ہوئے پڑھ کہ ہم جو رسوا


کسی سیانے کا قول ہے کہ معاشرے میں آگاہی اور شعور اگر اجتماعی سطح پر ہو تو معاشرہ ترقی کی نئی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور اہمیت حاصل کرتا جاتا ہے۔ مگر یہی شعور محض انفرادی سطح پر ہو اور معاشرہ زوال پذیر ہو تو یہ شعور و آگہی اس فرد کے لئے کسی عذاب سے کم نھیں۔ بقول احمد فراز
عیسی نہ بن کہ اس کا مقدر صلیب ہے
انجیل آگاہی کے ورق عمر بھر نہ کھول

جبکہ حضرت جون ایلیا اس رمز اورتکلیف کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن

مژدہ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

ہمارا معاشرہ چونکہ اجتماعی سطح پر ان بنیادی انسانی خواص (شعور و آگہی) سے عاری ہے تو لہذا ہمارے دیس میں یہ عذاب و اذیت ہراس فرد کے لئے ہے جو علم حقیقی کا طالب ہے۔ آئیے ذرا سوچیں کہ ہم بحیثیت مجموعی کیوں ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ ہماری سوچوں کی پروان اتنی مختصر کیوں ہے کہ ہمیں عقل و دلیل اضافی چیزیں لگتی ہیں؟ جواب ایک سادہ سوال کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہماری موجودہ رسمی اور غیر رسمی تعلیم اس قابل ہے کہ وہ ہمیں سوچنے سمجھنے پر مجبور کرے، علم اور تخلیق علم کی جانب راغب کرے؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا موجودہ تعلیمی ڈھانچہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ ایک باشعور انسانی کھیپ تیار کرسکے جو معاشرے کی درست سمت میں رہنمائی کر ے۔

دنیا بھر کی فلاحی ریاستیں اپنے شہریوں کو قیمتی اثاثہ تصور کرتی ہیں اور ان کی تعمیر اور ترقی کے لئے ایسا نظام تعلیم قائم کرتی ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ اور ایک صحت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جو بہترین انسانی وسائل سے مالامال ہوکر ملک وملت کی تعمیر و استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں قیام سے لے کر اب تک ایسا تعلیمی نظام قائم کیا گیا ہے جو نہ صرف فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کا قاتل ہے بلکہ گھسے پٹے اور بوسیدہ تصورات کو تقویت پہنچاتا ہے۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں آج بھی جدید علوم اور سائنس کو وہم خیال کیا جاتا ہے۔ معجزے اور شعبدے بازی کو علم اور تحقیق پر فوقیت حاصل ہے۔ ہمارے اعلی تعلیمی ادارے بجائے دانش گاہ کے ظلمت کدے بن کے رہ گئے۔ اس ساری مشق کے نتیجے میں جو معاشرہ تشکیل ہوا اس میں عدم مساوات، کرپشن اور انتہا پسندی عروج پر ہے۔ اس معاشرے نے جینوئن انٹلکچوئلز تو پیدا ہی نہیں کیے۔ ہاں ہم نقال بہت اچھے ہیں۔ اسی لئے ایک خوف ہے جو مسلط ہے ذہنوں پر، جسموں پر، نسلوں پر اور اس خوف کی وجہ سے جمود طاری ہے۔

فی الحال اس خوف ذدہ ہجوم میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس جمود کو توڑ سکے۔ وطن عزیز میں پچھلی سات دھایؤں سے پیدا کردہ سیاسی اور ہنگامی صورت حال اور تعلیمی زوال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس ریاست کو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ افراد کے نام پر محض ڈگری ہولڈرز اور روبوٹ چاہئیں جو محض دفتری امور چلانے کے ماہر ہوں، عہدوں اور آسائش پر ناز کریں اور اپنی نئی نسل کو چپ چاپ سابقہ روش پہ چلنے کی تلقین کریں کہ ان کے ہاں یہی عین ترقی ہے۔

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے آنے سے قبل تعلیم محض اشرافیہ اور ان کی نسلوں تک محدود تھی۔ یعنی تعلیم حاصل کرنے کا حق صرف اعلی ذات اور حکمران طبقے کو تھا۔ یہ سہولت عام آدمی کے لئے دستیاب نہیں تھی۔ کیونکہ بادشاہی نظام میں بادشاہ کو سب سے زیادہ خوف رعایا کے باشعور ہونے سے ہوتا ہے۔ اس لئے رعایا کو تعلیم سے دور رکھا گیا تاکہ آگاہی کے نتیجہ میں کوئی بغاوت جنم نہ لے۔ اس سارے ماحول میں ہلچل اس وقت پیدا ہوئی جب انگریزوں نے برصغیر کا رخ کیا اور رفتہ رفتہ حکمرانی پر قابض گئے۔

تو انہوں نے ریاستی امور چلانے کے لئے باقاعدہ تعلیمی ادارے قائم کیے۔ گو کہ انگریزوں کی طرف سے دی گئی اس تعلیم کا مقصد بھی مقامی لوگوں کو محض دفتری امور ہی سکھانا تھا۔ مگر اس کوشش کے نتیجہ میں مقامی لوگوں کو پہلی بار پڑھنا لکھنا نصیب ہوا۔ اس مقصد کے لئے پہلا کالج کلکتہ میں سن 1800 ء میں قائم کیا گیا۔ بعد ازاں چند یونیورسٹیاں بھی قائم ہوئیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے 1890 ء تک کم و بیش ساٹھ ہزار ہندوستانی باشندے میٹرک پاس تھے۔ مگر انگریزوں کے رخصت ہونے اور تقسیم ہند کے ساتھ ہی اس ڈرامے کا بھی ڈراپ سین ہوگیا۔ اور واپس وہی رجعت پسند لوگ اقتدار پر قابض ہوگئے جو موجودہ تعلیمی نظام کے بانی ہیں۔ اس سارے بگاڑ کا نتیجہ ہمارا موجودہ تباہ حال معاشرتی نظام ہے جو بجائے مثبت سمت میں سفر کرنے کے تاریکیوں کا متلاشی ہے۔ بقول شاعر

گذشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).