مجھے ایک تعویذ کی ضرورت ہے


کبھی کبھی مجھے اپنا آپ ایک سلیبرٹی محسوس ہوتا ہے۔ چھوٹی موٹی والی بھی نہیں بلکہ اچھی خاصی مشہور سلیبرٹی۔ وہی والی سلیبرٹی جسے شاپنگ مال میں دیکھ کے حضرات بچیاں تاڑنا اور خواتین سیل میں سے کپڑے چھانٹنا بھول جاتی ہیں۔ دوڑ بھاگ کے بعد زبردستی ان کے ساتھ سیلفی بنائی جاتی اور فیس بک پر شیئر کی جاتی ہے اور بھلا ہو مارک زگر برگ کی بنائی ٹیکنالوجی کا جو ایسے شوخے لوگوں کو ٹوڈیز میموری کے نام پر سال بعد دوبارہ اس تصویر کو شیئر کرنے کا جواز فراہم کردیتی ہے۔

خیر بات سلیبرٹی کی ہورہی تھی، تو مجھے بھی اپنا آپ سلیبرٹی جیسا ہی لگتا ہے، جسے دیکھ کے لوگ بے ساختہ اپنی زندگی سے موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ اب جلتے ہیں کہ نہیں یا میرے جیسی زندگی گزارنے کی خواہش کرتے ہیں یا نہیں، یہ معلوم نہیں۔ کوئی مجھ پر، میرے طرز زندگی پر رشک کھا رہا ہوتا ہے تو کوئی یہ بتاتا ہے کہ کس طرح وہ خود کو کولہو میں جتا ہوا بیل سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کے پاس تو اپنے لئے بالکل وقت ہی نہیں بچتا ہے۔ کسی کو کھانا کھانے کی فرصت نہیں ملتی تو کوئی مبالغے کی حدوں کو چھوتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کر ڈالتا ہے کہ وہ تو اڑتالیس، اڑتالیس گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہتے ہیں کیونکہ سونے کی فرصت نہیں۔

اس موازنے اور میری زندگی پر رشک کھانے کی ہرگز ہرگز بھی وجہ یہ نہیں کہ میں کوئی حور پری ہوں جسے خدا نے مجھے چھٹی والے دن فرصت سے بنایا ہو اور نہ ہی میرے دروازے پر مرسڈیز میں باوردی شوفر کھڑا ہے۔ موازنے کی وجہ بہت سادہ سی ہے۔ میرے بچے نہیں ہیں۔

ابھی کل کی ہی بات ہے۔ یہ جملہ جذبات میں آکے لکھ دیا ورنہ قصہ تو یہ ہفتہ پرانا ہے۔ خیر ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ پیپر کی تیاری کے سلسلے میں کلاس فیلو کا فون آیا تووہ بتانے لگے کہ کس طرح وہ بیچارے اپنے بچوں کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ بچے تو کتابیں کھولنے ہی نہیں دیتے۔ ابھی ہم چشم تصور سے ان کی پرزہ پرزہ کتابیں اورکلاس نوٹس کے بنے کاغذی ہوائی جہاز کمرے میں اڑتے ہوئے دیکھ ہی رہے تھے کہ اس جملے سے حواس بحال ہوگئے کہ ”آپ کو تیاری کی کیا فکر آپ کے کون سا بچے ہیں“۔ یہ جملہ نیا نہیں تھا۔ لفظوں کے الٹ پھیر کے ساتھ یہی جملہ شادی کے ان سات برسوں میں کافی بار سننے کو ملا ہے، البتہ حیرت اس لئے ہوئی کہ خالصتاً زنانہ انداز کا یہ جملہ کسی مرد کے منہ سے پہلی بار سننے کو ملا تھا۔

یہ مضمون ابھی یہاں تک ہی لکھا تھا کہ یکایک موضوع سے میری دلچسپی ختم ہوگئی اور فائل ری سائیکل بن کے سپرد کردی لیکن بھلا ہو ہمارے خاندان، اہل محلہ اور جان پہچان والوں کا۔ بیچارے میرے لئے اس قدر پریشان رہتے ہیں کہ ہر دوسرے دن ہی کوئی نہ کوئی ہمدردی کا اظہار کر بیٹھتا ہے کہ نہ صرف اس موضوع میں دلچسپی دوبارہ پیدا ہوجاتی ہے، بلکہ اگلے پچھلے برسوں میں ملنے والے سب مشورے بھی دوبارہ یاد آجاتے ہیں۔ ابھی آج صبح کی ہی بات ہے۔

پڑوسن آئیں اور جاتے جاتے یہ مشورہ دے گئیں کہ آپ اپنی امی کی طرف کیوں نہیں منتقل ہوجاتیں۔ بلاوجہ ہی اتنے بڑے گھر کا کرایہ بھرتی ہیں۔ میاں کسی ہاسٹل میں شفٹ ہوجائیں، سوچیں کتنی بچت ہوگی آپ کی۔ یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ بچی ہوئی رقم ان کے بیٹے کے ولیمے پر سلامی میں دینا ہوگی یا پھر کسی اور مد میں استعمال کی جائے۔ اب بندہ پوچھے کہ ہمارے اماں ابا نے لاکھوں روپیہ اٹھا کے بھلا ہمیں اس لئے رخصت کیا تھا کہ دوبارہ انہی کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے پہنچ جائیں اور وہ بھی صرف اس لئے کہ بچے تو ہمارے ہوئے نہیں تو اب میاں کے ساتھ رہ کے، علیحدہ گرہستی بسا کے کیا حاصل۔

ایک اور محترمہ کو گھر میں موجود سامان سے پریشانی ہوئی۔ ”بچے تو ہیں نہیں۔ اتنا سامان کیا کرینگی؟ “ یہاں ”اتنا سامان“ سے مراد گیسٹ روم کا اضافی بیڈ ہوتا ہے یا پھر ڈرائنگ روم کا صوفہ، یہ معلوم نہیں کیونکہ اس کے سوا تو گھر میں کچھ فالتو سامان مجھے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اصل پریشانی کی وجہ تو یہ معمہ ہے کہ میں آخر سارا دن کیسے گزارتی ہوں۔ بچے تو ہیں نہیں سارا دن کیا کرتی رہتی ہیں؟ کبھی تو ہنس کے جواب دے دیتی ہوں اور کبھی یہ سوچ کے چپ ہوجاتی ہوں کہ بیچاری کی یادداشت کا قصور ہے کیا کیا جائے، ورنہ بچوں سے پہلے کی اپنی زندگی اور اس دور کی مصروفیات بھی یقیناً یاد ہوتیں اور ایسے سوال کی نوبت نہ آتی۔

سچ پوچھیں تو کبھی کبھی یہ سوالات بہت پریشان کرتے ہیں، خاص کر اس وقت جب ”خلوص“ اس حد کو پہنچ جائے کہ رات کے اڑھائی بجے میسج بھیج کے یہ دریافت کیا جائے کہ ”اینی گڈ نیوز؟ “۔ ایسے میں جی تو چاہتا ہے کہ تسلی دوں کہ بھئی کوئی گڈ نیوز ہوئی تو ڈاکٹر کی خدمات حاصل کرلی جائیں گی آپ کیوں اپنی نیند خراب کرتی ہیں۔ یا پھر جب یہ نادر شاہی فرمان سننے کو ملے کہ ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ لیکن خیر کیا کیا جاسکتا ہے۔ آخر کو بیچارے سب دور قریب کے جان پہچان والے، محلہ پڑوس مجھ سے زیادہ پریشان ہے کہ کب میرے گھر اولاد ہو اور میں ”مکمل عورت“ بنوں۔

یہ سب باتیں سن سن کے میرے دل چاہتا ہے کہ مجھے کوئی عامل بابا، کوئی پیر، فقیر کوئی بزرگ ملے جو مجھے میری پسند کا ایک تعویذ دے سکے۔ عام طور پر ان پیروں فقیروں سے بچے، شادی، اولاد نرینہ، دشمن کی موت کاروبار میں ترقی وغیرہ وغیرہ جیسے تعویذ ملتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کوئی تعویذ نہیں درکار، مجھے جس تعویذ کی تلاش ہے اس کا نام ہے ”اپنے کام سے کام رکھنا“۔ اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسا عامل بابا ہو جو ایسا تعویذ دے سکتا ہو تو برائے مہربانی مجھے ضرور بتائیے گا۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi