا۔ کیونکہ امریکی قانون کے تحت اگر کوئی پناہ گزین جان کی امان کی دہائی دے تو اس کی درخواست بغیر انٹرویو مسترد نہیں کی جا سکتی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس قدر قانون پسند ہے کہ اس نے تو چند ماہ قبل میکسیکو کے راستے داخل ہونے والے ہزاروں پناہ گزینوں کی گزشتہ کھیپ میں شامل شیر خوار بچوں کو ماؤں سے الگ کر کے کیمپوں میں رکھا اور ان شیر خوار بچوں کو عدالت کے روبرو اپنا کیس پلیڈ کرنے کا موقع بھی دیا۔

چلیے دفع کریں اس قصے کو۔ کوئی اور بات کرتے ہیں۔

جب برطانیہ سے آزادی کے بعد یوگنڈا کے پہلے صدر ملٹن اوبوتے کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب ہونے لگا تو مغربی طاقتوں کی بلا واسطہ رضامندی کے ساتھ یوگنڈا کی مسلح افواج کے سربراہ عیدی امین نے جنوری انیس سو اکہتر میں اس وقت اوبوتے کا تختہ الٹ دیا۔

اگست انیس سو بہتر میں صدر امین نے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا۔ نوے دن میں ملک نہ چھوڑنے والوں کو املاک کی ضبطی کا مژدہ سنایا گیا۔ چنانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کے پاسپورٹ یافتہ ایشیائیوں نے جنوبی افریقہ ، کینیا ، بھارت ، پاکستان ، آسٹریلیا ، امریکا اور کینیڈا کی راہ لی۔ ان میں سے تیس ہزار برطانیہ جا کر بس گئے۔ غیرملکیوں کی بے دخلی کی پالیسی کی وضاحت اور دفاع کرتے ہوئے عیدی امین نے کہا ’’ ہمارا مقصد یوگنڈا کے عام باشندوں کو اپنی قسمت کا مالک بنانا ہے تاکہ وہ ملکی دولت میں پورے حصے دار ہو سکیں۔ یوگنڈا کی معیشت یوگنڈا کے باشندوںکے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔ ہمارے لیے پہلے یوگنڈا ہے بعد میں کچھ اور ’’۔ ۔ ۔

امریکی سفیر تھامس پیٹرک میلاڈی نے امریکی محکمہ خارجہ سے سفارش کی کہ امین حکومت سے تعلقات پر نظرِ ثانی کی جائے۔ کیونکہ یہ حکومت نسل پرست ، ظالمانہ ، نااہل ، غیر عاقلانہ ، اشتعال انگیز ، ناقابلِ اعتبار عسکری سوچ پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اسرائیل سمیت بیشتر ’’ مہذب ’’ دوستوں نے امین حکومت کا عالمی بائیکاٹ کردیا۔ برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک اور امریکا میں عیدی امین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ ان کی پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق سے براہِ راست متصادم تھیں۔ عیدی امین کو مغربی ذرایع ابلاغ میں قصائی ، جنسی درندہ ، مخالفین کے خون کا پیاسا ، پاگل ، ابلیس ، کالا جادوگر ، مسخرہ ، بن مانس اور جانے کیا کیا قرار دیا گیا۔ انیس سو اٹھہتر میں عیدی امین کو تنزانیہ میں جلا وطن معزول صدر ملٹن اوبوتے کے دستوں نے مغربی تائید سے معزول کردیا۔ امین نے پہلے لیبیا اور پھر جدہ میں پناہ لی اور دو ہزار تین میں وہیں انتقال ہو گیا۔

یوگنڈا میں تو یوگنڈائی ہزاروں برس سے رہ رہے ہیں۔ مگر تارکینِ وطن نے امریکا نامی ایک پورا براعظم بسایا۔ اس براعظم میں داخل ہونے والا پہلا غیرقانونی تارکِ وطن کولمبس نامی ایک شخص تھا۔ مگر کولمبس کی آمد کے بعد کے اگلے ساڑھے چار سو برس کے دوران امریکا ’’ غیر قانونی تارکِ وطن ’’کی اصطلاح سے ناواقف رہا۔ جب کہ پچانوے فیصد ریڈ انڈین اس اصطلاح کا پورا مطلب سمجھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے اور جو آج تبرکاً موجود بھی ہیں وہ اپنے ہی وطن میں تارک الدنیا ہیں۔

سفید امریکا کی ڈکشنری میں ’’ غیر قانونی ’’ تارک ِ وطن کی اصطلاح پہلی بار انیس سو چوبیس میں متعارف ہوئی جب امیگریشن ایکٹ نافذ ہوا اور یورپ سے آنے والے مہاجروں کا سالانہ داخلہ کوٹہ مقرر ہوا۔ مگر غیر یورپی مہاجرین کے لیے کوئی کوٹہ مقرر نہیں کیا گیا تاکہ ان کی قانونی آمد کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ امریکی ریاست ٹیکساس، نیو میکسیکو ، ایریزونا اور کیلی فورنیا ڈیڑھ سو برس پہلے تک میکسیکو کا حصہ تھیں۔ انھیں فوج کشی کر کے امریکا میں شامل کیا گیا اور اس فعل کو قانونی تصور کیا گیا۔

انیس سو بیس کے عشرے تک میکسیکو کے باشندے آزادانہ ان سابق میکسیکن ریاستوں میں صنعتی و زرعی مزدوری کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیپالی بغیر ویزے کے بھارتی ریاستوں میں آ جا سکتے ہیں یا کچھ عرصے پہلے تک یمنی سعودی عرب میں مزدوری کر سکتے تھے۔ مگر انیس سو چوبیس میں امیگریشن ایکٹ کے نفاذ کے بعد حالات بدل گئے۔ انیس سو انتیس میں جب امریکا عظیم کساد بازاری کی لپیٹ میں آیا تو اس کا نزلہ پہلی بار تارکینِ وطن پر گرا جو اب تک سرحد پار سے امریکا میں آنے جانے کے لیے قانونی دستاویزات سے ناواقف تھے۔

صدر ہربرٹ ہوور نے انیس سو انتیس تا تینتیس چار سالہ دور میں عظیم کساد بازاری سے تباہ حال امریکیوں کا دل جیتنے کے لیے ایک لاکھ اکیس ہزار میکسیکن باشندوں کو سرحد پار دھکیل دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد صدر ٹرومین نے چونتیس لاکھ تارکینِ وطن ( میکسیکنز ) کو واپس بھیج دیا کیونکہ جنگ کے بعد خود امریکی باشندوں کے لیے بھی روزگار پیدا کرنا تھا۔ ٹرومین کے بعد آنے والے صدر آئزن ہاور نے بھی اپنے دور میں تیرہ لاکھ تارکینِ وطن کو غیر قانونی قرار دے کر ہنکال دیا۔ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے ملی جلی پالیسی اختیار کی۔ کبھی سختی تو کبھی نرمی۔ آخری بار بل کلنٹن کے دور میں دس برس سے زائد عرصے سے قیام پذیر غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکی شہریت ملی۔ اس سے تقریباً ایک ملین لوگوں کو فائدہ ہوا۔

غیر قانونی تارکینِ وطن کو جزا و سزا کے پل صراط پر لٹکائے رکھنے کے کئی فائدے ہیں۔ ان سے قانونی باشندے زرعی و صنعتی بیگار لے سکتے ہیں۔ ان کی روک تھام کے قوانین بنانے والے ارکانِ کانگریس ، سرکاری اہلکار ، سرمایہ دار اور سیاستداں وغیرہ چوری چھپے گھریلو ملازم رکھ سکتے ہیں اور جب ووٹ بٹورنے ہوں تو انھیں جمہوریت کی قربان گاہ پر موقع پرستی کی چھری تلے با آسانی لٹانا بھی آسان ہے۔

باون فیصد غیر قانونی تارکینِ وطن میکسیکن ہیں۔ ناجائز تارکینِ وطن کی کل تعداد کا ساٹھ فیصد چھ امریکی ریاستوں (کیلی فورنیا ، ٹیکساس ، فلوریڈا ، نیویارک ، نیوجرسی اور الی نائے ) میں پایا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان چھ ریاستوں کے امیگریشن اور پولیس حکام کی نگاہ خاصی کمزور ہے۔

اس بار غیرقانونی تارکینِ وطن کو بطور سواری استعمال کرنے کی ضرورت ڈونلڈ ٹرمپ کو پڑ گئی۔ وہ ایسے امریکی صدر کے طور پر یاد رکھے جانے کے خواہش مند ہیں جس نے سب سے زیادہ غیر ملکی تارکینِ وطن نکالنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس اعتبار سے تمام صدور کو ایک سہولت ہمیشہ حاصل رہے گی۔ کوئی مورخ بھی انھیں امریکی عیدی امین کا لقب نہیں دے گا۔ کیونکہ عیدی امین ٹائپ کردار گوروں میں نہیں پائے جاتے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).