سعودی شاہی خاندان میں اقتدار کی کشمکش


’سعودی عرب‘ میں اقتدار کا سورج سَوا نیزے پر چمک رہا ہے، اور تختِ شاہی کے پائے لرز رہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اس وقت سعودی ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان کس طرح اپنے داغدار دامن کے دھبّے صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور عالمی افق پر اپنے اوپر آنے والی سیاہی کو صاف کر رہے ہیں وہ داغ جو واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی کے لرزہ خیز اور انتہائی بہیمانہ قتل نے اُن کے دامن کو اس طرح داغدار کیا ہے کہ تمام مہذّ ب دنیا میں اُس کی باز گشت کئی ہفتہ گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی ہے۔

جہاں تک مقتول صحافی کی لاش بازیا فت کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے لئے کبھی سننے میں آ رہا ہے کہ مقتول کی باقیات کو تیزاب میں تحلیل کیا جا چکا ہے تو کبھی کہا جارہا ہے کہ لاش کی باقیات مل گئی ہیں لیکن چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ بہر حال مقتول کی لاش کے ساتھ اس کا نام و نشان مٹانے کے لئے جو کچھ بھی معاملہ کیا جا چکا ہو قتل کی ہر کڑی اب ولی عہد کے دامن سے بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔

مقتول خشوگی کا قتل کر دیا جانا کیا سعودی عرب کے ولی عہد کو اتنا مہنگا پڑ جائے گا یہ تو انہوں نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا ہو گا کیونکہ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا خواہ وہ اُن کے اپنے شاہی خانوادے کے کا ہی کوئی فرد ہو اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل لیکن اس بارصحافی جمال خشوگی کا قتل اُ نکی شاہی بساط لے ڈوبنے کو ہے۔ اور اب شہزادہ کو اپنے تخت کوہر قیمت پر بچانے کی فکرہے اس سلسلے کی پہلی سیڑھی انہوں نے طے کر لی ہے اور اپنے ناراض چچا احمد بن عبدالعزیز کواپنے وطن واپس بلایا ہے، لیکن اُن کی جان کی حفاظت کی زمّہ داری اُن کے بیرونی آقا ؤں نے اپنے زمّہ لی ہے تب وہ سعودی عرب آ سکے ہیں، احمد بن عبدالعزیز نے وطن واپسی سے پہلے برطانیہ اور امریکا سے ضمانت لی ہے کہ انہیں سعودی عرب میں تحفظ حاصل رہے گا۔

واپسی سے پہلے احمد بن عبدالعزیز نے شاہی خاندان کے ناراض اور خودساختہ جلاوطن ارکان سے ملاقاتیں کیں۔ ریاض پہنچ کر انہوں نے شاہی خاندان کے سینئر ارکان، جو ولی عہد سے بدظن اور ناراض ہیں، ان سے بھی ملاقات کی۔ لیکن ائر پورٹ پر اپنی آمد کے موقع پر وہاں موجود ولی عہد بن سلمان کی دست بوسی کی خواہش پوری نہیں ہونے دی جو دست بوسی کی تشہیر کر کے دنیا پر اپنا اچھّا اثر قائم کرنا چاہتے تھے۔

دوسری جانب 11 ماہ سے گرفتار اپنے کزن خالد بن طلال کی رہائی ہے اس رہائی کا فی الحال دور دور تک امکان نہیں تھا۔

امریکی اور عرب میڈیا کی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز کا مشن ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار کو چیلنج کرنا یا اس چیلنج کے لیے کسی موزوں شخصیت کو تلاش کرنا ہے اور 3 سینئر شہزادے اس مشن میں احمد بن عبدالعزیز کے ساتھ ہیں۔ جرمنی میں خودساختہ جلاوطن شہزادہ خالد بن فرحان کا کہنا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز اور مقرن بن عبدالعزیز ہی شاہی خاندان کا وقار بحال کرسکتے ہیں جو جمال خشوگی کے قتل کے بعد داغدار ہوچکا ہے۔ استنبول اور لندن میں جلاوطن کچھ دیگر شہزادوں کا خیال ہے کہ احمد بن عبدالعزیز بذاتِ خود ولی عہد کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا احمد بن عبدالعزیز شاہ فیصل کی طرح کامیابی حاصل کر سکیں گے؟

شاہ فیصل نے 1964 ء میں شاہ سعود کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تھا۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ولی عہد محمد بن سلمان کے اقتدار اور اداروں پر کنٹرول اور دیگر شہزادوں کی پوزیشن کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اقتدار کی اس کشمکش کے اصل فریق خاندان کے اندر کون ہیں اور بیرون ملک کس کو بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ محمد بن سلمان نے ولی عہد بنتے ہی شہزادہ مقرن بن نائف سمیت اہم انٹیلیجنس سربراہوں کو عہدوں سے ہٹایا۔ مقرن بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے بھی ہٹایا گیا تھا اور پھر انہیں منشیات کا عادی قرار دے کر شخصیت مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں محمد بن سلمان کے میڈیا مشیران بھی شامل تھے۔

متعب بن عبداللہ نیشنل گارڈز کے سربراہ تھے، انہیں بھی برطرف کیا گیا۔ متعب بن عبداللہ کے وفاداروں کو بھی نیشنل گارڈز سے نکالا گیا۔ محمد بن سلمان نے اپنے وفاداروں کو آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے کر میجرجنرل احمد حسن العسیری جیسے لوگوں کو اہم عہدے دیے۔ احمد العسیری اب جمال خشوگی کیس میں گرفتار ہیں جبکہ محمد بن سلمان کے مشیر خاص سعود القحطانی جو جمال خشوگی کے قتل کے ماسٹر مائنڈ تھے دورانِ حراست پُراسرار طور پر ہلاک ہو چکے ہیں۔

کرپشن کے نام پر گرفتار ہونے والے کئی شہزادے آج بھی قید میں ہیں۔ کچھ کو جیل میں رکھا گیا ہے جبکہ کچھ اپنے گھروں میں نظربند ہیں اور نگرانی کے لیے انہیں خصوصی چھلّے پہنا دیے گئے ہیں جس سے ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ شہزادوں کو خصوصی چھلّے پہنانے کی خبر کی تصدیق ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ سارہ واٹسن نے بھی کی۔ سارہ واٹسن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ولید بن طلال کی طرف سے محمد بن سلمان کے حق میں بیان دلوائے جا رہے ہیں اور غیر قانونی حراست سے آزادی کے بعد بھی انہیں نگران کڑا پہنایا گیا ہے اور ان کے سفر کرنے پر پابندی ہے۔ ان گرفتار شہزادوں میں ترکی بن عبداللہ بھی ہیں۔ ترکی بن عبداللہ امریکا اور برطانیہ سے تعلیم یافتہ، جنگی پائلٹ اور سابق گورنر ریاض ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شاہ عبداللہ فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں جس کے فنڈز کا تخمینہ 20 سے 30 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔

گرفتاریوں میں شاہ عبداللہ کے خاندان کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ کی انہوں نے سعود القحطانی کی دوران حراست پُر اسرارہلاکت پر سوال اٹھایا تھا۔ شاہ عبداللہ مرحوم کے داماد سلمان بن عبدالعزیز بن سلمان اور ان کے والد کو بھی گرفتارکیا گیا۔ شاہ عبداللہ کے خاندان کے ساتھ سلمان فیملی ک مخاصمت اس وقت سے ہے جب سلمان بن عبدالعزیز گورنر ریاض تھے اور انہوں نے بیٹے کو اپنا مشیر مقرر کر کے انہیں اقتدار کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا جن کی عمر اس وقت صرف 20 سال تھی۔

شاہ عبداللہ کو نوجوان شہزادے کو اختیارات سونپنے پر تحفظات تھے۔ شاہ عبداللہ کو ایک اقتصادی مشیر نے محمد بن سلمان کی شکایت کی کہ وہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں جس پر شاہ عبداللہ نے نوجوان شہزادے کی سرزنش کی تھی۔ ایک بار محمد بن سلمان نے وزارتِ دفاع میں مداخلت کی تو شاہ عبداللہ نے ان کے وزارتِ دفاع میں داخلے پر ہی پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی نے شاہی خاندان میں دوریاں بڑھائیں تھیں۔

شاہ عبداللہ نے گورنر ریاض کے لیے سلمان بن عبدالعزیز کی جگہ ایک اور بھائی کو نامزد کیا تب بھی سلمان بن عبدالعزیز ناراض تھے کیونکہ وہ 1963 ء سے گورنر ریاض تھے اور یہ عہدہ اپنے خاندان میں ہی رکھنا چاہتے تھے۔ شاہ سلمان اور شاہ عبداللہ کے خاندانوں کی اقتدارکی جنگ میں حجاز کے اہم قبائل بھی اقتدار سے الگ کیے گئے لیکن اب شاہ سلمان سلطنت کے دورے پر قبائل کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے نکلے ہیں گو کہ ولی عہد محمّد بن سلمان بھی قسیم کے دورے میں اپنے والد کے ساتھ تھے لیکن ولی عہد مکمل دورے میں ان کے ساتھ رہیں گے یا نہیں یہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

آئیے اب ذرا شاہی خانوادے کی حفاظت پر مامورسعودی نیشنل گارڈز کی حیثیت کو دیکھتے ہیں۔ نیشنل بنیادی طور پر شاہی خاندان کے اقتدار کی حفاظت پر مامور ہیں۔ نیشنل گارڈز میں ملک کے اہم قبیلوں کی نمائندگی تھی اور سابق شاہ عبداللہ کا خاندان ہی نیشنل گارڈز کا سربراہ رہا۔ 2010 ء تک عبداللہ بن عبدالعزیز نیشنل گارڈز کے سربراہ رہے۔ بادشاہ بننے پر انہوں نے نیشنل گارڈز کی قیادت اپنے بیٹے متعب بن عبداللہ کو سونپی تھی۔

نیشنل گارڈز کے سربراہ کی حیثیت سے متعب بن عبداللہ سلطنت کے طاقتور ترین فرد تھے لیکن پچھلے سال کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر وہ بھی گرفتار ہوئے۔ متعب بن عبداللہ مبیّنہ طور پر تشدد کا نشانہ بنے اور ایک ارب ڈالر تاوان دے کر رہا ہوئے۔ متعب بن عبداللہ کے بعد کسی بھی شہزادے کو اس کا سربراہ نہیں بنایا گیا۔ نیشنل گارڈز کو اپنا وفادار رکھنے کے لیے محمد بن سلمان نے اہم قبائل کو بھی اس سے بے دخل کیا۔ مکہ، مدینہ اور حجاز کے دیگر علاقوں کے قبائل کو خصوصی طور پر نیشنل گارڈز سے نکال دیا گیا جو شاہ عبداللہ کے خاندان کے وفادار تصّورکیے جاتے تھے۔

بہر حال اس وقت شاہی خاندان کے ایک اہم ترین سینئر رکن احمد بن عبدالعزیز کی واپسی سے سعودی عرب میں کیا حالات کروٹ لیتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ احمد بن عبدالعزیز کے شا ہی مددگار یا تو قید میں ہیں یا گھروں میں نظر بند اورخفیہ کڑی نگرانی میں ہیں۔ احمد بن عبدالعزیز کے پاس 2 آپشن ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ محمد بن سلمان کے ساتھ معاہدہ کریں اور محمد بن سلمان سے سیکورٹی، دفاع اور وزارتِ داخلہ کے قلمدان واپس لے لیں اور دیگر شہزادوں کو شریک اقتدار کیا جائے۔

دوسرا ایک آپشن یہ ہے کہ بیعت کونسل کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیں جو پچھلے سال شہزادہ مشال بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد سے خالی ہے۔ بیعت کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے وہ محمد بن سلمان کی بادشاہت کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔ احمد بن عبدالعزیز کے مشن کی کامیابی کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ سعود ی شاہی خاندان کے کتنے اہم ارکان کو اپنا ہمنوا بناتے ہیں سعودی عرب میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل، متحدہ عرب امارات سمیت گلف تعاون تنظیم کے ارکان کی حمایت بھی اہم ہے اور اب تک یہ سب محمد بن سلمان کے ہی ہمنوا ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لئے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ اور میری آنکھیں مغل بادشاہت کے دور میں تخت یا تختہ کی لڑائی دیکھ رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).