عمران خان کے تین ماہ پورے، لب آزاد


ماہ نیم شب نے 18 اگست کو ملک خداد داد، پاکستان کے وزیراعظم ہونے کا حلف خاتم النبیین کو بڑی مشکل سے خاتم النبیون کہتے اور اس پر خود ہنستے ہوئے دیا تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد صحافیوں سے ملاقات میں خواہش کی تھی کہ تین ماہ تک صحافی ان کی حکومت پر تنقید نہ کریں تاکہ وہ اپنی راہیں استوار کر لیں۔ کسی اور لکھنے والے نے ان کے کہے کا پاس کیا ہو یا نہ مگر میں نے ان تین ماہ میں ایسا کوئی مضمون نہیں لکھا جس سے ان کی حکومت پر تنقید کیا جانا ثابت ہو سکے۔ میں وضعدار آدمی ہوں مگر ایک پہاڑی قوم کے شخص کے ساتھ پھر سے ملاقات کے خوف کے باوجود وضعداری سے باغ میں بیٹھے رہنے کی حماقت کرنے والا بھی نہیں۔

آج 17 نومبر ہے، عہد کی پاسداری کا وقت تمام ہوا تو ماہ نیم شب نے خود سے ایک لغو بیان دے کر تنقید کرنے کی راہ کھول دی۔ یاد رہے رہنما کا کہا نہ کوئی ذاتی عمل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے کہے کا اطلاق محض اس کی ذات پر ہوتا ہے بلکہ اس کے رہنما ہونے کے سببب اس کی کہی کوئی بھی بات پیروکاروں کے لیے نہ صرف مشعل راہ کی مانند بلکہ ایک حکم کے مترادف ہوتی ہے۔ ایک ہدایت ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک تلقین بھی۔

موصوف نے ”یو ٹرن“ لیے جانے کو مینارہ عظمت قرار دیا ہے۔ یو ٹرن تو وضع کردہ اصطلاح ہے ویسے ہی بے سبب سی جیسے آج کل ”ٹرک کی بتی کے پیچھے“ جیسے لایعنی جملے کو صحافتی زبان کا حصہ بنا دیا گیا ہے تاہم اس یو ٹرن کا مطلب ”پسپائی“ ہوتا ہے یعنی پلٹنا۔ موصوف کے بارے میں سنا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری سے بہت مرعوب و متاثر ہیں مگر وہ پلٹنے کے ساتھ جھپٹنا کہنا بھول گئے اگرچہ انہوں نے جھپٹنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اور زبانی کلامی جھپٹنے کا کام وزیر اطلاعات کے سپرد کیا ہوا ہے۔

پسپائی کی توثیق کی خاطر مثال بھی دی تو تاریخ کی دو مختلف شخصیتوں کی جن میں سے ایک معروف یعنی نپولین اور دوسرا بدنام یعنی ہٹلر۔ پہلے تو میں نے یہ جانا کہ شاید ان کے مشیر بولنے کے ضمن میں انہیں مشورے نہ دیتے ہوں یا ماہ نیم شب شاید مشورے ماننے سے ہی گریزاں ہوں مگر غور کرنے پر احساس ہوا کہ رات کو اگر نعیم الحق جیسے شخص سے سنے ہوئے اور ایسی شخصیات کے ڈائجسٹوں میں ہوئے تذکروں پر ہی اکتفا کریں گے تو منہ سے اسی نوع کے ”اقوال بالا“ جھڑیں گے اور کیا ہوگا۔

وکی پیڈیا کھولنے کو سبھی آزاد ہیں سب جان سکتے ہیں کہ نپولین کون تھا اور ہٹلر کون۔ نپولین نے کیا کچھ نہیں کیا تھا اور ہٹلر کے حکم پر کیا کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ نپولین ایک عام فوجی سے اپنی فتوحات کی بدولت فرانس کے بادشاہ بننے تک پہنچا تھا اور ہٹلر کی ضد کے سبب دنیا دوسری جنگ عظیم کے مصائب کا شکار ہوئی تھی۔ البتہ اس جنگ کے نتیجے میں نو آباد کار طاقتیں کمزور ہوئیں جس کی وجہ سے ان کے زیر قبضہ ملکوں کو آزادیاں ملیں۔ ملک پاکستان تو جنگ عظیم دوم کے نتائج کے سبب باقاعدہ تخلیق ہوا تھا۔

ماہ نیم شب نے نپولین اور ہٹلر کو باہم کیوں جوڑا؟ میں نے اب تک سوشل میڈیا اور مین میڈیا میں جو کچھ پڑھا اس میں کسی نے اس بارے میں غور نہیں کیا۔ نپولین نے جون 1812 میں روس پر حملہ کیا تھا۔ روسی پسپائی اختیار کرتے چلے گئے تھے تا حتٰی کہ سردیاں آ گئی تھیں۔ فرانسیسی اتنی سردی کے عادی نہیں تھے۔ سپلائی اور کمک بہت دور سے لائی جاتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب روسی فوج نے پلٹنا چھوڑ کر جھپٹنا شروع کیا تھا اور یہی نپولین کی پہلی بڑی شکست تھی جہاں سے اس کے زوال کا آغاز ہوا تھا۔

بعینہ ہٹلر کے ساتھ روس میں ہوا۔ ”ربن ٹروپ مالتوو معاہدہ“ توڑ کر جون 1941 میں روس پر ”آپریشن باربروسہ“ کے تحت ہلہ بول دیا تھا۔ پسپائی سی پسپائی تھی کہ جرمن ماسکو تک آ گئے تھے۔ پھر سوویت فوج نے 5 دسمبر 1942 میں ایک بڑا جوابی حملہ کرکے 7 جنوری کو جرمنوں کو ماسکو سے 250 کلومیٹر دور پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا البتہ جنگ جاری رہی تھی۔ جرمن فوج نے لینن گراد حال سینٹ پیٹرز برگ کا ساڑھے آٹھ سو سے زاید دنوں تک محاصرہ کیے رکھا تھا۔ شہر کو بموں سے ملیا میٹ کر دیا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کا گوشت کھانے تک پر مجبور ہو گئے تھے۔ کروڑوں لوگوں کی جانیں لینے والی یہ جنگ 1945 میں تب تمام ہوئی تھی جب سوویت فوج اور اتحادی فوج نے مل کر برلن پر قبضہ کر لیا تھا۔

ماہ نیم شب کے مطابق نپولین اور ہٹلر نے اپنے طور پر پسپائی اختیار نہیں کی تھی تو ان دونوں کو روس کے محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے ان کے زوال کی راہ ہموار کی تھی۔ ماہ نیم شب کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ یہ دونوں جارح تھے اور جارح پسپا نہیں ہوا کرتے انہیں طاقت کے زور پر پسپا ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ماہ نیم شب خود بھی تو جارح ہونے کا روپ دھارے اقتدار میں آیا ہے نپولین والی تو کوئی خصلت اس میں اب تک دکھائی نہیں دی البتہ ہٹلر کے سے عزائم ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر ایسا بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے جب ”نئی عالمی ترتیب“ یعنی نیو ورلڈ آرڈر جیسا معروف منصوبہ بھی سالوں پہلے بیکار قرار پا چکا ہے۔

ملک تو فتح کیے جانے سے رہے بلکہ آج کے دور میں کسی ملک پر حملہ کرنا تک خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے موجب ہوگا۔ ماہ نیم شب افراد کو مفتوح بنانے کے چکر میں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کرپشن کرپشن کا شور مچانا خود کو اقتدار میں لانے کی خاطر ہوتا ہے۔ کرپشن ہر جگہ ہوتی ہے کہیں کم، کہیں زیادہ تو کہیں بہت زیادہ۔ پیسے نکلوانے کی خاطر شہزادہ محمد سلمان بننا پڑتا ہے اور وہ بھی سب سے پیسے نہیں نکلوا سکا ساتھ ہی صحافی خاشقجی کو قتل کروانے ( سی آئی اے کی رپورٹ یہی کہتی ہے ) کے باعث خود نشانہ تنقید بن چکا ہے۔

ماہ نیم شب کی حکومت اب تک کچھ بھی ایسا نہیں کر پائی ہے جس کا ذکر کیا جا سکے۔ دس دن اور گزر لینے دیں، دیکھتے ہیں سو روز کے بعد یہ لوگ کیا منصوبے عیاں کرتے ہیں۔ پھر چھ ماہ منصوبوں کی فزیبلٹی بنانے کو مانگ لیں گے۔ اس کے بعد سال قرضے مانگنے کی نظر ہوں گے۔ پھر کہیں جا کر چند منصوبوں پر کام شروع ہوگا، نئے الیکشن تک شاید دو ایک منصوبے مکمل بھی ہو جائیں مگر تب تک ماہ نیم شب کو عوام کی مخالفت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).