وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی روداد


 

یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ عمران خان اس بات سے با خبر ہیں کہ عوام پریشان ہیں۔ مگر میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا عمران خان کو پاکستانی عوام کی پریشانی کی وجوہات بھی معلوم ہیں؟ کیا وہ ان باتوں سے آگاہ ہیں کہ بجلی مہنگی ہو گئی ہے؟ ڈالر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے؟ روز مرہ ضروریات زندگی کی اشیاء بھی مہنگی ہو گئی ہیں، ٹرانسپورٹ کی سہولیات ناکافی ہیں، کرایوں میں اضافہ، پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں اور اگر کہیں نوکری کی درخواست دینا ہو تو ایک چپڑاسی کے لئے ماسٹر ڈگری افراد رجوع کرتے ہیں۔ غریبوں کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حصول اتنا مہنگا ہے کہ مزدوری کرنے والے کا بچہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا، علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریضوں کی تعداد زیادہ جب کہ ہسپتالوں کی تعداد بہت کم ہے۔ امن و امان اور لا ء اینڈ آرڈرز مخصوص طبقے کے ہاتھوں میں ہیں۔ احتجاج اور ریلیوں کی صورت میں شہروں کے شہر بند ہو جاتے ہیں اور پھر اُن شہروں میں معمولات زندگی واپس لانے کے لئے حکومتی نمائندوں کو ’’ ڈیل ‘‘ تک کرنا پڑتی ہے۔

میں ان تمام معاملات کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان سے مل کر اُن سے پوچھنا چاہتا تھا۔ وہ موقع بھی آ گیا اور میری ملاقات وزیر اعظم پاکستان سے ہو گئی لیکن وہاں میرے ساتھ ملک کے سینئر اور مایہ ناز صحافی موجود تھے جن کے ہوتے ہوئے میرے یہ تمام سوالات ذہن میں ہی دبے کے دبے رہ گئے۔ اس کے باوجود مجھے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ملاقات میں موجود صحافیوں میں سے مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کو سوالات کا موقع نہ مل سکا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے ابتداء میں کہا کہ میں مظہر برلاس کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے کہنے پر سینئر کالم نگاروں سے ملاقات کا اہتمام کیا۔

مظہر برلاس نے وزیر اعظم سے حکومت کے سو دنوں کی کارکردگی کے متعلق سوال پوچھا تو عمران خان نے بتایا کہ دنیا بھر میں کسی بھی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی کو جانچنا ایک فریم ورک ہوتا ہے اور 29 نومبر کو حکومت ایک پروگرام ترتیب دے گی جس میں بتایا جائے گا کہ حکومت نے پہلے سو دنوں میں کیا کھویا کیا پایا۔ وزیر اعظم نے یہ واضح پیغام دیا کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمیں حکومت کن حالات میں ملی اور کس طرح سابقہ حکومتوں نے کرپشن کرکے ملک کی اقتصادیات کو نقصان پہنچایا، عمران خان نے ’’کلپٹو کریسی‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومتی بد عنوانی کی ایک قسم ہے جس میں حکومت اپنے حکام کی ذاتی دولت اور سیاسی طاقت میں اضافے کے لئے عوام پر بڑے پیمانے پر اخراجات کا بوجھ ڈال دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں ’’ کلپٹو کریسی ‘‘ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے بعد سینئر صحافی رحمت علی رازی نے بیورو کریسی کے متعلق سوال کیا اور اپنے سوال میں ڈی ایم جی گروپ کو ’’برہمن‘‘ قرار دیا۔ عمران خان نے بڑے تحمل سے رحمت علی رازی کو جواب دیتے ہوئے لفظ برہمن کو اپنے پرنسپل سیکرٹری سے منسوب کر کے محفل کو کشت زعفران بنا دیا جس پر پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے چہرے پر نمایاں ہونے والی ’’لالی‘‘ صاف نظر آئی۔ عمران خان نے بتایا کہ بیورو کریسی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور کے نوازے ہوئے افسران تعینات ہیں، چونکہ تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میں آئی ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بیورو کریسی میں ہمارے اعتماد کے لوگ ہیں اور نہ ہی ہم یہ تاثر دینا چاہتے ہیں بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ افسران ایمانداری سے کام کریں اور ’’ڈیلیور‘‘ کرکے دکھائیں۔ تبادلوں اور تعیناتی کا سلسلہ چلتا رہے گا، لیکن ہماری حکومت نے پہلی بار تبادلوں اور تعیناتی کے لئے ’’پروبیشن پریڈ ‘‘ کی ٹرم متعارف کرائی ہے جس کا مطلب ہے کہ جس افسر کی چھ ماہ کی کارکردگی ٹھیک رہی اسے دو تین سال تک تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

ایک صحافی نے چائناء کے دورے کے حوالے سے پوچھا جس کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ چائناء سے 15 ارب ڈالرز کا پیکج ملا ہے جو کہ کسی بھی حکومت کے لئے تاریخ کا سب سے بڑا پیکج ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ چائنا پہلی بار پاکستان کے اندر ٹیکنالوجی ٹرانسفر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے یہ عمل خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ معیشت کے استحکام کے لئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کو چار اہم چیزیں کرنی ہیں جن میں ایکسپورٹ بڑھانی، سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا، زرمبادلہ میں اضافہ کرنا، ہنڈی اور منی لانڈرنگ جیسے ناسوروں کو ختم کرکے رقوم کی غیر قانونی ترسیل کو روکنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

اس کے بعد سینئر کالم نگار منصور آفاق نے عمران خان کی توجہ ان اہم اداروں کی طرف مبذول کرائی جہاں ایسے لوگ تعینات ہیں جنہیں آج بھی مسلم لیگ ن کی آشیر باد حاصل ہے اور یہ لوگ موجودہ حکومت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی کو منصور آفاق کی بات پر فوری ایکشن لینے کو کہا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ لوگ مجھے ’’یو ٹرن‘‘ کہتے ہیں لیکن یوٹرن کا مطلب اپنی حکمت عملی کو حالات کے مطابق تبدیل کرنا ہوتا ہے اور کھلاڑی اکثر کھیل میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں اس عمل کو غلط معنوں میں نہیں لینا چاہیئے۔ میں یو ٹرن لیتا ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا کیونکہ یو ٹرن اور جھوٹ میں ایک فرق ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ یونیورسٹیوں میں حضرت محمد پر ریسرچ پیپرز بنائے جائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ ہمارے نبی کتنے عظیم تھے۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ مشن یقیناً عاشق رسول ہونے کا ثبوت ہے اس کے بعدوزیر اعظم نے تمام کالم نگاروں کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور ملاقات کا اختتام کرتے ہوئے نماز جمعہ کے لئے روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).