سموگ اور نیا پاکستان


تُو سانس نہ لے پائے اِس طور کے موسم میں
ہم شعر بھی کہتے ہیں لاہور کے موسم میں

محکمۂ موسمیات اور محکمۂ شعریات کی ملی بھگت سے حاصل ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شاعر ان دنوں شدومد سے شعر کہنے میں مشغول ہیں اور پھیپھڑوں اور سانس کے امراض میں مبتلا افراد شاعروں سے بھی زیادہ دلجمعی سے کھانسنے اور نامعلوم افراد کو ”کوسنے“ میں مصروف ہیں۔

یوں تو زیادہ تر شعراء کو شعر کہنے کے لیے کسی موسمی بہانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ اپنے ہی تعمیر کردہ یوٹوپیا میں آباد ہوتے ہیں اور وہاں کی نہ صرف فضا اور ہوا ان کے تابع ہوتی ہے بلکہ وہاں کا تو پورا کا پورا محکمہ موسمیات ان کے اشاروں کا غلام اور انہیں ان کی مرضی کے موسم کی خبریں پہنچانے کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جب چاہیں اپنے رومانستان میں پھواریں برسا لیں اور جب چاہیں گل کھلا لیں۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔

پھر بھی حالیہ سموگ نے ان کو شعر کہنے کا اچھا بہانہ مہیا کر دیا ہے۔ کیونکہ شعر جب سوشل میڈیا پہ پوسٹ کرنا ہو بلکہ کہا ہی سوشل میڈیا کی رونق دوبالا کرنے کے لیے گیا ہو تو خارجی صورتِ حال سے اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ظاہر کرنا لازمی ہو جاتا ہے، یوٹوپیا کی رہائش تو داخلی معاملہ ہے۔

شاعروں میں زیادہ نہ سہی لیکن تھوڑے بہت پڑھے لکھے بھی ہیں جو دُھند اور سموگ کے فرق کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں اس کے باوجود ہر سال کی طرح اس بار بھی حالیہ سموگ کو جاڑے کی دُھند مان کر بلکہ منوانے کی کوشش کرکے اس پر شعر کہتے ہوئے اپنے ارمان اور ناتمام حسرتیں بلکہ ”چَس“ پورا کرنے میں مگن ہیں۔ ان کے اندر کا مصنوعی رومانس اس مصنوعی سموگ میں بھی اُمڈا پڑ رہا ہے۔

دوسری طرف سانس کے امراض میں مبتلا افراد ہیں جن کی سموگ کی وجہ سے زور پکڑنے والی حقیقی کھانسی ایک ان چاہی بلا کی طرح ان کے پھیپھڑوں پر مسلط ہے۔ اور کبھی جب اس کھانسی میں چھینکیں بھی شامل ہو جاتی ہیں تو ایک ہی فرد مکمل آرکسٹرا کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جس کی موسیقی بالکل اسی طرح بے ہنگم اور تباہ کن ہوتی ہے جیسی چند سال پہلے پاپ میوزک کے نام پر فروغ پا رہی تھی (موجودہ حالات اس حوالے سے نسبتاً بہتر ہیں ) اب جب ان سانس کے امراض میں مبتلا افراد کو کھانسی کے پہلے دورے سے دوسرے دورے کے درمیان وقفہ میسر آتا ہے تو یہ بھرائے ہوئے گَلوں اور بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس سموگ کی وجہ بننے والے عناصر کو شدت سے کوسنا چاہتے ہیں لیکن ان بیچاروں کی یہ حسرت ان دنوں مناسب طریقے سے پوری نہیں ہو پا رہی۔ کیونکہ یہ سموگ گزیدہ بیچارے جب بھی کوسنے کا سوچتے ہیں تو مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر کوسا کسے جائے!

اگر برسوں پرانے پھولے پھلے تناور درختوں کی بے جا اور بے پناہ کٹائی کر کے سڑکیں سیدھی اور شاہراہیں چوڑی کرنے والے خادمِ اعلیٰ کو اس سموگ کا ذمہ دار مان کر کوسنے کا سوچتے ہیں تو اس نامراد پر ترس کھا کر رہ جاتے ہیں کہ اب نہ تو وہ خادم رہا اور نہ اعلیٰ۔

اور اگر خان صیب کے خانوادے کا تیا پانچہ کرنے کا سوچتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ خان صیب نے تو کنٹینر سے اتر کر اقتدار میں آتے ہی ملک بھر میں بوٹے ہی بوٹے لگا دیے تھے۔ اب ان بوٹوں نے بھی مطلوبہ آکسیجن مہیا نہیں کی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وطنِ عزیز میں بوٹوں کی کمی نہیں بلکہ ان بوٹوں سے خارج ہونے والی آکسیجن کو ہضم کرنے والے پھیپھڑے زیادہ ہیں۔

اب دیکھیے سو دن گزر جانے کے بعد خان صیب بوٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرتے ہیں یا اضافی پھیپھڑوں کو تلف کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
نوٹ : ”اس مضمون میں جن بوٹوں کا تذکرہ ہے وہ ہرے ہیں، کالے ہرگز نہ سمجھا جائے“۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).