معذوروں کی خاموش اور اندھیری دنیا میں روشنی کا مینارہ۔ ہیلن کیلر


اس سال پہلی کرسمس تھی۔ کہ جسے ہیلن نے صحیح معنوں میں سمجھا اور خوشیاں منائیں۔ کرسمس کی رات ہیلن کی ماں نے اینی کا ہاتھ پکڑ کر کہا، میں اپنی زندگی میں ہر روز خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا۔

ہاتھ کے اشاروں کی مدد سے اتنا کچھ سیکھنے کے بعد ہیلن کو پرکنسن ادارے کے ابھرے ہوئے حروف کی کتابیں پڑھائیں۔ اور پھر ایک دن اس نے ہیلن کو بریل طریقہ تعلیم یعنی ابھرے ہوئے لفظوں کی مدد سے پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ ہیلن نے جلد ہی اس کو سیکھ لیا۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت مشہور ہونے لگی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ اینی نے محسوس کیا کہ ہیلن کو اب باقاعدہ پرکنسن اسکول جانا چاہیے۔

مئی 1888 میں ہیلن، پرکنسن اسکول کے بچوں کے ساتھ پڑھ رہی تھی۔ اور بہت خوش تھی۔ اینی ابھی بھی اس کی خاص ٹیچر تھی۔ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں کی مدد سے باتیں کرتی۔ اس اسکول کی لائبریری نابینا بچوں کے لئے قائم سب سے بڑی لائبریری تھی۔ جو ہیلن کے لئے بہت خوشی کی بات تھی۔ اس سے ملنے اس کا پسندیدہ ادیب مارک ٹوین اور الیگزنڈر گراہم بھی آئے جو اس کے دوست بن گئے تھے۔ تین سال کے عرصے میں اس نے دوسرے مضامین کے علاوہ لاطینی اور فرنچ زبانیں بھی سیکھ لی تھیں۔

نو سال کی عمر میں ہیلن نے فیصلہ کیا کہ وہ اب بولنا سیکھے گی۔ یعنی وہ کچھ کہنے کی کوشش جسے وہ سن نہ سکتی تھی۔ اس کی ٹیچر سارہ فیلر تھی۔ جس نے ہیلن کو انگلیوں کی مدد سے ہونٹ اور حلق کی ارتعاش (vibration) اور منہ اور زبان کے اتارچڑھاؤ کو محسوس کرنا سکھایا۔ ہیلن نے صرف ایک گھنٹے میں چھ حروف اور دس ہفتوں میں جملہ ادا کرنا سیکھ لیا۔

تیرہ سال کی عمر میں ملک کے اخباروں میں اس کی کامیابی کی کہانیاں چھپنے لگیں۔ اس کو کرشماتی اور حیران کن لڑکی کہا جانے لگا۔ صرف تعلیم ہی نہیں ہیلن کو شاعری مضمون نگاری، موسیقی اور مجسمہ سے بھی دلچسپی تھی۔ اپنی زندہ دلی کی وجہ سے وہ خوش لباس بھی تھی۔ اس نے معذوری کو محرومی نہیں بنایا۔ حتی کہ اس نے اداکاری، تیراکی، گھڑسواری جیسے شوق بھی پورے کیے۔

چودہ سال کی عمر میں اس کا داخلہ نیو یارک کی سماعت سے محروم بچوں کے لئے قائم رائٹ ہیومیسن اسکول (Wright۔ Humason School) میں ہو گیا۔ سولہ سال کی عمر میں اس نے کالج جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی خواہش ریڈ کلف کالج میں داخلہ کی تھی۔ جو ہارورڈ یونیورسٹی میں تھا۔ جس میں داخلہ کی تیاری کے لئے ہیلن نے چار سال سخت محنت کی۔ بدقسمتی سے داخلہ کے امتحان سے پہلے اس کے ابا کا انتقال ہو گیا۔ وہ بہت اداس تھی۔ لیکن اس نے داخلہ کا امتحان دیا۔ اینی کو کمرہ میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ نتیجہ آیا تو ہیلن نے تمام مضامین میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اور اب وہ ریڈ کلف کالج کی طالبہ تھی۔ اس وقت وہ بیس سال کی تھی۔

کالج میں اینی نے ہیلن کے ساتھ سخت محنت کی۔ جو لیکچرز کا ہر لفظ ہیلن کے ہاتھ پر بناتی اور بریل میں نوٹس ٹائپ کرتی۔ اسی سال اخبار میں قسط وار اس کی زندگی کی کہانی شروع ہونے لگی۔ جو 1904 میں دی سٹوری آف مائی لائف کی کتابی شکل میں شائع ہوئی۔

کالج میں ہیلن اعزازی ڈگری کے ساتھ کامیاب ہوئی۔ اس نے سخت محنت کے بعد چار سالہ کورس نارمل طلبا کے ساتھ مکمل کیا۔ کالج کے بعد ہیلن نے اینی کے تعاون سے اپنی زندگی کو دوسرے معذور نابینا بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ دوسرے ممالک بھی جاتی اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے معذور لوگوں کو اپنی زندگی کے تجربات بتاتی۔ وہ چاہتی تھی کہ دنیا کو پتہ چلے کہ اگر معذور لوگوں کو موقع دیا جائے تو وہ بہت بھرپور اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔

ہیلن امن پسند اور غریبوں کی حمایتی تھی۔ اس نے مزدوروں کی بہتر زندگی کی حمایت میں عملی طور پر کام کیا۔ مضامین لکھے اور سوشلسٹ پارٹی کا ساتھ دیا۔ عالمی جنگوں کے زمانے میں ہسپتالوں میں جا کر زخمیوں کی ہمت بڑھائی۔

1963 میں اس کو امریکہ کے صدر نے میڈل آف فریڈم دیا جو کسی بھی امریکی شہری کے لئے اعلی ترین اعزاز ہے۔
1924 میں ہیلن نے امریکن فاؤنڈیشن فار دی بلائینڈ کے لئے کام شروع کیا۔ اور ساری زندگی ان کے لئے عطیہ (فنڈ) جمع کرتی رہی۔
1936 میں سیلیون کے انتقال کے بعد اس کا ساتھ ایک اسکاٹ خاتون پولی تھامسن نے دیا۔ ہیلن نے اپنی زندگی میں 35 ممالک کے دورے کیے تاکہ وہ معذوروں کی آواز بن کر ان کو صحیح مقام دلا سکے۔

ہیلن کے عظیم کام کو دنیا نے سراہا۔ اس پر بننے والی فلموں ان کونکرڈ (Unconquerd 1956 ) اور مریکل ورکر (Miracle Worker) کو اکیڈمی ایوارڈز بھی ملے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز وہ تھا جو اس نے دنیا کے معذور لوگوں کو تخلیقی سوچ، عزت نفس اور یقین کی صورت دیا۔

ہیلن کیلر کا انتقال پہلی جون 1968 کو کنیکٹی کٹ (امریکہ) میں ہوا۔ تین عظیم خواتین یعنی ہیلن کیلر، اینی سیلیون اور پولی تھامسن نیشنل کیتھیڈرل ڈی سی میں دفن ہے۔ جن کی قبروں کے ساتھ انگریزی اور بریل میں عبارت کندہ ہے۔

”ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ “
٭٭٭
( یہ آرٹیکل گوہر تاج اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کی کتاب ”خاص لوگ خاص کہانیاں“ سے لیا گیا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2