دنیا کے مسلمان …. خوف اور شرمندگی کے مارے ہوئے


\"mahnazامی کی زبانی بارہا یہ قصہ سنا تھا۔ ان کی شادی 30 جنوری 1948ء کو ہوئی تھی اور اسی وقت ریڈیو پر خبر آئی تھی کہ گاندھی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ سب دلہن کو چھوڑ کر باہر بھاگ گئے تھے۔ ہر کوئی ڈرا ہوا تھاکہ اگر قتل کسی مسلمان نے کیا ہے تو فرقہ وارانہ فسادات کی ایک نئی لہر چل پڑے گی، جب پتا چلا کہ قتل کسی ہندو نے کیا ہے تو مسلمانوں کی جان میں جان آئی۔ 9 / 11 کے بعد سے کچھ یہی حال ہمارا بھی ہے۔ جب بھی مغربی دنیا سے دہشت گردی کے کسی واقعے کی خبر آتی ہے تو ڈرے ہوئے دل میں ایک ہی اندیشہ جنم لیتا ہے، کہیں اس کے پیچھے کسی پاکستانی مسلمان کا ہاتھ تو نہیں۔ بد قسمتی سے اکثر صورتوں میں یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوتا ہے اور پھر ہم شرمندہ شرمندہ سے وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں کہ سارے مسلمان ایسے نہیں ہیں۔

سچ پوچھئے تو ہمیں سب سے زیادہ فکرمغربی ممالک میں جا بسنے والے پاکستانیوں کی رہتی ہے، جو وہاں محنت مشقت کر کے آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور ان ممالک کی شہریت بھی حاصل کر چکے تھے، ان کی نئی نسلیں وہیں پیدا ہوئیں، وہیں پروان چڑھیں اور اب اچانک وہ شک و شبہ کا نشانہ بن گئے ہیں اور ڈرے ڈرے اور شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں۔ ارسلان افتخار جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے وکیل ہیں (اوردی مسلم گائے ڈاٹ کوم کے بانی ہیں) کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا دیباچہ میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک رضا اصلان نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ جون 2015ء میں نیو یارک ٹائمز میں صفحہ اول پر شائع ہونے والے مضمون میں بتایا گیا تھا کہ 9/11 کے بعد سے اسلامی انتہا پسندوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ امریکی داخلی دہشت گردی کے واقعات میں سفید فاموں کی بالا دستی میں یقین رکھنے والے گوروں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ا ن میں اسکولوں میں گولیاں چلنے سے مرنے والے شامل نہیں ہیں۔ ڈیلن روف جیسے اجتماعی قتل کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ سفید فاموں کی برتری میں یقین رکھنے والے اس اکیس سالہ گورے نے ساﺅتھ کیرولینا کے ایک چرچ میں عبادت کرنے والے نو افریقی امریکیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ یا پھر ویڈ میکائیل پیج کی مثال لیجئے،جس نے وسکونسن میں ایک سکھ گوردوارے میں گھس کر عبادت کرنے والے چھ سکھوں کو مار ڈالا تھا کیونکہ وہ انہیں مسلمان سمجھا تھا۔ ایک انتہا پسند عیسائی رابرٹ ڈیئر نے کولوریڈو میں اسقاط حمل کے مرکز میں گھس کر ایک پولیس افسر اور دو دیگر لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ایف بی آئی کے بقول اسلامی دہشت گردوں کے مقابلے میں ناقص فرنیچر کی وجہ سے زیادہ امریکی مریں گے۔ آئی ایس آئی ایس یا القاعدہ کے مقابلے میں آپ کی زندگی کو فلیٹ اسکرین ٹی وی سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ ظاہر ہے آپ کے سیاست دان اور میڈیا والے آپ کو ایسی باتیں کبھی نہیں بتائیں گے۔ انہیں تو ہر مسلمان ایک جہادی نظر آتا ہے جو مغربی تمدن کو منہدم کرنے کے لئے کمر بستہ ہے۔ اس کے لئے محض میڈیا کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،ظاہر ہے میڈیا تو صارفین کو تفریح فراہم کرنے کا کاروبار ہے۔ میڈیا اسلام کا نام لے کر دہشت گردی کرنے والے چند لوگوں کو سارے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کرتا ہے کیونکہ ڈر کی بدولت ان کی پروڈکٹس بکتی ہیں۔ رہے سیاستدان تو انہیں ہمیشہ ڈر اور زینوفوبیا یعنی غیر ملکیوں سے نفرت پھیلا کر فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک سیاست نام کی چیز موجود ہے، سیاستدان ایسا کرتے رہیں گے۔ بہر حال ووٹ اور منافع کے حصول کے لئے ڈر پھیلا نے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا مذہبی تعصب کی ایک قابل قبول شکل بن چکا ہے۔

ارسلان افتخار نے ایک مرتبہ ہارورڈ یونیورسٹی میں اسلامو فوبیااور مغربی دنیا میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں میڈیا کے پاگل پن اور اقلیتی اسٹیریو ٹائپ کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی گروہوں کو مذہب، زبان اور نسل کی بنا پر عفریت تصور کرنا اب اسلامو فوبیا کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ نائن الیون سے پہلے امریکی مسلمانوں اور عرب امریکیوں کو ٹھوس امریکی شہری گردانا جاتا تھا جو اپنے خاندان، عقیدے اور ملک سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ لیکن اب وہ امریکہ میں قربانی کے بکرے بن چکے ہیں۔

جب اورلینڈو گے نائٹ کلب میں ایک مسلمان نے گولیاں چلا کر قتل عام کیا تو ایک دوسرے مسلمان نوجوان نے عقبی دروازہ کھول کر کئی لوگوں کی جان بھی بچائی تھی مگر سیاستدانوں اور میڈیا کو وہ نظر نہیں آیا۔ آخر کب تک امریکی اور یورپی مسلمان شک وشبہ اور نفرت کے سائے میں زندگی گزارتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments