شہریار شہزادہ اور آبِ حیات


کھلتا ہوا گندمی رنگ جو پوٹھوہاری ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ شانوں تک لہراتے ہوئے لمبے سنہرے بال ان کی سکھوں کی سی سوچ کے نمائندہ ہیں۔ رومی شہنشاہ جولیس سیزر کی سی رومی ناک، اور اس کے دوستوں جیسے ہی دوست۔ شروع میں پتہ نہ چلا تھا کہ کسی قسم کے مصنف ہیں۔ بعد میں پتہ چل گیا کہ کس قسم کے ہیں۔ علم ہوا کہ تحریر ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ کئی ڈرامے کر چکے ہیں اور اب لوگ دور سے ہی ان کو آتا دیکھ کر راستہ بدل جاتے ہیں۔

اپنے آپ کو ادیب بے مثل شکیل عادل زادہ کا شاگرد بتاتے ہیں۔ یہ تو تحقیق نہیں ہو پایا کہ اس بے مثل بازیگر سے انہوں نے کیا کچھ سیکھا، بہرحال کچھ جھلکیاں ہم جیسے کم علموں کو بھی نظر آجاتی ہیں۔ پاؤں کو پانو، گاؤں کو گانو، طوطے کو توتا، گھڑی کو گہڑی لکھنے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اردو کی اصل یہی ہے۔ ثبوت کے طور پرفورٹ ولیم کالج کی چھپی ہوئی ضخیم کتب اپنے بستے میں ہر وقت رکھتے ہیں۔

بارہا دیکھا کہ کوئی توتے کو طوطا لکھنے پر اصرار کرتا تو جلے پانو کی بلی کی مانند قدم اٹھاتے ہوئے اس نابکار تلک جاتے اور اس کو کتب قدیم دکھا کر قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کی سمجھ میں بات آجاتی تو فبہا، ورنہ مولوی محمد حسین آزاد کی آب حیات کی ایک ضرب ہی اس نابکار کے کاسہ سر کو قبول کرتے ہوئے ہم نے بارہا دیکھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ آب حیات کو جھٹلانا بہت مشکل ہے، مردہ سے مردہ ذہن کو زندہ کر دینے کی خاصیت ہے اس میں۔

ان سے ملاقات سے پہلے تاثر یہی تھا کہ رومی ناک کی طرح ان کا پیکر بھی رومی ہی ہوگا۔ ساڑھے چھ فٹ نہ سہی، چھ کے تو ہوں گے۔ چشم تصور میں فلم بن حر کا رومی سردار ہی نظر آتا تھا۔ لانبا چوڑا، ہٹا کٹا، چست چالاک، شانوں پر لہراتے سنہرے بال اور چار گھوڑوں کی رتھ پر سوار دائین بائیں کے لوگوں کو کاٹتا مارتا ہر دوڑ جیتتے چلے جانے والا۔ لیکن جب ملے تو بال ہی توقع کے مطابق نکلے۔ قد اور صحت توقع سے کچھ کم تھے۔

یہ کہنا قطعاً غلط ہوگا کہ پستہ قد ہیں۔ ان کو جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ کھڑا کیا جاتا تو کئی انگلشت اونچے ہی نکلتے۔ اور وزن میں یہ کسی طور بھی ایک من سے کم تو ہرگز نہ ہوں گے، دو چار چھٹانک اوپر ہی نکلیں گے۔ لیکن ان کی شخصیت میں سب سے نمایاں چیز بلاشبہ ان کے شانوں پر لہراتے ہوئے سنہرے بال ہیں۔ رفتہ رفتہ جب بے تکلفی ہوئی تو ان سے اتنے لمبے بال رکھنے کا سبب پوچھا۔

پہلے تو کچھ جھجکے لیکن جب واضح کیا کہ مقصد اعتراض نہیں بلکہ محض ایک مداح کی دلچسپی ہے، تو بولے ”کچھ لوگوں کی طاقت ٹانگوں میں ہوتی ہے۔ دن بھر ہل جوتتے ہیں یا بیگار کاٹتے ہیں۔ کچھ کی ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ کلرکی میں ہی زندگی بتا دیتے ہیں اور اپنے آپ کو فاضل سمجھتے ہیں۔ لیکن جو واقعی طاقت رکھتے ہیں، ان کے بال ہی بتا دیتے ہیں کہ سر میں کیا ہے“۔

ان کے روپہلی گندم کی چھڑی ہوئی باقیات جیسی رنگت والے بال دیکھتے ہوئے ان سے اتفاق کرتے ہی بنی۔ لیکن میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ ہمیشہ بڑوں سے سنا تو یہ ہے کہ دماغی کام کرنے والے گنجے ہو جاتے ہیں، تو ان کا رنگ سرخ ہوگیا۔

کہنے لگے، ”اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں کوڑھ مغز ہوں اور دماغ سے کام نہیں لیتا جو گنج کی بجائے میرے اتنے لمبے بال ہیں۔ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ “

میں نے ان کے سامنے دھرے آب حیات کے نسخے کو دیکھا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ”یہ گمان کبھی ہمارے ذہن سے نہیں گزرا۔ ایسا خیال بھٹک کر بھی قریب نہیں آیا کہ آپ کے سر میں بھوسہ بھرا ہوا ہے۔ فقط حیران ہوں کہ ایسی گمراہ کن بات مشہور کیسے ہو گئی ہے جبکہ آپ کی صورت میں ایک جیتی جاگتی مثال اس کے خلاف موجود ہے“۔

تس پہ وہ مسکرائے اور بولے ”اساطیری داستانوں میں سب سے طاقت ور کون تھا؟ سیمسن۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ اس کی ساری طاقت اس کے بالوں میں تھی۔ اب دھول دھپے کا دور نہیں رہا۔ اب قلم کا دور ہے۔ لیکن طاقت کا معیار وہی ہے۔ پہلے یہ بات مجھے بھی معلوم نہیں تھی۔ فوجی کٹ بال رکھتا تھا اور کبھی الف ب بھی لکھنی پڑ جاتی تو ہفتہ لگ جاتا تھا۔ اور اب ڈیڑھ ہزار صفحات کا ڈرامہ لکھنے میں بمشکل گھنٹہ لگتا ہے، کاپی پیسٹ کا وقت شامل کرکے بھی“۔ ان کی فہم و ذکاوت پر میں نے تعجب کیا۔ واقعی، جس کا جو مقدر ہو اسے وہی ملتا ہے۔

بلا کے نکتہ دان اور دوست پرست ہیں۔ نثر میں ان کی مہارت تو خیر سمجھ میں آتی ہے کہ ایسے باکمال شخص سے تربیت پائی ہے، لیکن شعر میں ان کا کمال خداداد ہے اور اس میں کسی کے آگے دامن تلمذ تہہ نہ کرنے کے باوجود وزن کے پورے ہیں۔ ہم نے اپنی اِنہیں گنہگار آنکھوں سے بڑے بڑے پہلوان سخن اساتذہ وقت کو ان کے سامنے خفیف ہوتے دیکھا ہے۔

ایک بار لاہور کی گوالمنڈی کے ایک خود ساختہ استاد نے، جو اپنے تن و توش اور دودھ دہی کے کسب معاش کے سبب رستمِ ادب کہلاتے تھے، ان کی موجودگی میں بہت اچھل اچھل کر شعر سنایا اور داد طلب نظروں سے محفل کو دیکھنے لگا۔ اس کے چمچوں نے تعریف کے ڈونگرے بجا دیے اور خوب ہاؤ ہو کیا۔ فقط یہی خاموش بیٹھے رہے۔

جب استاد نے ان سے پوچھا کہ کیا خیال ہے تو انہوں نے بھری محفل میں بتا دیا کہ وزن گرتا ہے۔ کرکری ہوتے دیکھ کر اس نے آستینیں چڑھائیں اور کہنے لگا کہ تم کیا اور تمہارا اپنا وزن کیا کہ ہمارے شعر کا وزن کرو۔ تمہارے جیسے چار کو تو اپنے ایک ہاتھ پر بٹھا سکتا ہوں اور وزن درست کر سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر آگے بڑھا۔

انہوں نے بستے پر ہاتھ مارا۔ فورٹ ولیم کالج کے قصہ چہار درویش کا مختصر سا کتابچہ نکلا۔ انہوں نے وہی اس کے ہاتھ پر دے مارا۔ وہ ہنسا اور دوسرا ہاتھ بڑھا کر ان کو گردن سے پکڑ کر اٹھانے لگا۔ انہوں نے پھر بستے پر ہاتھ مارا۔ وہ ہنس کر ان کے آگے سر خم کر کے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ ایسے بہت دیکھے ہیں زندگی میں۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اگلی کتاب آب حیات ہوگی جو اسے غم حیات سے گھنٹے بھر کے لیے آزاد کر دے گی۔ وہ دن اور آج کا دن، ان کے وزن پر اعتراض پر کوئی معترض نہیں ہوا۔

یہ تحقیق نہیں ہو پایا کہ ان کا نام شہریار شہزادہ کیوں پڑا۔ کوئی اس کا سبب ان کے کالج کے دنوں کی شہزادگی کو بتاتا ہے جب وہ بارہ ساڑھے بارہ بجے اپنے ہوسٹل کے کمرے سے تیار ہو کر نمودار ہوتے تھے اور کلاس روم تک پہنچتے پہنتے چھٹی کی نوبت بج جاتی تھی اور وہ شاداں و فرحاں قدرت کی صناعی کا مشاہدہ کرنے قریبی گرلز کالج کی طرف نکل جاتے تھے، تو کوئی اس کا سبب ان کی غائب دماغی کو بتاتا ہے کہ کچھ عرصے انہوں نے پروفیسری کی تھی۔ کالج سے تو جلد ہی ان کو فارغ کردیا گیا لیکن پروفیسری انہیں زندگی بھر فارغ کرتی رہی۔ بہرحال، سبب جو بھی ہو، اس میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ نام قدرت نے ہی ان کو عطا کیا ہے۔ اور خوب کیا ہے۔
15 مارچ 2013

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar